اشد ترین ضرورت

26

ملک میں چار موسموں سے تو سبھی واقف ہیں پانچواں موسم انتخابات کا ہوتا ہے جس کے بارے میں اب فیصلہ ہو چکا ہے کہ پانچ برس بعد یہ موسم آیا کرے گا اور پانچ برس بعد ہی انتخابات ہوا کریں گے۔ ہم جیسا غریب ملک مڈٹرم جیسی عیاشی کا متحمل نہیں ہو سکتا، اب اسمبلیوں میں پیار محبت کی فضا قائم رہے یا مار دھاڑ سے بھرپور شاہکار دیکھنے میں آئیں، اسمبلی اپنی مدت پوری کرے گی۔ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں کی مدت پانچ کے بجائے چار برس کرنے کی تجویز موجود ہے نئی بننے والی حکومت کے پاس اکثریت موجود ہے وہ کئی اہم فیصلے کرنے پر قادر ہے چھوٹی سیاسی جماعتوں کی محتاج نہیں۔

صدر پاکستان کا انتخاب ہو چکا آصف علی زرداری صاحب دوسری مرتبہ صدر پاکستان منتخب ہوئے ہیں انکے مقابل جناب اچکزئی صاحب تھے جنہوں نے اس انتخاب میں حصہ لینے کا تکلف ہی کیا۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر اتحادی جماعتوں کے پاس اکثریت موجود تھی۔ واضح تھا کہ صدر آصف علی زرداری ہی ہونگے جناب اچکزئی پر بھی یہ بات واضح تھی لیکن انہوں نے آزاد گروپ کی طرف سے نامزدگی کے بعد صدارتی انتخاب میں حصہ لینا مناسب سمجھا، یہ ان کا آئینی حق تھا کبھی کبھار اپنا آئینی حق استعمال نہ کرنا بہتر ہوتا ہے، جناب اچکزئی صدارتی انتخاب میں شکست کھانے کے بعد بھی مطمئن ہیں، ان کے کہنے کے مطابق یہ پہلا انتخاب ہے جو انتہائی منصفانہ ہے کسی کا ووٹ خریدنے کی یا کسی کو کسی خاص طرف مائل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے جو بہت اچھی بات ہے۔ جناب آصف زرداری کے پاس ووٹ اتنے زیادہ تھے کہ کچھ اور کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ کچھ اور کرنے کی ضرورت تو وہاں ہوتی ہے جہاں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا شخصیات کے ووٹوں میں معمولی فرق ہو، صدر مملکت کے انتخاب کے بعد وفاقی وزراء کی ٹیم سامنے آئے گی پھر اسکے بعد سینیٹ کے انتخابات کا مرحلہ ہو گا جس کے بعد الیکشن کا موسم ختم ہو جائیگا۔ حسن اتفاق ہے اس مرتبہ ایوان وزیرا عظم اور ایوان صدر میں ہم مزاج شخصیات پہنچی ہیں، صدر آصف علی زرداری دھیمے مزاج کے سیاستدان ہیں افہام و تقہیم پر یقین رکھتے ہیں وہ ساتھیوں کو اتحادیوں کو مطمئن کرنے انہیں ساتھ لیکر چلنے کا فن جانتے ہیں، سیاست اور صدارت کا وسیع تجربہ انکے سیاسی مزاج کے ساتھ مل کر مثبت نتائج لاسکتا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ وہ ملک کی اکانومی کے حوالے سے بھی واضح تصورات رکھتے ہیں ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم کی ترجیح اول ملک کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانا ہے۔ اس حوالے سے ایوان صدر یا صدر پاکستان کا کردار نسبتاً کم ہے لیکن ملک کی دوسری بڑی جماعت اور اکثریتی حلیف ہونے کی حیثیت سے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور دیگر ممبران قومی اسمبلی اور آنے والے ممبران سینیٹ اہم تعاون کے ذریعے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرتے رہیں گے یوں اپنا اہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔

