ماہِ رمضان اور رمضان نگہبان پروگرام۔۔۔۔۔۔

41

رمضان المبارک آتے ہی بند مٹھیاں کھل جاتی ہیں اورہر سونیکیوں کی بہار کا سماں نظر آتا ہے جگہ جگہ افطاری اور سحری کا انتظام ہوتا ہے بندگان دین اللہ کے دئیے سے دل کھول کر راہ حق میں خرچ کرتے ہیں رمضان کے متعلق یہ تصور عام ہے کہ اس ماہ میں زیادہ نفل نمازیں پڑھی جائیں، تلاوت کی جائے، ذکر اذکار کیاجائے اوراس کے علاوہ کچھ صدقہ وانفاق کر دیا جائے اس کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے،دوسری طرف نو منتخب وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازنے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ مہنگائی کیخلاف اقدامات کرنے اورنگہبان رمضان کے نام سے پروگرام کا اعلان کیا جو خوش آئند اقدام ہے کیونکہ مہنگائی کے مارے عوام کو کچھ تو ریلیف ملے گا؟ جبکہ وزیراعلیٰ مریم نواز کیلئے ضروری ہے کہ گھروں تک جو راشن پہنچانے کا اعلان کیا ہے اس میں شفافیت کو مد نظررکھا جائے، ارشاد نبوی ﷺ ہے ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور سب سے زیادہ اللہ کا محبوب بندہ وہ ہے جو اللہ کے کنبے کو نفع پہنچائے، ہمیں آپ ﷺ کے ارشاد مبارک کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی فلاح کی طرف قدم بڑھاناچاہیے اورسوشل ویلفیئراینڈ بیت المال کے پاس مستحقین کی لسٹیں ہیں ان سے استفادہ کیا جانا چاہیے تاکہ حق دار کو حق ملے، رمضان المبارک میںمالدارلوگ عموماً اپنے مال کی زکوٰ ۃ نکالتے ہیں، ان میں سے بعض تو خود سے غربا ومساکین اور مستحقین میں زکوٰۃ تقسیم کرتے ہیں اورایک مدت سے یہ کام برصغیر میں ہوتا چلا آرہا ہے،بیت المال کے ذریعہ ضرورت مند مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کے بارے میں مسلم ملک ومعاشرہ میں ضرورت مندوں کو ان کی ضرورت کی چیزیں فراہم کرنے کے لئے بیت المال سے استفادہ کرنا چاہئے کہ اس کے ضرورت مندوں کی حاجت پوری کی جاسکے اوریہ اسلام کے عادلانہ نظام کا ایک اہم جز بھی ہے کہا جاتا ہے کہ عہد فاروقی میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہیں تھا حکومت پنجاب مستحق لوگوں کی ضروریات کو مد نظر رکھے تاکہ حق دار کو اس کا حق مل سکے، دوسروں کی مدد کرنا ان کی ضروریات کو پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت پسندیدہ عمل ہے،ضرورت مندوں کی مددکرنا دین اسلام کا بنیادی درس ہے، خالق کائنات اللہ ربّ العزت نے امیروں کو اپنے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے، صاحب استطاعت پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مدد کریں جو لوگ معاشرے سے غربت وافلاس دور کرنے کے لئے اپنا مال ،دولت خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں، ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ مال کو کئی گنا بڑھاکردیاجائے گا اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت کو حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر بیان کیاگیا ہے، دوسروں کی خیر خواہی اور مدد کرکے حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے،محسن انسانیت ﷺ نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ عملی طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود بھی یتیموں، ضرورتمندوں کی مدد کرتے، آج ہمیں اپنے رشتہ داروں، ہمسایوں ، ضرورت مندوں کے دکھ درد کا احساس ہی نہیں ہے، ہم خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن کسی پڑوسی کی طرف مڑ کر بھی نہیں دیکھتے،ہماری مدد و معاونت سے اگر کسی کی جان بچ سکتی ہے، کسی کی مشکل آسان ہوسکتی ہے ، کسی مجبور کا علاج ہوسکتا ہے، کسی کے حصول رزق میں معاونت ہوسکتی ہے ، کسی مجبور کی بیٹی کی شادی ہوسکتی ہے، کسی کے بچوں کا طرز زندگی بہتر ہوسکتا ہے، کسی کو حصول علم میں مدد دی جاسکتی ہے تو یہ ہمارے لئے باعث اعزاز اور باعث راحت ہے، اپنی زندگی کو اس انداز سے گزارنے کی کوشش کی جائے کہ دین و دنیاکی خوشنودی کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان بھی حاصل ہو ، یہی حقیقی زندگی ہے ، ماہ رمضان میں بھوک اور پیاس سے گزر کر خدمت خلق کی تعلیم دی جاتی ہے، بغیر کچھ کھائے پیئے صبح سے شام تک نفس کو کنٹرول کر کے احکام الٰہی کا فروغ کیا جاتا ہے ، جب روزہ دار کا حلق پیاس کی شدت اور گرمی کی وجہ سے خشک ہوجاتا ہے تو اسے ان لوگوں کا اندازہ ہوتا ہے جن تک پانی کی ایک بوند بھی رسائی نہیں ہوتی، روزہ کی روح اور اس کی معنوی حقیقت فرد اور معاشرے میں ایک تبدیلی ہے، جس میں بندہ ایک دوسرے کی غمگساری اور خدمت خلق کیلئے توجہ بڑھاتا ہے،حقیقتاً روزہ کی روح اور اس کی معنویت سے کچھ لوگ ناواقف ہوتے ہیں جن کا بھوکا رہنا اللہ کو پسند نہیں،اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس کی بنیاد ہمدردی، باہمی محبت، تعاون اور ایثاروقربانی پر ہے جہاں ہر شخص کسی دوسرے کی مدد کیلئے ہر وقت رہتا ہے،آج ہمارے سماج میں بے شمار افراد غربت وافلاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور سیاسی وسماجی ظلم کا شکار ہیں، ان کے حق میں آوازہ بلند کرنا بھی خدمت خلق ہے، آج ہمیں بڑے پیمانے پر یہ کام کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح رمضان میں لوگوں کی خدمت کیلئے پروگرام کا اعلان کیا گیا ہے اسے عملی شکل دینے کیلئے آئندہ بھی جاری رہنا چاہیے اس سے دنیا کو ایک اچھا پیغام ملے گا،حدیث پاک میں رمضان کے مہینے کو شہرالمواسا کہا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ بھوک پیاس کی سالانہ رسم نہیں بلکہ خدمت خلق کی سالانہ ٹریننگ ہے،اسے ریفریشرکورش بھی کہا جا سکتا ہے حکومت بیت المال سے بھی مستحقین کی لسٹیں منگوا کرخدمت کے جذبے کو مزید وسعت دے سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.