حکومت کتنی مضبوط ہو گی

24

پشاور ہائیکورٹ سے تحریک انصاف کو بلے کا نشان مل گیا لیکن اب سوال یہ ہے کہ فروری کے الیکشن کے بعد قائم ہونے والی حکومت کتنی مضبوط ہو گی ۔نگران حکومتیں تو ایک مختصر مدت کے لئے آتی ہیں اور آئین پاکستان کے تحت ان کے اختیارات محدود ہوتے ہیں ۔ ان کے بر عکس آمرانہ حکومتیں ایک وسیع مدت کے لئے آتی ہیں اور کبھی خود نہیں جاتیں بلکہ بھیجی جاتی ہیں اور ان کے پاس ہر قسم کے اختیارات بھی ہوتے ہیں حتیٰ کہ آئین میں ترامیم کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے ۔ تیسری قسم عوام کی منتخب حکومت ہوتی ہے بلکہ زیادہ درست یہ ہو گا کہ پاکستان میں حکومت کی ایک تیسری قسم بھی ہوتی ہے جسے عرف عام میں عوام کی منتخب حکومت کہا جاتا ہے لیکن در حقیقت عوام کی نہیں بلکہ کسی اور کی منتخب حکومت ہوتی ہے ۔ جو حکومت عوام کے بل پر اس کی حمایت سے آتی ہے اسے عوام اور اس کے حقوق و مسائل کی فکر ہوتی ہے اور جو عوام کے بل پر نہیں ہوتی اسے فطری سی بات ہے کہ فکر بھی انہی کی ہوتی ہے جو اسے لاتے ہیں ۔ عوام کے ووٹوں سے آنے والوں کو ہٹانے کے لئے عوام ہوتے ہیں اور کسی اور کے ذریعے آنے والوں کو ہٹاتے بھی وہی ہیں ۔ گذرے زمانوں میں حکومت کرنے کے لئے اخلاقی قوت تلوار کی طاقت ہوتی تھی جس کے پاس تلوار کی طاقت نہیں ہوتی تھی وہ اورنگ زیب کے بعد کے مغل بادشاہوں کی طرح دوسروں کا محتاج بن کر کٹھ پتلی کی طرح حکومت کرتا تھا لیکن دور حاضر میں حکومت کرنے کے لئے اخلاقی طاقت عوام کی حمایت سے حاصل ہوتی ہے جو عوام کی حمایت سے آتا ہے اس کے پاس اخلاقی طاقت ہوتی ہے اور جس کے پاس اخلاقی طاقت ہوتی ہے وہی حکومت مضبوط بھی ہوتی ہے اور جو عوامی طاقت سے محروم ہو جاتا ہے وہ ہوس اقتدار میں کٹھ پتلی بن جاتا ہے ۔
آنے والی حکومت 8 فروری کے اِنتخابات کے نتیجہ میں برسراقتدار آئے گی تو سب سے پہلے تو موجودہ انتخابی مراحل پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ کیا یہ معمول کے مطابق چل رہے ہیں تو اس حوالے سے کچھ زیادہ کہنے کی تو گنجائش ہی نہیں ہے لیکن موجودہ الیکشن پر بات کرنے سے پہلے گذشتہ تین انتخابات کے متعلق بھی بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ لوگ کہ جو موجودہ انتخابی عمل پر سوال اٹھا رہے ہیں انھیں بتایا جائے کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو سے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے کچھ عرصہ پہلے تک جب نواز لیگ لیول پلئینگ فیلڈ کی بات کرتی تھی تو ہمیں ہنسی آتی تھی لیکن اسے اس کے مطالبہ کے عین مطابق بلکہ کچھ زیادہ ہی لیول پلئینگ فیلڈ دی جا رہی ہے لیکن 2008 کے اِنتخابات سے عین پہلے پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئر پرسن کو دہشت گردی کے ذریعے قتل کر دیا گیا لیکن غنیمت ہے کہ 2013 کے اِنتخابات میں اس نے لیول پلئینگ فیلڈ کا مطالبہ نہیں کر دیا ورنہ سوچیں کہ کس کس کو اس دنیا سے رخصت کرنا پڑتا لیکن اس کا تو جائز مطالبہ تسلیم کرنا تو دورکی بات ہے سنا بھی نہیں جاتا۔ 