برق رفاتری سب پر بھاری

83

جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک تو عمومی اور روزمرہ جھوٹ ہے جو ہم سب بولتے ہیں دوسرا نرا جھوٹ ہے جسے ہم سفید جھوٹ کہتے ہیں تیسرا جھوٹ بہت دلچسپ اور دھوکے باز ہے جسے دنیا بھر میں اعداد و شمار کے نام سے پہچانا جاتا ہے جو بات آپ دلائل سے ثابت نہ کر سکیں وہ آپ غلط اعداد و شمار پیش کر کے با آسانی ثابت کر سکتے ہیں۔

جھوٹ کی پہلی قسم کا تعلق عوام سے ہے جو کسی کا آلہئ کار بن کر استعمال ہو جاتے ہیں اور اپنی جھوٹی امیدوں کے فریب میں کسی ایک شخصیت کو سب پر بھاری کہہ دیتے ہیں یا کچھ دوسرے ہیں جو اپنے پسندیدہ کے بارے میں عقیدہ بنا لیتے ہیں کہ فلانا جدوں آوے گا لگ پتہ جاوے گا اس فہرست میں آپ بنے گا نیا پاکستان کو بھی شامل کر لیں۔ اسی طرح دوسری قسم کا جھوٹ ہے پہلا جھوٹ اہل سیاست عوام کے ذریعے پھیلاتے ہیں دوسرا جھوٹ وہ ہے جو وہ خود بولتے ہیں۔ اس میں سب سے تواتر کے ساتھ بولا جانے والا جھوٹ یہ ہے کہ ملک کی تقدیر بدل دیں گے یا پھر یہ کہ دوسرے ملکوں کے لوگ نوکری کی تلاش میں یہاں آئیں گے یا کسی فوت شدہ لیڈر کے بارے میں دعویٰ کرنا کہ زندہ ہے فلانا زندہ ہے۔ تیسری قسم کا جھوٹ بڑا لوہا توڑ یا کھڑکی توڑ جھوٹ ہے جو عام طور پر ملک کے خزانہ پر بیٹھے ہوئے مسند نشینوں سے بلوایا جاتا ہے اور یہ اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہوتا ہے جس میں ملک ڈوب رہا ہوتا ہے لیکن خزانہ والے فرما رہے ہوتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے جس کے ثمرات عوام تک پہنچنے میں کچھ اور وقت لگے گا۔

دنیا کا امیر ترین شخص اس وقت ایلون مسک ہے جو امیر لوگوں کے طرز زندگی بیان کرنے والے عالمی جریدے فوربز کی شائع کردہ رچ لسٹ میں 246 ارب ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے فرض کر لیں کہ ایلون مسک جس گھر میں رہتا ہے وہاں اس گھر میں اس کے ساتھ اس کے ملازمین کی تعداد 20 ہے جو اس کے گھر میں قیام پذیر ہیں۔ اب اگر فوربز یا کوئی بھی میڈیا گروپ یہ کہے کہ ایلون مسک ہاؤس میں رہنے والے ہر شخص کے پاس اوسطاً ساڑھے 24 ارب ڈالر کے اثاثہ جات ہیں تو کیا ہم مان لیں گے۔ اگر کوئی مان بھی لے تو یہ کس حد تک پریکٹیکل ہے اس سے بڑا جھوٹ خود فریبی اور دھوکہ دہی شاید ہی کوئی ہو۔

اس مثال کی روشنی میں اب پاکستان آجائیں جہاں سٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس تاریخ میں پہلی بار 60 ہزار پوائنٹس کا یومیہ ہدف عبور کر چکا ہے جو کہ 75 سالہ ریکارڈ توڑ ہندسہ ہے۔ اگر تو ایلون مسک کی دولت میں اس کے گھر کے ملازمین کا حصہ اس کے برابر نہیں ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ 60 ہزار پوائنٹس کے تاریخی جمپ میں عوام کا کوئی حصہ ہے۔ یہ تو ایک طرح کی تجارتی سٹے بازی ہے جو تاجروں کا ایک مخصوص گروپ کرتا ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ جب اس طبقے نے دیکھا کہ آئی ایم ایف کی اگلی قسط ملنے کے امکانات واضح ہیں تو انہوں نے خریدو فروخت تیز کر دی۔ جب یومیہ انڈیکس 38 ہزار تھا تو عوام کو اس وقت بھی کوئی نفع نقصان نہیں جب یہ 60 ہزار ہے تو پوزیشن پھر بھی وہی ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ملک میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور انتخابات ہوتے دکھائی دے رہے اور پاکستان میں الیکشن کا سیزن کاروباری لحاظ سے ہمیشہ سپرنگ سیزن یا موسم بہار سمجھا جاتا ہے الیکشن لڑنے والے ارب پتی مافیا کی ناجائز دولت گردش میں آجاتی ہے جس سے کاروباری سرگرمیاں بحال ہوتی ہوئی نظر آنے لگتی ہیں۔

بہرحال الیکشن کا ایک فائدہ ہے دنیا کی ہر معیشت میں دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کو منفی سمجھا جاتا ہے الیکشن ہی ایسا موقع ہے جب پاکستان کا امیر طبقہ اسمبلیوں میں پہنچنے کی جدوجہد میں بوریوں کے منہ کھول دیتا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے لیے ڈونیشن کی شکل میں اندھی کمائی کا موقع ہے جب ایک ایک امید وار کروڑوں روپے پارٹی فنڈ میں دے گا۔ اسی طرح آٹو انڈسٹری، ٹرانسپورٹ، کیٹرنگ، لائٹنگ، ٹینٹ اینڈ چیئرز، کنسٹرکشن اور بہت سے شعبوں میں تیزی دیکھنے میں آئے گی۔ 100 انڈیکس ہو سکتا ہے 70-75 ہزار تک چلا جائے البتہ عوام کے حصے میں صرف فری بریانی پلیٹ اور کوک کی بوتل سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.