ملک میں ہونے والے ہر عام انتخاب کو کوئی نہ کوئی نام دیا جاتا ہے ایک دور میں این آر اوز کا الیکشن کہا گیا، اگلے دور میں اسے آر ٹی ایس کا الیکشن کہا گیا، حالیہ انتخابات کو فارم 45 اور فارم 47 کا الیکشن کہا گیا، اسے الیکشنز کا نک نیم سمجھ لیجئے۔ جیسے امریکہ و یورپ میں ہر طوفان کو ایک نام دے دیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ہر گھر میں بچوں کے نک نیم رکھے جاتے ہیں، جسے رانی کہا جاتا ہے وہ کسی راج دھانی کی رانی نہیں ہوتی لیکن عمر بھر رانی کہلاتی ہے۔ جسے گڈو کہتے ہیں اسکی شکل کسی بھی طور کسی گڈے گڑیا سے نہیں ملتی وہ دادا ابا بن کر بھی اپنے بہن بھائیوں کیلئے گڈو بھائی ہی کہلاتے ہیں یا گڈو باجی کہلاتی ہیں۔ بچوں کے نام عمر کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں لیکن الیکشنز کے نک نیم پانچ برس تک کی عمر پاتے ہیں۔ نیا الیکشن نیا نام پاتا ہے لیکن الیکشن کا چند چلنے والا موسم گزرنے کے بعد اس نک نیم کی جگہ نیا نک نیم آ جاتا ہے، اس کے بعد اگلا اور پھر اسکے بعد اگلا۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا ہے اس طرح ختم ہو جاتا ہے۔ فارم 45 اور فارم 47 بھی اسی طرح اپنی عمر پوری کر لے گا۔ آج جنہیں وزیراعظم پسند نہیں وہ اعلان کرتے نظر آتے ہیں کہ ان سے ہاتھ نہیں ملائیں گے عنقریب وہ ہاتھ بھی ملاتے نظر آئیں گے اور گلے ملتے بھی نظر آئیں گے۔ جمہوری عمل میں یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے؟ آئندہ بھی منظر مختلف نہ ہو گا۔ ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے اور پھر اسے ختم کرنے میں پہل کریں۔ دونوں سیاسی جاعتوں کے صف اول کے لیڈروں جناب آصف علی زرداری اور جناب شہباز شریف اس معاملے میں مثبت سوچ اور رویہ رکھتے ہیں۔ مرکزی کابینہ کے حلف اٹھانے اور سینیٹ کے انتخابات کے بعد انکی اس حوالے سے کوششیں نظر آئیں گی، ملک میں سیاسی استحکام وقت کی اشد ترین ضرورت ہے یہ ضرورت ہمیشہ ہی رہی لیکن موجودہ حالات میں سیاسی محاذوں پر کشیدگی کا خاتمہ ہو گا تو ملک کی اقتصادی تعمیر نو کا کام شروع ہو گا۔ 24 ارب ڈالر کی ادائیگیاں ہمارے سر پر سوار ہیں کچھ کا انتظام ہو چکا کچھ کا ابھی کرنا ہے کچھ قرضے ری شیڈول ہونے سے وقتی ریلیف تو ملا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی بڑا قرض معاف نہیں ہوا، ادائیگیاں تو کرنا ہیں۔ حکومت نے کپیسٹی چارجز کے حوالے سے کی جانے والی ادائیگیوں اور ڈبلیو ٹی او کے ممبر بننے سے جنم لینے والے مسائل پر جس قدر جلد قابو پا لیا حکومت اور پاکستان دونوں اتنے ہی جلد سکھی ہو جائیں گے۔ بجلی نہ خریدنے کے باوجود جو رقم ادا کی جاتی ہے اس سے پاکستان کی جان چھوٹ جائے تو اس خطیر رقم سے قرضے اور اقساط ادا ہو سکیں گی یہی رقم ملکی ترقی کے منصوبوں پر خرچ کی جا سکے گی۔ خوراک میں ملاوٹ ادویات میں ملاوٹ کی سنگین سزائیں مقرر ہو جائیں تو ادویات کی امپورٹ اور ہسپتالوں پر اٹھنے والے اخراجات بچ جائینگے۔ قوم بیماریوں سے بچے گی تو صحت مند ہو گی یوں اس مد میں بے تحاشا اخراجات کی بچت ہو گی جو آج ضروری سمجھے جاتے ہیں، ان سے مفر ممکن نہیں۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہونگے تاکہ لاکھوں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی توانائیاں مثبت کاموں میں لگائیں اس حوالے سے دنیا کے وہ تمام مالک جن سے پاکستان کے تعلقات اچھے ہیں وہاں پاکستان کے سفارتخانے موجود ہیں انہیں ٹاسک دینا چاہئے کہ وہ پاکستانی افرادی قوت کیلئے جگہ بنائیں۔ ہمیں سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے علاوہ دنیا بھر میں اپنی افرادی قوت کو کھپانے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے، حصول انصاف کو آسان بنانا ہو گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پنتالیس برس بعد انصاف ملا سیکڑوں مقدمات اور بھی ہیں جن میں مظلوموں کو ناکردہ گناہوں کی سزا ملی، ایک سو چالیسویں نمبر سے ایک نمبر پر لانے کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ یہ بھی ہماری اشد ترین ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.