اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ انتہائی قابل احترام ججز نے چیف جسٹس آف پاکستان کو ایک خط میں کہا ہے کہ ان پر فیصلوں کے لئے خفیہ ایجنسیاں دبائو ڈالتی ہیں۔ اس پر چیف جسٹس کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا اور چیف جسٹس کے کہنے پر وزیر اعظم نے سپریم کورٹ جا کر ان کے چیمبر میں ان سے ملاقات کی اور ملاقات کے بعد اس انتہائی حساس معاملہ پر سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا اعلان کیا جسے تحریک انصاف نے حسب توقع مسترد کر دیا۔ بڑی عجیب بات ہے کہ وطن عزیز میں بھائی جان ضمیر اور بھابھی جان غیرت ہمیشہ مشروط انداز میں ہی جاگتے ہیں۔ جسٹس منیر نے مولوی تمیز الدین کیس میں جمہوریت کا قتل کر کے اس ملک میں آمریت کی بنیاد رکھی لیکن کسی کا ضمیر نہیں جاگا۔ بھٹو صاحب کا کیس ایک کھلی کتاب کی مانند تھا۔ جسٹس صمدانی سے لے کر جسٹس مولوی مشتاق اور پھر سپریم کورٹ میں 9 ججز سے سات ججز تک کے حقائق سب کے علم میں تھے لیکن ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم، نیو کلیئر پروگرام اور آئین کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ہے لیکن کسی کا ضمیر نہیں جا گتا۔ ضیاء مارشل لاء کے خلاف نصرت بھٹو کیس کا فیصلہ صبح ہونا تھا تو عینی شاہد کہتے ہیں کہ رات کو ایک انتہائی ہائی پروفائل دعوت چل رہی تھی تو اس وقت کے اٹارنی جنرل شریف الدین پیر زادہ نے چیف جسٹس سے پوچھا کہ کیا فیصلہ دے رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ مارشل لاء کو جائز قرار دے رہے ہیں تو انھوں نے استفسار کیا کہ کیا آئین میں ترمیم کا حق نہیں دے رہے تو یہ سن کر وہ دعوت چھوڑ کر رات کو سپریم کورٹ پہنچے اور ٹائپ کئے گئے فیصلے پر اپنے ہاتھ سے آئین میں ترمیم کا نوٹ لکھ کر اجازت دی۔ اسی طرح مشرف کو بھی آئین میں تر میم کی اجازت دی گئی۔ ملک میں چاروں بار دور آمریت کو جائز قرار دینے کی اسناد جب یہی عدلیہ دے رہی تھی تو اس وقت بھی کسی کا ضمیر نہیں جاگا تھا ۔ چلیں قارئین کہیں گے کہ ہم ماضی کی باتیں لے کر بیٹھ گئے لیکن اب تو وہ حالات نہیں ہیں ۔ کوئی بات نہیں ماضی سے حال میں آ جاتے ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی کو ایک تقریب میں تقریر کرنے پر فارغ کیا گیا تو اس وقت بھی کسی کا ضمیر نہیں جاگا بلکہ بتانے والے بتاتے ہیں ججز نے شوکت صدیقی کے گھر ان کے بچوں کی شادی کی تقریبات تک میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ موجودہ چیف جسٹس نے جب فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ سنایا تو ان کے خلاف تحریک انصاف کی حکومت نے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا تو انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اس وقت بھی کسی کا ضمیر نہیں جاگا حتیٰ کہ اس کیس کے دوران قاضی صاحب کی اہلیہ کو کٹہرے میں کھڑا کر کے برادر ججز نے اس قدر سخت سوالات پوچھے کہ وہ معزز خاتون بھری عدالت میں رو پڑیں لیکن افسوس کہ اس وقت بھی کسی کا ضمیر نہیں جاگا۔
