ایک اور برس بیت گیا

33

2023 گزر گیا۔ کچھ کے لیے اچھی اور کچھ کے لیے بُری یادیں چھوڑ گیا۔ ن لیگ کے لیے کئی اچھی یادیں لیکن پی ٹی آئی کے لیے خوفناک یادیں چھوڑ گیا ہے۔ نواز شریف اسی سال خود ساختہ جلا وطنی کے بعد پاکستان تشریف لے آئے۔ مینار پاکستان پر ایک بڑے استقبالیہ جلسے سے بھر پور خطاب فرمایا، عدالتوں میں پیشی کی تیاری کی۔ انہیں ریلیف ملنا شروع ہوا اور پھر وہ آگے بڑھتے چلے گئے۔ انکی سیاسی جماعت میں جوش و خروش پیدا ہوا۔ ملکی سیاست میں انکی قبولیت کے چرچے ہونا شروع ہوئے تاثر پیدا ہوا کہ انکی ڈیل ہو گئی ہے، اور وہ نہ صرف اس ڈیل کے تحت وطن واپس لوٹے ہیں بلکہ الیکشن 2024 کے بعد انہی کی حکومت بھی بننے جا رہی ہے۔ اس تاثر نے ہواؤں کا رخ ن لیگ کی طرف موڑ دیا ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے لیے زمین تنگ کر دی گئی ہے، اس کا بندوبست انہوں نے خود کیا، 9 مئی کا سانحہ اگر وقوع پذیر نہ ہوتا تو آج پی ٹی آئی میدان سیاست و انتخاب میں ہوتی۔ عمران خان حسب عادت سیاستدانوں کے لتے لے رہے ہوتے، اپنی گفتار کے ذریعے اپنوں کے جذبات گرما رہے ہوتے جبکہ مخالفوں کے سینوں پر مونگ دلتے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ عمران خان اپنی زبان کی بے لگامی کے ہاتھوں جیل میں ہیں اور انکی پارٹی معدومیت کے خطرات میں گھری ہوئی ہے تمام مشکلات کے باوجود انکی تربیت یافتہ ٹیم کے کھلاڑی کذب اور دروغ گوئی کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ایک وڈیو کو وائرل کر کے خوب پروپیگنڈہ کیا گیا کہ دیکھیں ایک خاتون آر او کیسے اٹھ کر جہانگیر ترین کا استقبال کر رہی ہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے آنے والے ایک امیدوار کو اس طرح کا خصوصی پروٹوکول دے کر یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن غیر جانبدار نہیں ہے۔ اس وڈیو کو خوب وائرل کیا گیا اور پروپیگنڈے کے ذریعے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کو خوب رگیدا گیا۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ وہ خاتون مولانا مودودیؒ کی پوتی ہیں اور وہ تمام آنے والے امیدواران کا اسی طرح احترام و استقبال کرتی رہی ہیں جس طر ح انہوں نے جہانگیر ترین کا کیا۔ یہ انکی خاندانی تربیت کا نتیجہ ہے کہ وہ احسن طریقے سے تمام امیدواران کا استقبال کرتی ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی کا کلچر ہی ایسا ہے کہ دروغ گوئی سے کام لیا جائے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ ان کے امیدواران کو کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے روکا گیا ہے اور جن کے کاغذات داخل ہو گئے انہیں نا اہل قرار دیا گیا ہے گویا الیکشن کمیشن جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ امیدواران کو روکے جانے کے اِکا دُکا واقعات رونما ہوئے ہیں، اسکی لوکل وجوہات ہیں کسی جگہ امیدوار مطلوب ملزم تھا اسلئے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ کسی جگہ لوکل جھگڑا ہوا اور کوئی امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی داخل نہیں کرا سکا۔ اس بات کا تعلق الیکشن کمیشن کے ساتھ نہیں ہے ہاں کاغذات نامزدگی کے مسترد کیے جانے کا تعلق الیکشن کمیشن کے ساتھ ضرور ہے، سیکڑوں نہیں ہزاروں افراد کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے ان میں تمام جماعتوں کے امیدواران شامل ہیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ زیادہ تر مسترد کردہ افراد کا تعلق پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ پلڈاٹ کے احمد بلال محبوب نے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں پی ٹی آئی کے اس پروپیگنڈے کا پردہ بھی چاک کر دیا ہے کہ اس دفعہ مسترد کیے جانے کی شرح بہت زیادہ ہے 2003 سے لے کر 2018 تک ہونے والے انتخابات میں کاغذات جمع کرانے اور مسترد کیے جانے والوں کی اوسط شرح، عمومی شرح کے برابر ہی ہے، کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اس دفعہ کاغذات جمع کرانے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور اسی حساب سے مسترد کیے جانے والے امیدواروں کی تعداد بھی زیادہ نظر آ رہی ہے لیکن فی صد شرح زیادہ نہیں ہے ہاں کیونکہ پی ٹی آئی بطور جماعت ایک تخریب کار اور ریاست دشمن کے طور پر کٹہرے میں کھڑی کی جا چکی ہے۔ اسلئے اس کے امیدواران کے استرداد کی شرح زیادہ نظر آ رہی ہے تو یہ بعید از قیاس نہیں ہے۔ لیکن کیونکہ پی ٹی آئی کی سیاست کھڑی ہی جھوٹ اور کذب پر ہے اسلئے جھوٹ بولنا اور بولتے ہی چلے جانا ان کا وتیرہ ہے جو وہ نبھاتے چلے جا رہے ہیں۔

2023 کی طرح 2024 کا آغاز بھی بے یقینی اور نا امیدی سے بھی ہو رہا ہے الیکشن کے ہونے یا نہ ہونے کے معاملات پر اب بھی دھند چھائی نظر آ رہی ہے۔ ویسے تو ایک مخصوص گروہ الیکشنوں کے انعقاد کو مشکوک بنانے پر تُلا بیٹھا ہے اور جو الیکشن کے پُر جوش حامی نظر آتے ہیں ان میں سے بھی کئی ایک اس کے انعقاد کی راہیں مسدود کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت کا طرز فکر و عمل اس بات کا عکاس ہے کہ وہ انعقاد کی راہیں عملاً مسدود کرنے میں مشغول ہے۔ مولانا فضل الرحمان تو کھل کھلا کر الیکشن مؤخر کرانے کی مہم پر نکل پڑے ہیں کبھی موسم کی شدت اور کبھی تخریب کاری کے خدشات اور اب تو اپنے اوپر حملے کا بہانہ بنا کر وہ الیکشن ملتوی کرانے کی مہم کو بلند آہنگ میں لے جا چکے ہیں لیکن سپریم کورٹ کے قطعی احکامات کی روشنی میں الیکشن کمیشن کی 8 فروری 2024 کو انتخابات کرانے جا رہا ہے، طے شدہ شیڈول کے عین مطابق معاملات آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور الیکشنوں کا انعقاد ہوتا نظر بھی آ رہا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انتخابات کے بعد قومی افق پر چھائے نا امیدی کے بادل چھٹ جائیں گے؟ کیا پاکستان تعمیر و ترقی کیشاہراہ پر گامزن ہو جائے گا؟ کیا عوام کے قلب و نظر پر چھائی نا امیدی ختم ہو جائے گی؟ کیا ہم با وقار اقوام کی صف میں کھڑے ہونے کے قابل ہو جائیں گے؟ سردست ان سوالات کے جواب دینا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ بے یقینی کی کہر خاصی شدید ہے اس کے چھٹنے کا انتظار کرنا ہو گا۔ 8 فروری 2024 کے نتائج کا انتظار کرنا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.