2013 میں کیا تمام جماعتوں کو لیول پلئینگ فیلڈ ملی تھی کہ جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ 2018 میں جس طرح الیکشن ہوئے اور جس طرح آر ٹی ایس بیٹھا تو ہم پہلے بھی کئی بار عرض کر چکے ہیں کہ شاید قرب قیامت کا دور ہے کہ ہاتھوں پر سرسوں جمتی نظر آتی ہے جو کسی دوسرے کے ساتھ کرتا ہے اسے سود سمیت وصول کرنے میں دیر نہیں لگتی ۔ 2018 میں جنھوں نے دوسروں کو لیول پلئینگ فیلڈ دینے سے انکار کیا تھا آج وہ سود سمیت اسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں ۔ جو صورت حال انھوں نے اپنے مخالفین کے لئے 2018 میں بنائی تھی ہم کسی جماعت کا نام نہیں لیتے لیکن اس بار 9 مئی کے مقدمات میں بات سزائے موت تک پہنچ چکی ہے لہٰذا جنھیں آج لیول پلئینگ فیلڈ ملی ہوئی ہے اور وہ دوسروں کو مساوی سطح پر کھیلنے کے مواقع دینے سے انکاری ہیں تو اگر ان کی نظریں مستقبل میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو چند سال بعد انھیں جن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں۔
اگر موجودہ صورت حال پر بات کریں تو ان حالات میں کہ جب ایک توانا تاثر یہ دیا جا رہا ہو کہ انتخابی مہم ابھی شروع نہیں ہوئی لیکن کاغذات نامزدگی جمع کرانا مشکل ہو رہا ہے اور کسی ایک دو نہیں بلکہ پوری جماعت کو ہی الیکشن سے باہر کرنے کی کوشش ہو تو ایسی صورت میں کہاں کے مساوی مواقع اور کیسی لیول پلئینگ فیلڈ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقے ایک ہزار سے زیادہ ہیں یقینا چند جگہ ایسا ہوا ہے لیکن اسے بحیثیت مجموعی پوری صورت حال پر چسپاں کر دینا کسی طور مناسب نہیں ہے اور اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ان لوگوں کے کاغذات نامزدگی بھی جمع ہوئے ہیں جو9مئی کے واقعات میں ملوث ہیں لیکن ان حقائق کے باوجود بھی ہم کہتے ہیں کہ جو قوتیں کسی کے حق میں اور کسی کی مخالفت میں حالات کو بنانے اور بگاڑنے کی صلاحیت رکھتی انہی کی مرہون منت جب آنے والی حکومت بنے گی تو اس بات کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ وہ حکومت کتنی مضبوط اور کتنی کمزور ہو گی ایک بات یاد رکھیں کہ سیاسی جماعتیں جن کا جمہوریت پر پختہ یقین ہے یہ ان کا آئینی جمہوری اور اخلاقی فرض بنتا ہے کہ اگر کسی سیاسی جماعت یا جماعتوں کو چاہے وہ ان کی مخالف ہی کیوں نہ ہوں اگر ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہو تو اس کے خلاف آواز اٹھائیں لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوتابلکہ اس کے بر عکس ہوتا آ رہا ہے اور یہی عمل ان کی کمزوری کا باعث ہے اور یہ کمزوری آج کی نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد سے لے کر آج تک رہی ہے اور جب تک ہم اپنے ساتھ ساتھ دیگر کے لئے چاہے وہ ہمارا مخالف ہی کیوں نہ ہو اس کے جمہوری حقوق کے لئے آواز بلند نہیں کریں گے ملک میں کبھی مضبوط سیاسی جمہوری حکومتیں قائم نہیں ہوں گی اور مضبوط سیاسی و جمہوری حکومت کے بغیر نہ ملک ترقی کرے گا اور نہ ہی عوام کے مسائل حل ہوں گے ۔

تبصرے بند ہیں.