کہیں دیر نہ ہو جائے

32

عشق کیوں ہوتا ہے؟ ایک بار حضرت جعفر صادقؓ سے کسی نے یہ پوچھا کہ عشق کیوں ہوتا ہے، کسی انسان کو کوئی انسان اتنا اچھا کیوں لگتا ہے کہ اس کے سامنے ساری کائنات کچھ نہیں لگتی۔ امام جعفرؓ نے جواب دیا: میں نے اپنے بابا، انہوں نے اپنے بابا سے یہ کہتے سنا ہے کہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی کوئی نہ کوئی صفت ضرور موجود ہوتی ہے۔ کوئی رحمدل تو کوئی سخی ہوتا ہے، تو کوئی عادل تو کوئی شجاع ہوتا ہے۔ انسان اپنے اندر پائے جانے والے اوصاف کی خوشبو کسی دوسرے میں محسوس کرتا ہے تو اس کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس سے بات کرتا ہے، دیکھتا ہے اور اس سے ملنا اسے اچھا لگتا ہے اور اسے یہ لگتا ہے کہ یہ میرا اور میں اس کا ہوں۔ دراصل وہ خود کو اس میں اپنے اور اپنے آپ میں اس کو دیکھتا ہے اور ہر جگہ اس کی کمی محسوس کرتا ہے تاکہ دونوں ایک دوسرے سے راضی رہیں۔ اس کیفیت کو زمانے والے عشق کہتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد میں سوچتا ہوں کہ ہماری محبتیں، پیار، دکھ ، سُکھ نفرتوں میں کیوں بدل گئے ہیں، کیوں ہم نے ایک دوسرے کو برداشت کرنا بند کر دیا، کیوں ہم نے ایک دوسرے کو رنجشیں دینا شروع کر دی ہیں، گھر کے ماحول سے ملک کے ماحول تک خوشگوار فضاء بدلی بدلی دکھائی دینے لگی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ گزشتہ چار پانچ سال میں ملک میں بڑھتی سیاسی افراتفری، معاشی بدحالی اور سیاست دانوں کی طرف سے دی گئی بدزبانیوں نے ہماری گھروں کی شناخت کو کمزور کرکے رکھ دیا ہے۔ سیاسی ہمدردیاں، سیاسی نظریئے، سیاسی اختلافات نے رشتوں میں بڑی دراڑ پیدا کر دی ہے۔ یہاں تک کہ ایک دوسرے کے ساتھ بات تک نہیں کرتے۔
اب 8؍ فروری کو ملک میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پرفضاء انتخابی ماحول میں ان کا انعقاد ہو جیسا کہ دنیا بھر کے انتخابی پراسیس کو ہم دیکھتے ہیں۔ وہاں ایسی فضا اور حالات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ جہاں سیاسی جھگڑے ہوتے ہوں، ایک دو واقعات تو ہو جاتے ہیں۔ خاص کر ایشیائی ممالک کے انتخابات میں تھوڑا بہت ہو جاتا ہے جبکہ یورپی اور دوسرے ممالک میں پرامن فضاء میں ان کے عوام انتخابی قواعد و ضوابط کے تحت انتخابی پراسیس میں شرکت کرتے ہیں اور پھر باوقار طریقے سے نمائندوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ انتخابات کے دوران بحث و مباحثے ہوتے ہیں۔ جلسے، جلوس، کارنر میٹنگز ان کا حسن ہوتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں اب تک جتنے بھی قومی انتخابات ہوئے یہاں کبھی بھی پرفضاء ماحول نہیں بنانے دیا گیا۔ پسند ناپسند تو اپنی جگہ یہاں تو پولنگ سٹیشنوں سے بیلٹ بکس اٹھا لئے جاتے ہیں۔ امیدواروں کو اغواء کر لیا جاتا ہے۔ انتخابات کے اگلے روز ہی دھاندلی کے الزامات لگا کر عدالتوں میں جانے کے اعلانات ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں دھرنوں کی روایات کو ابھارا جاتا ہے۔ یہی ماحول ہمارے انتخابی پراسیس کو گندہ ترین کئے ہوئے ہے۔ اسی ماحول نے نفرتوں کو ہمارے ایسا بیج بویا کہ اس سے جو فصل اُگ رہی ہے وہ تباہی ہے۔

پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے سلسلے میں ابھی تک جو ماحول ہونا چاہئے وہ نہیں بن پایا، ابھی بھی ماحول میں دھند سی چھائی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے تمام تر انتخابی پراسیس مکمل ہونے کے باوجود ناامیدی کی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ آج ہم حالات کی طرف دیکھتے ہیں تو انتخابات میں ایک بڑی جماعت کو انتخابی پراسیس سے باہر رکھنا بھی بہت سے خدشات کو جنم دیتا ہے گو تمام تر باتوں کا احاطہ کیا جائے تو تمام تر غلطیاں اس جماعت کے بانی اور سیکنڈ لیڈرشپ کی طرف سے سرزد اور خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ الیکشن کمیشن، ہائی کورٹس اور اب سپریم کورٹ کے فیصلہ کو دیکھا جائے، انہوں نے جو بویا وہی کاٹ رہے ہیں۔ یہ کائنات قدرت کا فطری عمل ہے کہ انسان سے لے کر اس کے تمام کئے کاموں تک کا ایک پراسیس ہے اور یہی پراسیس اس کے بنائے اپنے نظام پر ہے جیسا وہ بنائے گا اور جس طرح عملدرآمد کرے گا اس کا ردعمل بھی ویسا ہی آئے گا۔ تحریک انصاف نے گزشتہ پانچ سالوں میں خود جو مشکلات پیدا کیں انہی کو آج وہ بھگت بھی رہے ہیں۔ میرے نزدیک دوسری بڑی غلطی بانی تحریک انصاف نے یہ کی کہ انہوں نے پارٹی کو وکلاء کے سپرد کر دیا۔ ان کو شاید یہ خوف تھا کہ ان کا اپنا کوئی سیاسی رہنما تحریک انصاف کو اغواء نہ کرے اگر بانی سیاست دان ہوتے کیونکہ انہوں نے سیاست سیکھی نہ کی تو کبھی پارٹی کی قیادت وکلاء کے ہاتھوں میں نہ دیتے کہ سیاست سیاست ہوتی ہے اور وکلاء وہ سیاست نہ کھیل سکے کہ یہ ان کا کام ہی نہیں ہے لہٰذا انہوں نے کھیل کو مزید بگاڑ دیا۔ وکلاء کی نئی سیاست نے عدالتوں کے اندر اور باہر جو حکمت عملی اپنائی اس سے تحریک انصاف کے منشور اور اس کی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا اور وکلاء ہی کی وجہ سے انتخابی نشان بلا چھن جانے کے بعد انتخابی گرائونڈ میں تحریک انصاف کو شدید دھچکا پہنچنے کا اندیشہ ہے اور اس انتخابی نشانات کی تقسیم سے ”آزاد امیدواروں“ کو زیادہ فائدہ پہنچے گا۔

یہ بات بھی طے ہے کہ 2024ء کے انتخابات میں جو بھی نتائج آئیں گے، ان پر ابھی سے آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف بانی تحریک انصاف نے ہمیں جیل سے پرانے بیانات دینے کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پھر صدا دی ہے کہ یہ یکطرفہ انتخابات ہیں یقینا وہ اس نعرے کی آڑ میں اگر وہ باہر آ گئے تو پھر دھرنا سیاست کی تاریخ کو دہرائیں گے۔ میں نہ مانوں کی رٹ دوبارہ قائم کی جائے گی۔
اور آخری بات……

الیکشن آئیں گے اور چلے جائیں گے مگر دوستی، رشتے اور احترام کا دامن نہ چھوڑیں اور محبتوں کو نفرتوں کا بدل نہ بدلیں اور اپنے درمیان اتنی دوریاں نہ کریں کہ محبتوں کے تمام دروازے بند ہو جائیں، پرفضا ماحول ہی بہترین انتخابات کا حل ہے۔ اگر پرانی روایات کو آج اور فوری نہ چھوڑا گیا تو پھر کہیں دیر نہ ہو جائے اور… بقول علامہ اقبالؒ…
دلوں کی عمارتوں میں کہیں بندگی نہیں
پتھروں کی مسجدوں میں خدا ڈھونڈتے ہیں لوگ

تبصرے بند ہیں.