فوج اور دیگر سکیورٹی اِداروں کاملکی سلامتی میں اہم کردار ہے وطن کے دفاع میں ہزاروں نوجوان وطن کی سالمیت کی خاطر جانیں قربان کرچکے ہیں اگر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کی بات کی جائے تو پاک فوج اور دیگر سکیورٹی اِداروں کی قربانیاں بے مثال اور لازوال ہیں اسی بناپر ہر شہری مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی اِداروں کانہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ ایک قسم کی عقیدت رکھتاہے مگر چند ایک شر پسند اور مذموم عناصر ایسے بھی ہیں جو اپنے ہی ملک کی سکیورٹی کے ضامن اِداروں کے خلاف مُہم میں ملوث ہیں یہ ایسا فعل ہے جس کی کوئی بھی محب الوطن اور زی شعور حمایت نہیں کر سکتا مقامِ شکر ہے کہ سینٹ نے مسلح افواج اور دیگراِداروں کے خلاف ملک میں جاری منفی پروپیگنڈا کرنے پر سزا کی قرار داد کو اتفاقِ رائے سے منظور کر لیا ہے منظور کی جانے والی قرارداد کے مطابق اگر عمل بھی ہوتا ہے تو یہ ایک مستحسن فعل ہو گا کیونکہ اِس طرح مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی اِداروں کے خلاف جاری مُہم کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
ملکی سرحدوں کی حفاظت کی بات ہو یا دہشت گردی کے خلاف گزشتہ کئی عشروں سے جاری کارروائیوں کا ذکر کیا جائے مسلح افواج سمیت دیگر سکیورٹی اِداروں نے فریضے کی ادائیگی میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کی ارضِ وطن کے دفاعی اِداروں کی خدمات کسی وضاحت کی محتاج نہیں مشرقی سرحد پر بیٹھا طاقتور دشمن اگر جارحیت سے باز ہے تو اِس کی وجہ مسلح افواج کی پیشہ ورانہ مہارت ہے اسی طرح اغیار کے ہرکارے بھی ابھی تک اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہیں تو یہ ہردم چوکس پاک فوج کی بدولت ہے کیونکہ وطن دشمن عناصر بخوبی جانتے ہیں کہ قومی سلامتی کویقینی بنانے کے لیے پاکستان کی مسلح افواج و دیگر سکیورٹی اِدارے ہر انتہا تک جا سکتے ہیں اسی لیے اب کُھل کر سامنے آنے کے بجائے سازشوں سے کام لیتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ بھارت کے علاقائی طاقت بننے کی راہ میں کوئی ناقابلِ عبورسنگِ میل ہے تو وہ ہماری پاک فوج ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا مگر سوشل میڈیا ہو یا دیگر ابلاغی ذرائع ، اُن پر کچھ عرصہ سے مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی اِداروں کے خلاف ایک بے بنیاد منظم مُہم شروع ہے جس کابروقت تدارک اشد ضروری ہے کیونکہ ایسے عناصر کا منفی پروپیگنڈا یا افواہ سازی کو روکنے میں سُستی کا مظاہرہ بددلی پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے جس کا پاکستان جیسا خطرات میں گِھرا ملک اِس لیے متحمل نہیں ہو سکتا کہ بھارت جیسا مکار اور چالباز ملک ہر دم نقصان پہنچانے کی تاک میں ہے حالات کا تقاضا ہے کہ ابلاغی ذرائع پر منفی مُہم میں مصروف عناصر کو دستیاب وسائل کی مدد سے نہ صرف شبہات پھیلانے سے روکا جائے بلکہ ایسے عناصر کے خلاف تادیبی کارروائی کرتے ہوئے کٹہرے میں لاکر کیفرِ کردار تک بھی پہنچایا جائے ایسا کیا جانا نہ صرف قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے بلکہ ایسا کرنے سے سماجی امن و اطمینان کو یقینی بنانے میں بھی مدد مل سکتی ہے ۔
