اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا صرف پاکستان

51

آپ اس بات سے اختلاف کریں یا مانیں لیکن یہ بات سو فیصد سچ ہے کہ صدر پاکستان استحکامِ پارٹی عبد العلیم خان بلا کا ذہین انسان ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جتنا بڑا سر ہو اُس کا درد بھی اتنا بڑا ہوتا ہے۔ غریب آدمی کا نقصان بھی اُس کی اوقات کے مطابق ہوتا ہے اور امیر آدمی کو نقصان بھی اپنی حیثیت کے مطابق سہنا پڑتا ہے۔ کم ذہین لوگ غلطی بھی اپنی ذہانت جتنی کرتے ہیں جبکہ بڑا دماغ غلطی بھی بڑی کرتا ہے جیسی عبد العلیم خان نے عمران نیازی پر اعتماد کرنے کا بلنڈر کیا لیکن ہم سب انسان ہیں اور اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں۔ عام انتخابات کا بگل بج چکا اور سیاسی جماعتوں نے پنجاب میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا میدان لگا لیا ہے۔ استحکامِ پاکستا ن پارٹی کھل کر میدان میں آ چکی ہے اور خانیوال، حافظ آباد اور کامونکی میں کامیاب ورکر کنونشن کرچکی ہے۔ تینوں مقامات پر لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اورمقامی ٹکٹ ہولڈرز کے علاوہ مرکزی اور صوبائی قیادتیں بھی سٹیج پر موجود تھیں۔ استحکام پاکستان پارٹی اس انتخاب میں اپنے خوبصورت منشور کے ساتھ اتر چکی ہے۔ جہانگیر خان ترین اور عبد العلیم خان اِس سیاسی جماعت کے روح رواں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں موجود اُن کا پہلے سے اعتماد عوام کو اُن کے گرد اکٹھا کر رہا ہے۔ اِس میں بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو ماضی کی مرحوم ق لیگ اورعمران نیازی کی تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو پہلے بھی عبد العلیم خان اور جہانگیر خان ترین کے سیاسی ساتھی رہ چکے ہیں۔ گو کہ اس وقت سیاسی جوڑ توڑ، سیٹ ایڈجسٹمنٹ، مختلف پارٹیوں میں شمولیت اور سیاسی عہدوں پر نامزدگیاں زوروں پر ہیں لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود عام ووٹر اور شہریوں سے رابطے میں اگر کوئی سیاسی جماعت ”فرنٹ فٹ“ پر کھیلتی نظر آرہی ہے تو وہ بلا شبہ استحکام پاکستان پارٹی ہے۔ استحکامِ پاکستان پارٹی کا قیام اسی سال 8 جون کوعمل میں آیا جس کیلئے جہانگیر خان ترین اور عبد العلیم خان نے شب و روز محنت کی اور آج بھی عبد العلیم خان بطور صدر استحکامِ پاکستان پارٹی کے تمام معاملات کو خود دیکھ رہے ہیں۔ انہیں دونوں قائدین کی کاوشوں سے پہلا سیاسی اجتماع خانیوال، دوسرا حافظ آباد جبکہ چند روز قبل کامونکی میں ہونے والا پارٹی ورکرز کنونشن آئی پی پی کے قائدین کی استقامت، جدوجہد اور کام کی تیز ترین رفتاری کی کھلی نشاندہی کررہا ہے۔ گھوڑوں کے منہ سے سنا ہے کہ اگلے ورکر کنونشنز قصور، فیصل آباد، لیہ اور دیگر اضلاع میں بھی ہونے جا رہے ہیں۔کامونکی ورکر کنونشن میں مرکزی صدر آئی پی پی عبدالعلیم خان کی تقریر نے ایک بار پھر امید کا ایک سرا عوام کے ہاتھ میں اور دوسرا اپنی انتخابی فتح سے مشروط کر دیا ہے۔ عبد العلیم خان پہلی بار کسی بڑی سیاسی جماعت کے مرکزی صد ر بنے ہیں سو انہیں اب نہ تو کسی سے پوچھنا پڑتا ہے اور نہ ہی کسی کے بتا ئے ہوئے ایجنڈے کے دائرے میں رہ کر بولنا ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ طے شدہ منشور کے علاوہ وہ مقامی مسائل کو بھی مدنظر رکھ کر بات کرتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ جس جگہ انہوں نے تقریر کرنا ہو اُس کا مکمل ریسرچ ورک اُن کے دماغ میں فیڈ ہوتا ہے۔ وہ لکھی ہوئی تقریر نہیں کرتے بلکہ ابھی تک یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ عوامی جذبات کو مدنظر رکھ کر عام آدمی کی امنگوں کے مطابق بولتے ہیں۔ اُنہوں نے کامونکی جلسہ میں جہاں ماضی کے حکمرانوں کو آڑھے ہاتھوں لیا وہیں انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑ ا پاکستا ن میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی بہت سکت ہے اگر پاکستان کے عوام اُن کا ساتھ دیں تو ملک کو دوبارہ پہلے سے زیادہ طاقتور بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستانی عوام کو صرف اور صر ف قابل، اہل اور نیک نیت قیادت کی ضرورت ہے جو انہیں استحکامِ پاکستان پارٹی فراہم کرے گی۔ عثمان بزدار واقعی ڈاکخانے کا کام کرتے رہے ہیں اور ایک بددیانت ڈاکیے کی طرح اپنا حصہ رکھ کرباقی مال اصل مالکان کو مال پہنچاتے رہے ہیں۔ کرنل حسن حیدر شہید کے بارے میں عبد العلیم خان نے ورکر کنونشن کے شرکاء کو بتایا کہ انہیں 16 گولیاں لگیں لیکن وہ اپنے پیروں پر کھڑے رہے اُن کی شہادت سر میں لگنے والے 17 ویں گولی سے ہوئی لیکن جب میں اُن کی والدہ سے ملا تو اُنہوں نے بیٹے کی شہادت کا واقعہ فخر سے سناتے ہوئے کہاکہ میرا بیٹا پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوا ہے۔ کرنل حسن حیدر شہید کی شہادت کے واقعہ نے ورکر کنونشن میں موجود شرکاء کو آبدیدہ کر دیا۔ یقیناً یہ اِس دھرتی کی مائیں ہی ہیں جو اپنے جوان بیٹوں کے خون سے اِس ملک کی حفاظت کر رہی ہیں۔ اسی جذباتی ماحول میں عبد العلیم خان نے انتہائی جذباتی لب و لہجے میں بتایا کہ ”اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا صرف پاکستان ہے۔“

