انتخابات ملتوی ہونے کی خبریں

68

اقتدار کے ایوانوں میں بڑی دھیمی آواز میں سنائی دینے والی سرگوشیاں اب قومی میڈیا پربلند صداؤں کی صورت گونج رہی ہیں کہ انتخابات فروری کے بجائے اگست یا ستمبر تک ملتوی کر دیئے جائیں۔ ہم متعدد بار اس بات کا ذکر کر چکے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام یا بے یقینی کی کیفیت ہو تو ملک میں کبھی معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔ پہلے بندیال کورٹ تھی لیکن پھر یہ ہوا کہ قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بن گئے ان کی ذات کے ساتھ کوئی آڈیو لیکس ہے اور نہ کوئی وڈیو کا چکر ہے اور ویسے بھی ان کی شہرت یہی ہے کہ اصول پسند بندے ہیں اور کوئی غیر آئینی کام نہیں کرتے اور نہ ہی کرایا جا سکتا ہے لہٰذا اس شہرت کے ساتھ ان سے اگر کوئی یہ چاہے کہ اپنی مرضی کا کام اور وہ بھی آئین کو پس پشت ڈال کر کرا لے تو ایسا ہونا مشکل ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا معاملہ جب ان کے سامنے آیا تو انھوں نے کسی لیت و لعل سے کام لینے کے بجائے ایک ہی دن میں چیف الیکشن کمیشن کی صدر مملکت سے ملاقات اور الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرا کر ملک سے اس حوالے سے غیر یقینی کا خاتمہ کر دیا۔ جب صدر اور چیف الیکشن کمیشن دونوں کی جانب سے 8 فروری کا اعلامیہ جاری ہو گیا تو چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ اسے پتھر پر لکیر سمجھا جائے۔ اب ہمیں نہیں سمجھ آتی کہ جو لوگ الیکشن ملتوی کرنا چاہتے ہیں وہ محترم چیف جسٹس کی پتھر پر کھینچی لکیر کو کس طرح مٹائیں گے ویسے تو پاکستان میں ہر بات ممکن ہے۔ اچھی خاصی چلتی جمہوری حکومت کو ہٹانے کے لئے ایک اعلامیہ اور منتخب وزیر اعظم کو ڈنڈا ڈولی کرنے کے لئے ٹرپل ون بریگیڈ کا ایک ٹرک ہی کافی ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب تو نگران حکومت ہے اگر کوئی جمہوری حکومت ہوتی تو اس کے نیلے پیلے کالے کرتوتوں کو بنیاد بنا کر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے لیکن اب تو نگران حکومت ہے اور دوسرا مان لیاکہ گذشتہ سال عمران خان نے جس مکار کردگی کے تحت پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں تحلیل کی تھیں اس کے بعد نوے روز میں انتخابات کرانے میں یقینا کچھ قباحتیں تھیں لیکن اب کون سی قیامت آ گئی ہے کہ جس کی وجہ سے انتخابات ملتوی کرنے ایسے انتہائی اقدام کا سوچا جا رہا ہے۔

ایک وجہ جو عوام کی دکھتی رگ بھی ہے کہ معاشی بہتری کے لئے یہ کڑوا گھونٹ پیا جائے گا۔ اس کی مختصر تفصیل یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان میں 25ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے روشن امکانات ہیں۔ کچھ لوگ اس کو وجہ بنا رہے ہیں لیکن ہماری نظر میں تو یہ سرے سے کوئی وجہ ہی نہیں ہے اس لئے کہ اگر برادر اسلامی ممالک یا دیگر دوست ممالک پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے تو اور زیادہ ضروری ہے کہ ملک میں عوام کی منتخب حکومت ہو تو اس وجہ میں تو کوئی جان نہیں ہے۔ اب دوسری وجہ کہ جو زبان زد عام ہے کہ لاکھ کوشش کے باوجود بھی انتخابات میں مثبت نتائج نہیں مل رہے۔ قرین قیاس یہی وجہ درست لگتی ہے لیکن اگر یہی وجہ ہے تو اس کو لے کر تو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات بھی 90 روز میں نہیں کرائے گئے تو کیا الیکشن نہ کرانے سے وجہ ختم ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ نہیں ہوئی لیکن ہم عرض کریں کہ جس وجہ کو ڈیڑھ پونے دو سال سے درد سر بنا کر سر پر سوار کیا ہوا ہے اسے کم ازکم میدان میں آزمائیں تو سہی۔ یقینا عمران خان ہی نہیں بلکہ ان کے ہم خیال اینکر بھی بات کرنے کا ہنر اور بیانیہ بنانے کا فن جانتے ہیں۔ انہی میں سے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ عمران خان تو اڈیالہ جیل میں ہیں لیکن اگر کوٹ لکھپت جیل سے کسی کو رہا نہ کیا جائے بلکہ انھیں صرف الیکشن لڑنے کی اجازت دے دیں تو لگ پتا جائے گا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس طرح کی بیان بازی یا لاہوری زبان میں کہیں تو رنگ بازی سے ہم کیوں ڈر جاتے تھے کس بات سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ ہم متعدد بار عرض کر چکے ہیں کہ عمران خان جیل میں نہیں تھے بلکہ بذات خود لبرٹی چوک لاہور سے لانگ مارچ کی قیادت کر رہے تھے لیکن اس لانگ مارچ کو عوام کی اتنی پذیرائی بھی نہ مل سکی کہ وہ شاہدرہ سے آگے جا سکتا لہٰذا بحالت مجبوری اس لانگ یا شارٹ مارچ کو شاہدرہ میں عملی طور پر ختم کر دیا گیا اور پھر ہر روز اگلے شہر میں ایک چھوٹا سا جلسہ کر کے لانگ مارچ کے زندہ ہونے کا تاثر دیا جاتا اور آخر میں ایک طویل مدت کے لئے دھرنا دینا تھا لیکن عوام کی انتہائی قلیل تعداد دیکھ کر اسے بھی ختم کرنا پڑا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا تھا کہ جب چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ تھے یعنی کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی تو خدا کے واسطے انھیں جلسے، جلوس اور کارنر میٹنگ جو کہتے ہیں وہ کرنے دیں۔ حکومت کیوں اس میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔ حکومت ان کو اجازت نہیں دیتی تو ایک جانب تو جمہوری حقوق کی نفی ہوتی ہے اور دوسری جانب ہم خیال اینکرز اور صحافی پھر سینہ تان کر کہتے ہیں کہ دیکھا عمران خان کی مقبولیت کا اتنا خوف ہے کہ ایک جلسہ تک کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

دوسری صورت زیادہ سے زیادہ یہ ہی ہو سکتی ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان کی حقیقت میں مقبولیت ہو تو اس صورت میں بھی تحریک انصاف کو اس کے آئینی حقوق سے روکنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔ اس لئے کہ 9مئی کے جو ذمہ دار ہیں وہ سب تو جیلوں میں ہیں جو باہر ہیں انھیں حکومت کس اصول کے تحت روک رہی ہے اور لاکھوں لوگوں کو ان کے آئینی حقوق سے کیسے محروم رکھا جا سکتا ہے گذارش ہے کہ مقابلہ میدان میں کیا جاتا ہے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے مسائل حل نہیں ہو جاتے اور اگر خوف کی کیفیت میں یہی سب کچھ کرنا ہے تو پابندیاں پہلے کسی مسئلہ کا حل رہی ہیں اور نہ اب ان سے کسی مثبت نتیجہ کی توقع کی جا سکتی ہے۔

تبصرے بند ہیں.