مفادات کی سیاسی ہانڈی اور نمانے عوام

92

نیا گھر تعمیر کریں تو اس میں تمام افراد ہنسی خوشی رہتے ہیں لیکن سیاست کا گھر ایسا ہے کہ اس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کیھنچی جاتی ہیں اور اسی کام میں عمر تمام ہو جاتی ہے، 2024 کے الیکشن کوجمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں اور اس کے بعد وزیراعظم، وزرائے اعلٰی سمیت صدر مملکت کے انتخاب کا عمل بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے جس کے بعد تو ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کیلئے میثاق جمہوریت کرنا چاہیے تھا مگر وہی روش اپنائی گئی ہے جس میں مینڈیٹ چور، دھاندلی دھاندلی کے آوازے اٹھ رہے ہیں ،سب سے پہلا تیر سنی اتحاد کونسل کے رہنما اسد قیصر نے چلایا ہے جس میں انہوں کہا کہ عید کے بعد ہمارا حق نہیں ملا تو دوسرا راستہ چنیں گے اب اگلا راستہ جو ہو گا وہ ہو گا کہ کیھلیں گے نہ کھلینے دینگے، اسی طرح کی دھمکیاں ملک کیلئے جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہیں اور دیار غیرمیں بیٹھے پاکستانی بھی پریشان ہوتے ہیں ،وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے فرماتے ہیں عوام اور میڈیا حکومت کے درمیان پل کا کام کرتا ہے، ہم خیرات نہیں مانگ رہے لیکن حقوق ضرور لیں گے، اب آتے ہیں ماضی کی طرف جب نواز شریف اور بے نظیرکا اٹ کھڑکے کا دنیا بھر میں چرچا تھا بے نظرلاہورآتی تھیں تو نواز شریف اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب تھے فیصل آباد چلے جاتے تھے اور اگرکہیں غلطی سے ٹاکرا ہو بھی جاتا توکھا جانے والی نظروں سے ہیلو ہائے ہوتی نواز شریف سابق وزیر اعظم بے نظیر کوسیکورٹی رسک قراردیتے تھے کہتے ہیں کہ اختلافات جمہوریت کا حسن ہے اسی طرح سیاست میں مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے جاتے اور پھروقت نے کروٹ لی اور دونوں کو 14 مئی 2006ء کو لندن میں آٹھ صفحات پر مشتمل معاہدہ کرناپڑا، دونوں جماعتوں کے سربراہوں کے اس دستاویز پر دستخط سے پہلے رحمان ملک کی رہائش گاہ پر مذکرات ہوئے ان مذاکرات میں بینظیر بھٹو کی مدد پارٹی کے مرکزی رہنماؤں مخدوم امین فہیم، رضا ربانی، سید خورشید شاہ، اعتزاز احسن اور راجہ پرویز اشرف نے، جبکہ مسلم لیگ نواز کی طرف سے نواز شریف، شہباز شریف، اقبال ظفر جھگڑا، چودھری نثار علی خان، احسن اقبال اور غوث علی شاہ مذاکرات میں شریک ہوئے، چارٹر آف ڈیموکریسی میں دونوں سیاسی جماعتوں نے 1973 کے آئین کو اس شکل میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا جس شکل میں اسے مشرف حکومت نے گیارہ اکتوبر 1999 کو معطل کیا تھا، چارٹر آف ڈیموکریسی میں صدر جنرل مشرف کی طرف سے متعارف کرائی گئی آئینی ترمیم کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس میں تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر پابندی عائد کی گئی تھی، اس کے علاوہ دیگر اور بھی مطالبات تھے جو بعد میں ریت کی دیوارثابت ہوئے دونوں سیاسی پارٹیوں کے درمیان ہونے والے اس معاہدہ کا نتیجہ صفر رہایاد رہے دونوں رہنماؤں نے چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کے بعد ان قلموں کا تبادلہ کیا جن سے معاہدے پر دستخط کیے جب برف پگلتی ہے تو پھر برسوں کے بچھڑے بھی مل جاتے ہیں جس طرح مسلم لیگ ن کے قائد محمد نوازشریف نے مسلم لیگ ق کے مرکزی صدر چودھری شجاعت حسین سے ان کی رہائش پر15 سال بعد ملاقات کی اور ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان مل کر چلنے پر اتفاق ہوا،چودھری شجاعت صلح جو شخصیت ہیں، یہ ٹھیک کہ نواز، شجاعت اتنے سالوں بعد ہی ملے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس عرصہ میں جب تحریک انصاف کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کا معاملہ تھا تو شہباز شریف اس گھر میں آئے تھے اور یوں اس ملاقات کی راہ بھی تب سے ہموار تھی، اس کے علاوہ اسے حسن اتفاق بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس گھر میں تین سابق وزیراعظم خوشگوار موڈ میں ہلکی پھلکی