پاکستان کا آئین ہر شہری کو اظہارِ رائے کی آزادی کا حق دیتا ہے جس سے کسی کو محروم نہیں کیا جا سکتا مگر دستوری حق کی آڑ لیکر افواہیں پھیلانے اور دفاعی اِداروں کے خلاف منفی مُہم چلانے کی بھی کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی جو ممالک انسانی حقوق کے دعویدار ہیں وہاں بھی کسی کو اِس قسم کی آزادی نہیں کہ وہ جب چاہے اپنے ملک کی افواج کے خلاف کام کرے ہمارے یہاں تو جب کسی کا دل چاہتا ہے ابلاغی ذرائع کا سہارلیکر اپنے ہی دفاعی اِداروں کے خلاف گلہ پھاڑ کر شور مچانے لگتا ہے اِس کی کسی ملک کا دستوراجازت نہیں دیتا ، اظہارِ رائے کا حق بجا مگر یہ حق شُتر بے مہار حرکات کی اجازت نہیں دیتا، ہر قسم کی آزادی دینے والے معاشرے انارکی کا شکار ہو جاتے ہیں اسی بنا پر کہہ سکتے ہیں کہ شہری آزادیوں کی بھی ایک حد ہونی چاہیے کیونکہ ہر انتہا تک جانے سے سماج کے لیے بھی خطرات جنم لیتے ہیں جس کاہماراملک متحمل نہیں ہو سکتا لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِداروں کے خلاف سوشل میڈیا پر جاری منفی مُہم جیسے معامالات کو توجہ اور احتیاط سے نہ صرف دیکھا جائے بلکہ ملوث عناصر اور اُن کے مقاصد کو بھی بے نقاب کیا جائے اِس کام کے لیے پہلے بھی قوانین موجود ہیں جن پر عملدرآمد کرایا جانا ضروری ہے مگر گزشتہ کئی برس سے یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ قوانین پر عملدرآمد کی شرح نہایت مایوس کُن ہے جس کی وجہ سے کچھ عناصر مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی اِداروں کے خلاف بے خوف ہوکر منفی مُہم میں مصروف ہیں اب وقت آگیا ہے کہ ایسے عناصر کو محض روکنے تک محدود رہنے کے بجائے اُن کی شہ رگ پر ہاتھ ڈالا جائے۔
مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی اِداروں کے خلاف منفی مُہم میں مصروف عناصر کسی نرمی یا رحمدلی کے مستحق نہیں اگر ہوتے تو اپنے وطن کے اِداروں کے خلاف اِس حد تک ہر گز نہ جاتے عراق، لیبیا، شام، یمن اور افغانستان کو دیکھ لیں عالمی طاقتوں نے کمزور دفاع کا فائدہ اُٹھا کر ہی اِنھیں ملیا میٹ کیا آجکل غزہ میں جو ہو رہا ہے وہ کمزور دفاع کا ہی نتیجہ ہے اگر ابلاغی ذرائع پر مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی اِداروں کے خلاف منفی مُہم میں مصروف عناصر بالغ النظر ہوتے تو مذکورہ واقعات سے ہی عبرت حاصل کرتے اور ملک کے دفاع میں اپنے اِداروں کی معاونت کرتے پاکستان بھی 1971میں کمزور دفاع کی وجہ سے ہی دولخت ہوا پھر بھی کچھ عناصر کا اغیار کے ہاتھوں میں کھیلنا ثابت کرتا ہے کہ اُنھیں اپنی شناخت وطن سے پیار نہیں۔ کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ 2020 میں ای یو ڈس انفولیب نامی یورپی اِدارے نے پاکستان کے خلاف بھارت کا ایک پروپیگنڈانیٹ ورک بے نقاب کیا تھا اب بھی کئی ایسے گم نام سوشل میڈیا اکائونٹس ہیں جن کے ذریعے پاکستان کے دفاعی اِداروں کے خلاف منظم افواہیں پھیلائی جارہی ہیں جن کے پسِ پردہ بھارتی ہاتھ ہونا قرین قیاس ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ منفی پروپیگنڈے سے معصوم اذہان متاثر ہوسکتے ہیں ایوانِ بالا کی طرف سے منظور کی گئی قرارداد نے حکومت کو اہم مسئلے کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے تعزیری اقدامات بروئے کارلانے کی تجویز دی ہے سب سے بڑی بات یہ کہ پی پی کے سینٹر بہرہ مند تنگی کی طرف سے پیش کی گئی قرارداد کو ایوان بالا نے اتفاقِ رائے سے منظور کیا یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا کی افادیت بھی ہے اِس لیے مکمل طور پر پابندی لگانا مناسب نہیں لیکن ملکی اِداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنے والے عناصر کو لگام دینا بھی ضروری ہے ایسے عناصرقطعی طورپر کسی رعایت کے مستحق نہیںمناسب ہو گا کہ مزید قوانین بنانے سے قبل موجود قوانین کے نفاذ کے لیے فوری طور پر اِداروں کو متحرک کیا جائے اور پوری توجہ اور احتیاط سے جائزہ لے کر اگر مزید قوانین بنانے کی ضرورت ہو تو ہر گز دیر نہ کی جائے کیونکہ ایک مضبوط اور مکار دشمن ہمسائے کے ہوتے ہوئے ایک ایسی مضبوط فوج اور سکیورٹی ایجنسیاں ناگزیر ہیں جو تمام جدید وسائل سے لیس ہوں۔
تبصرے بند ہیں.