لیکن یہ بھی نہیں کہ ضمیر ہمیشہ سویا ہی رہتا ہے کبھی کبھی جاگ بھی جاتا ہے ۔ اکثر ججز نے اپنے کیریئر میں ایک مرتبہ پی سی او کا حلف اٹھایا ہو گا لیکن افتخار چوہدری نے دو مرتبہ پی سی او کا حلف اٹھایا لیکن مجال ہے کہ ضمیر نے انھیں کبھی تنگ کیا ہو لیکن جب اپنی نوکری کی بات آئی تو ان کا ضمیر یک دم انگڑائی لے کر خواب خرگوشاں سے جاگ گیا اور پھر عدلیہ بحالی تحریک چلائی گئی ۔ خوب ڈھول پیٹے گئے ۔ اعتزاز احسن صاحب ہر جگہ ’’ دھرتی ہو گی ماں کے جیسی‘‘ نظم پڑھ کر حاضرین کا خوب لہو گرماتے لیکن جب افتخار چوہدری صاحب بحال ہوئے تو انھوں نے سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک کو اس طرح سیاست کا اکھاڑہ بنایا کہ ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال سمیت آنے والے تمام چیف جسٹس صاحبان کے لئے مثال بن گئے اور انھوں نے انہی کے فیصلوں کی روشنی میںانہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میاں نواز شریف کو تا حیات نااہل اور دس سال قید کی سزا سنائی۔ جب دو وزرائے اعظم کو پارلیمنٹ اور الیکشن کمیشن سے بالا بالا آئین پاکستان سے متصادم فیصلوں کے تحت نا اہل قرار دے کر گھر بھیجا جا رہا تھا تو آپ خورد بین لگا کر دیکھ لیں کہ کیا کسی کا ضمیر جاگا تھا۔ تحریک انصاف کے دور میں نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز، آصف علی زرداری، فریال تالپور، خورشید شاہ، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ، میاں لطیف جاوید، سعد رفیق، سلمان رفیق، کیپٹن صفدر سمیت حزب اختلاف کی پوری قیادت کو پابند سلاسل رکھا گیا لیکن کیا کسی کا ضمیر جاگا۔ کیا ان میں سے کسی کو کسی محترم جج نے ’’ گڈ ٹو سی یو کہا ‘‘۔
دنیا اندھی نہیں ہے جسے سمجھ ہی نہ آ سکے کہ کب کہاں اور کیسے مداخلت ہوتی ہے اور کب سے ہو رہی ہے ۔ موجودہ کیس میں جن محترم ججز نے عدلیہ میں خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت کی شکایت کی ہے اس کی مکمل اور غیر جانب دار تحقیقات ہونی چاہئیں اوریقینا محترم ججز کے پاس ٹھوس ثبوت ہوں گے۔ اگر تو مداخلت ثابت ہو جائے تو جو مجرم قرار پائیں ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے اور اس میں صرف انصاف ہونا نہیں چاہئے بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔ موجودہ حکومت کو آئے ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوا اور ججز کے خط والے معاملہ میں دبائو حکومت پر ہے۔ پہلے قاضی فائز عیسیٰ پھر شوکت صدیقی اور اب ان چھ ججز کا خط اور اگر کسی کے مزاج پر گراں نہ گزرے تو بھٹو کو ضمانت دینے والے اس وقت کے لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس صمدانی کے ساتھ جو کچھ ہوا اور جن تین ججز نے بھٹو صاحب کو مقدمہ قتل میں بری کیا تھا ان ججز کے ساتھ کیا بیتی اور جسٹس صفدر شاہ کو کیوں پاکستان کو چھوڑ کر افغانستان جانا پڑا۔ انکوائری محترم چھ ججز کے خط پر بھی ہونی چاہئے لیکن اس کے ساتھ قیام پاکستان سے لے کر اب تک جو مداخلت ہوتی رہی ہے اس کو بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے تاکہ یک طرفہ بیانیہ نہیں بلکہ غیر جانبدار انکوائری سے ہر چیز شفاف انداز میں قوم کے سامنے آ جائے۔
تبصرے بند ہیں.