اس ورکر کنونشن میں بھی عبد العلیم خان نے اپنے منشور پر بات کرتے ہوئے 300 یونٹ مفت بجلی اور موٹر سائیکل سوار کو آدھی قیمت پر پٹرول دینے کے وعدے کی تجدید کی (میرا ایک بڑا بھائی, میرے قبیلے کا جوان اور خوبصورت کالمسٹ اس بات سے پریشان ہے کہ 301 یونٹ والے سے تو پورا بل لیا جائے گا اور آدھی قیمت پر پیٹرول موٹرسائیکل والے کو فراہم کرنے کیلئے کیا کوئی نیا ادارہ بنانا پڑے گا تو میں صرف یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی بڑی اکثریت کا بل 300 یونٹ سے کم آتا ہے اور عام آدمی کے پاس موٹر بائیک ہے نہ کہ گاڑی سو اِن کا اگر فائدہ ہوتا ہے تو ہونے دیں۔ باقی رہی بات کہ یہ سب کیسے دینا ہے تو ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں رہ رہے ہیں بل تو ایک کلک پر فری ہو جائے گا اور پیٹرول کیلئے صرف ایک ایپ بنانا پڑے گا)، ساڑھے 12 ایکڑ اراضی کے کسان کو ٹیوب ویل کے لئے مفت سولر فراہم کرنے کا وعدہ بھی دہرایا گیا۔ ایک بار پھر مزدور کی تنخواہ 50 ہزار روپے ماہانہ کرنے کی نوید سنائی اور نوجوانوں کو آسان شرائط پر بلا سود قرضوں کی فراہمی کو بھی اپنے منشور کا حصہ بتایا گیا۔ انڈسٹریل زون بنا کر ملک کی صنعت کو ترقی دینے کی بات ہوئی جبکہ شہروں میں اپارٹمنٹس کی تعمیر اور کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا جو عبد العلیم خان کا پرانا خواب ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں میں سرکاری اراضی پر تین تین مرلے کے رہائشی پلاٹس مفت فراہم کرنے کا ذکر بھی کیا گیا۔ شہروں میں جدید پبلک ٹرانسپور ٹ، مفت سفری سہولیات، طلبا و طالبات کو معیاری تعلیم اور ذہین بچوں کو سکالر شپس دینے کی نوید سنائی گئی جس سے کنونشن کے شرکاء میں خوشی کی لہر دہرا دی۔

عبدالعلیم خان کے خطاب کا سب سے اہم پہلو عوام کو امید دلانا تھا،انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ ہرگز مایوس نہ ہوں،ہم نے ملک کو بحرانوں سے نکالنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ کامونکی کو ماڈل تحصیل بنانے کا اعلان کرنے کے ساتھ کارڈیالوجی اور کڈنی انسٹی ٹیوٹ بنانے کا عہد کیاگیا۔کامونکی انٹرچینج کے دیرینہ مطالبے کو عملی جامہ پہنانے اور کامونکی کے نوجوانوں کو روزگار دینے کے لئے خصوصی اقدامات کرنے کو بھی اپنے منشورکاحصہ بتایا۔ چونکہ میں نے کامونکی جلسے کو ایک میلے کی طرح دیکھا ہے سو من وعن عبد العلیم خان کی منشوری تقریر کو اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.