دہشت گردی اور زمینی حقائق

28

اشارات اور زمینی حقائق واشگاف الفاظ میں نشاندہی کر رہے ہیں کہ جنوبی ایشیا اور مشرقی وسطیٰ میں گریٹ گیم کا اگلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے اس کھیل میں اس بار بھارت پہلے سے بھی کہیں زیادہ مغربی قوتوں خاص طور پر امریکہ اور اسرائیل کا آلہ کار بنا ہوا نظر آتا ہے ۔ سمجھنا ہوگا کہ اس بار گریٹ گیم کے خطے میں کیا مقاصد ہیں ، انہیں حاصل کرنے کے لیے کیا طریقہ اپنایا جارہا ہے اور اس کھیل میں نئے کردار کونسے ہیں ؟

یقیناً اس پر اس وقت گہرے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کی لہر اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستان کے ادارے، پاکستان کی قوم اور پاکستان کے دانشور مل بیٹھ کر حقائق کو طشت ِ ازبام کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ ایسا کرنے ہی سے وہ راستہ مل سکتا ہے جس پر چل کر خطے میں پائیدار امن کو یقینی بنایا جاسکتا ہے ۔ ایک بات سمجھ لینی ہوگی اس بار ان قوتوں کا اصل ٹارگٹ پاکستان ہے ۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسی حکمت عملی تیار کی جائے جس پر عمل پیرا ہوکر پاکستان کو دہشت گردی کی حالیہ ہولناک لہر سے بچایا جا سکے یہ لہر بتاتی ہے کہ اس کا مقصد پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے۔

دہشت گردی کی یہ لہر جو پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن سے کئی ماہ قبل شروع ہوئی اس کا مقصد پاکستان کے اندر ایک ایسی فضا پیدا کرنا ہے جس کے تحت پاکستان کے اندر ادارں اور عوام میں نفرت اور خلیج بڑھے اورملک کے اندر سول وار جیسی صورت حال پیدا ہو تاہم پاکستان کے ریاستی اداروں نے خاص طور پر فوج نے جس بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کی اس لہر کو قابو کیا ہے اور جس طرح افغانستان کے اندر چھپے ہوئے پاکستان کے دشمن عناصر کا سراغ لگا کر ان کے خلاف سخت کاروائی کی ہے وہ اس امر کی طرف نشاندھی کرتے ہیں کہ پاکستان کے ریاستی ادارے اس حوالے سے ہرگز بھی غافل نہیں ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ پوری طرح الرٹ ہیں اور ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں ۔ اس وقت افغانستان کی جانب سے جو دہشت گردی پاکستان میں کی جا رہی ہے اس کے پیچھے نہ صرف امریکہ ہے بلکہ اسرائیل اور بھارت بھی اس میں پوری طرح شامل ہیں۔ بھارت بڑے پیمانے پر اس دہشت گردی کے لیے سرمایہ کار ی کر رہا ہے ۔ اس کا باضابطہ اعتراف دہلی میں بیٹھے بھارتی حکام کئی بار کر چکے ہیں ۔ بھارت کی جانب سے ٹی ٹی پی کو افغانستان میں باقاعدہ تربیت اور اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے ۔ امریکہ کی جانب سے ایک خاص حکمت عملی کے تحت جدید ترین امریکی اسلحے کا چھوڑنا بھی دہشت گردوں کے لیے کارآمد ہورہا ہے۔

دفتر خارجہ کی طرف سے یہ بیان کہ پاکستان جانتا ہے کہ دہشت گرد افغانستان میں کہاں موجود ہیں اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان اس صورت حال کو پوری طرح بھانپ چکا ہے۔ افغانستان کے اندر پاک فضائیہ کی مدد کے ساتھ پاک افواج کی حالیہ کاروائیوں اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ پاکستان اس کاروائی کا بھرپور حق اور جواز رکھتا ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے ان دہشت گردوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دے دیا جائے تو پھر پورے خطے کا امن سخت خطرے میں ہے۔ اس کا نقصان محض پاکستان کو ہی نہیں ہوگا بلکہ ایران، افغانستان، بھارت اور چین سمیت تمام ممالک کو ہو گا۔ اس لیے دہلی کو چاہیے کہ وہ آ گ سے نہ کھیلے۔ پاکستان افغانستان کے اندر کارروائی کرنے میں کس قدر حق بجانب ہے اس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغان سرزمین کا مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے، جب کہ افواج پاکستان گزشتہ 2 دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ لہر کو افغانستان سے مکمل حمایت و مدد حاصل ہے، جس میں جدید اسلحہ کی فراہمی کے نتیجے میں دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ صرف 2023ء میں دہشت گردی کے پانچ بڑے واقعات رونما ہوئے۔

12 جولائی 2023 کو ژوب گیریژن پر ہونے والے حملے میں بھی افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ اس کے علاوہ 6 ستمبر 2023 کو جدید ترین امریکی ہتھیاروں سے لیس ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے چترال میں 2 فوجی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا۔

4 نومبر2023ء کو میانوالی ائربیس حملے کی منصوبہ بندی بھی افغانستان میں پناہ لیے ہوئے دہشت گردوں کی جانب سے کی گئی۔ 12 دسمبر2023ء کو ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے درابن میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے میں بھی افغانستان سے آئے دہشت گردوں کی جانب سے نائٹ ویژن گوگلز اور غیر ملکی اسلحہ استعمال کیا گیاجس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

15 دسمبر2023ء کو ٹانک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعے میں بھی افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ 30 جنوری 2023ء کو پشاور پولیس لائنز میں کی مسجد میں بھی دھماکے سے کئی قیمتی جانوں کانقصان ہوا تھا۔ اس حملے میں بھی افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔

دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے دوران شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں 16 مارچ 2024 ء کو دہشت گردوں کی جانب سے حملے کے دوران قیمتی جانوں کے نقصان کے تانے بانے بھی افغانستان میں پناہ لیے دہشت گردوں سے جا ملتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.