گفتگو بھی کرتے رہے، محمد نوازشریف کے حوالے سے یہ تاثر مضبوط کیا گیا وہ بہت سنجیدہ ہیں، بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی جب مطلب ہوتا ہے تو گدھے کو باپ کہنے کی مثال سچ ثابت ہو جاتی ہے جس طرح ق لیگ کو قاتل لیگ کہنے والا زرداری انہی کے چرنوں میں جا بیٹھا اور چوہدری پرویز الہی کو نائب وزیراعظم مقرر کردیا، مبصرین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے انتخاب کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ قاف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں نائب وزیراعظم کا عہدہ تخلیق کیا گیا اور مسلم لیگ قاف کے گیلانی دور حکومت سے زیادہ رہنما ئوں کو وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا،شراکت اقتدار پر سمجھوتہ طے پانے کے بعد مسلم لیگ قاف نے مرکز میں پیپلز پارٹی حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی اور اس وقت مسلم لیگ قاف کے سات وفاقی وزراء اور سات وزرائے مملکت نے حلف اٹھایا تھا،قوم پرست رہنما محمود خان اچکزئی کے بارے میں بانی پی ٹی آئی کی زبان درازی کو عوام نہیں بھولے جب 2014 کے دھرنے میں انہیں مختلف القابات سے پکارا گیا لیکن حالیہ صدارتی الیکشن میں اچکزئی کو امیدوار نامزد کیا گیا جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سیاستدان اپنے مفادات کیلئے کیسے ایک دوسرے سے جپھیاں ڈالتے ہیںعمران خان نے پرویز الٰہی کے بارے میں کہا تھا کہ یہ شخص پنجاب کاسب سے بڑا ڈاکو ہے پھر کس طرح یو ٹرن لیا شیخ رشید کے بارے میں کہا تھا اسے اپنا چپڑاسی نہیں رکھوں گا اور پھراسے اپنی حکومت میں وزیر داخلہ بنا دیا محمود اچکزئی اُنہی لوگوں کا صدارتی امید وار بنا جو ہمیشہ اپنے دھرنوں میں اس کی تذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، تحریک انصاف کے رہنما شیر افضل مروت نے وزیراعظم کی میثاق مفاہمت کی پیشکش کو خوش آمدید کہتے ہوئے اسے دھاندلی کے تنازعے کے تصفیے سے مشروط کر دیا،شیر افضل مروت کا کہنا تھا کہ شہباز شریف نے اگر دل سے مفاہمت کی بات کی ہے اور وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان مفاہمت چاہتے ہیں تو یہ خوش آئند ہے، وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ملک کی ترقی پر نواز شریف کی تختیاں لگی ہیں، ان کی حکومت کا تین بار تختہ الٹا گیا، مقدمے بنائے گئے اور جلا وطنی پر مجبور کیا گیا، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نہ نواز شریف، نہ آصف زرداری، نہ بلاول بھٹو نے پاکستان کے مفاد کے خلاف بات کی اور نہ ہی اس طرح سوچا، جب بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کہا، ہم نے صبر و تحمل سے کام لیا کبھی بدلے کی سیاست کا نہیں سوچا اس کے باجود گزشتہ دنوں برف پگھلنے کا منظر پیش آیا جب وزیراعظم شہبازشریف سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی ملاقات ہوئی مطالبات تسلیم حمایت کی یقین دہانی علی امین گنڈاپور نے شہباز شریف سے ملاقات کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نے ہمیں مکمل تعاون اور صوبے کی واجب الادا رقم ادا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے یہ بہت بڑی کوشش ہے کہ جب شہباز شریف کو وزیر اعظم ہی نہ ماننے والے نے اچھے ماحول میں اسی وزیراعظم سے ملاقات کی جسے تمام حلقوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے یہ واقعی ملک کیلئے نیک شگون ہے ماضی میں بھی اختلافات ہوتے تھے اختلافات ختم بھی ہوتے تھے پھردوریاں ہوتی ہیں اور پھر سیاستدان اپنے مفادات کیلئے میثاق جمہوریت کا نام دیتے ہیں لیکن ان مذاکرات سے عام آدمی کو آج تک کوئی ریلیف نہیں ملاعوام کی کبھی کہیں بھی شنوائی نہیں ہو ئی عوام کو کبھی بھی سکھ کا سانس نصیب نہیں ہواجس کی وجہ سے وہ خودکشیاں کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کئی بارغلط راستے کا بھی انتخاب کرلیتے ہیں اگر سیاستدان مفادات کی ہانڈی سے نکل کرعوام کیلئے کچھ سوچیں تو یقیناعوام خوشحال ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.