چیف جسٹس کا سنہری کردار

26

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جس معاشرے میں انصاف ختم ہوجائے وہ جلد یا بدیر اپنے منطقی انجام سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تباہی انکا مقدر ہوتی ہے جو لاکھ دامن بچانے کے باوجود انہیں تلاش کرکے ہی دم لیتی ہے۔ لہٰذا انصاف کی فراہمی میں ہی انسانی معاشروں کی بقاء مضمر ہے۔ اس سے نظریں چرانے والے تہی دامن رہ جاتے ہیں۔ تاہم نہ جانے کیوں قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک ایک عام پاکستانی انصاف سے محروم کیوں ہے؟ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسکے لیے اپنا حق اور انصاف حاصل کرنا گویااس گوہر نایاب کی مانند ہے جسکی طلب اور تڑپ تو یقینا اس کے دل میں ہر لحظہ جانگزیں ہے تاہم اسکا حصول ایک ایسے خوابِ نا تمام کی مانند ہے جسکی کوئی تعبیر نہیں۔ یہاں آج بھی انصاف ملتا نہیں بلکہ خریدا جاتا ہے۔ خریدار کے پاس اگر اچھا ’بھائو تائو‘ کرنے کی ہمت اور صلاحیت موجود ہو تو پھر قانون اسکے گھر کی وہ باندی ہے جسے وہ جب چاہے اپنی مرضی و منشاء کے مطابق استعمال میں لاسکتا ہے۔

ورنہ اسے حاصل کرنا تو دور کی بات، اسکے بارے میں سوچنا بھی شجرِ ممنوع کی مانند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستِ پاکستان میں اُن عام پاکستانیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے جو اپنے اوپر ظلم ہونے کے بعد آخری پوشاک پہن لیتے ہیں۔ پاکستان میں ناانصافی نے ہر شعبہ ہائے زندگی کو اپنے چنگل میں جکڑ رکھا ہے۔ تھانہ کچہری ہو یا پھر ناجائز ٹیکسوں کا ظالمانہ نظام، ہسپتال ہو یا پھر یوٹیلٹی بلز کی وصولی کا نظام ہر طرف ظلم اور ناانصافی کا منحوس چکر چل رہا ہے۔ وسائل کے تمام سوتوں کے رُخ اشرافیہ اور انکے خویش و اقارب کے جانب، رہے ستم رسیدہ یا سوختہ بال پاکستانی تو نرے محروم۔ ریاستی نظام کی اس خرابی میں چاہے مقننہ ہو یا عدلیہ، ریاستی ادارے ہوں یا پھر سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ، سبھی نے حصہ بقدر جُثہ ڈالا ہے۔ تاہم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس سپریم کورٹ بنتے ہی نظام ِانصاف کے اُفق کو تیزی سے بڑی تبدیلی رونما ہوتی دکھائی دی ہے۔ کہتے ہیں کہ جج نہیں بلکہ جج کے فیصلے بولتے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی کرسی سنبھالتے ہی جس دلیرانہ انداز میں فیصلے کیے ہیں وہ تاریخی نوعیت کے ہیں۔ ان سے انصاف کا بول بالا ہوا ہے۔

یقیناً یہ پاکستان میں نظامِ انصاف کی درستگی، سرکاری اداروں کی بہتری، جمہوریت کی بقاء اور عوامی فلاح کے لیے سنگ میل ثابت ہونگے۔

ان کی جانب سے کیے گئے اہم عدالتی فیصلے کئے گئے اور جن میں اہم عدالتی پیش رفت جاری ہے ان میں عام انتخابات، نیب ترامیم، توشہ خانہ اور ملٹری کورٹس، مشرف کیس اور پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلے کو ختم کرنے کے کیس سرِفہرست ہیں۔ سال 2023ء کئی لحاظ سے عدالتی ہلچل بیداری کا سال رہا، سیاسی افرا تفری کے بعد گرفتاریاں، فوجی عدالتیں، سپریم کورٹ اصلاحات بل، توشہ خانہ اور نیب ترامیم سے لے کر عام انتخابات کی حتمی تاریخ کے اعلان میں عدالتوں کا اہم کردار رہا۔ عدالتی تاریخ میں پہلی بار لائیو سماعت بھی کی گئی جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس بننے کے فوری بعد فل کورٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کیں اور اس عدالتی کارروائی کو ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیا گیا۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو قتل کیس کی تحقیقات سے متعلق ریفرنس کی سماعت کو بھی ٹی وی پہ براہ راست دکھایا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سپریم جوڈیشل کونسل سے بطور جج برطرفی کے خلاف درخواست کی بھی لائیو کوریج نشر کی گئی۔ عام انتخابات سے متعلق ریٹرنگ افسران اور ڈسٹرکٹ ریٹرنگ افسران کی تعیناتی پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم اور الیکشن کمیشن کو الیکشن کا شیڈیول جاری کرنے کی کارروائی بھی براہ راست نشر کی گئی۔

17 ستمبر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دیا گیا۔ 10 اپریل 2023 کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا گیا تھا۔ 12 اپریل کو سپریم کورٹ میں ایکٹ منظوری کے خلاف چار درخواستیں دائر کی گئیں۔ سپریم کورٹ نے تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے 11 اکتوبر کو پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانونی قرار دے دیا۔ ماسٹر آف رول کا تصور ختم کرتے ہوئے بینچ کی تشکیل، مقدمات موخر کرنے اور از خود نوٹس کا صرف چیف جسٹس کا اختیار تین رکنی ججز کمیٹی کو منتقل کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے مارشل لا لگنے پر سب ہتھیار پھینک کر توثیق کر دیتے ہیں، پارلیمنٹ کچھ کرے تو حلف یاد آ جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کی قدر کریں۔ سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن نے دو نومبر کو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا اور ملک میں قومی انتخابات کے لیے آٹھ فروری 2024 کی تاریخ طے پائی۔

نیب ترمیمی ایکٹ کے خلاف عمران خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ دس میں سے نو ترامیم کالعدم قرار دے دی گئیں۔ 50 کروڑ روپے کی حد سے کم بدعنوانی کے مقدمات پر نیب کا دائرہ اختیار ختم کرنے کی شق بھی کالعدم قرار دی گئی۔ جس کے نتیجے میں آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، شوکت عزیز، راجہ پرویز اشرف، اسحاق ڈار، مراد علی شاہ سمیت دیگر سیاستدانوں کے وہ تمام مقدمات احتساب عدالتوں میں بحال ہو گئے جو نیب ترمیمی ایکٹ کے باعث نیب کو واپس کر دیے گئے تھے۔ سپریم کورٹ نے 13 دسمبر کو فوجی عدالتوں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر مشروط فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں سویلین کا ٹرائل جاری رہے گا لیکن فوجی عدالتیں اپیلوں کے فیصلے تک ٹرائل پر حتمی فیصلہ نہیں دیں گی۔

تبصرے بند ہیں.