نسلِ نو کی نا امیدی و نامرادی: خاتمہ کیسے؟

24

”نسلِ نو کی نا امیدی و نامرادی: ذمہ دار کون“ پچھلے ہفتے (19 نومبر بروز ہفتہ) چھپ چکا ہے جس سے حقیقتاً نا امیدی کو ہوا ملی ہے ایسے لگتا ہے کہ جیسے سب کچھ ختم ہونے کو ہے ہمارا ریاستی، حکومتی اور نجی شعبے کا ڈھانچہ اور اس پر قائم عمارت کھنڈر بن چکی ہے 75 سالوں کی بے اعتدالیوں، بد عنوانیوں اور سرکشیوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ بادی النظر میں یہ بات درست معلوم ہوتی ہے انگریزوں کی غلامی (1757 تا 1857/ 1857 تا 1947) ہمارے اجداد یعنی برصغیر پر حکمرانی کرنے والے مغل حکمرانوں کی بداعمالیوں کا نتیجہ تھی عالمی سطح پر سلاجقہ/ سلجوق سلطنت، ترک خلافت اور مغل حکمرانی کا خاتمہ مسلمانوں کی بحیثیت امت بداعمالیوں کا پھل تھا اللہ رب العزت کی نافرمانیوں اور قوانین فطرت کے خلاف چلنے کا صلہ تھا کہ مسلمانوں کی براعظموں پر پھیلی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا۔ وہ استعماری طاقتوں کے سرنگیں ہو گئے انکی سیاسی، سماجی اور تمدنی برتری کا خاتمہ ہو گیا وہ حاکم قوم وملت کی بجائے، مغلوب اور محکوم ہو گئے۔ ذلت و پستی ان کا مقدر بنی۔

پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سیاست اور توازن طاقت میں تبدیلی آنے لگی۔ نو آبادیاتی نظام نے انگڑائی لی جنگی تباہ کاریوں اور آزادی کی تحاریک کے نتیجے میں نو آبادیوں کو سنبھالنا مشکل بلکہ ناممکن ہوگیا تھا۔ درجنوں آزاد ممالک معرض وجود میں آئے۔ اسی دور میں عالم اسلام کی سب سے بڑی مملکت خداداد پاکستان معرضِ وجود میں آئی کسی نظریے اور فکر کے نتیجے میں قائم ہونے والی یہ پہلی ریاست تھی جو جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوئی۔ جدید انداز میں قائم ہونے والی پہلی مسلم ریاست پاکستان جسے دورِ حاضر میں ایک عادلانہ الہامی نظام کے نفاذ کے لئے تجربہ گاہ کہا گیا۔ اسی فکرونظر نے برصغیر کے کروڑوں مسلمانوں کو مسلم لیگ کے جھنڈے اور جناح کی قیادت میں جمع کیا پھر ایک انہونی ہو گئی مسلم دنیا کی سب سے بڑی ریاست معجزانہ طور پر قائم ہو گئی۔ 1947 کے بعد آج اس بات کو 76 سال گزر چکے ہیں ہم اس ریاست کو اسلامی فلاحی ریاست بنتا نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ 4/3 نسلیں ایسی ہی آس امید لئے گزر گئی ہیں لیکن نئی نسل شاید اس ملک کے احوال کو دیکھتے ہوئے اس کے مستقبل سے مکمل طور پر مایوس ہو چکی ہے اس لئے وہ اسے ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کی طرح دیکھتے ہیں اور چھلانگیں لگاتے ہوئے اسے چھوڑ کر اپنا مستقبل بنانے کے لئے بیرون ممالک جا رہے ہیں جنہیں ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آتا ہے وہ احوال حاضرہ دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں ہمارا سیاسی و ریاستی نظام ناکام نظر آ رہا ہے تعلیمی نظام کسی قسم کی ساخت پرداخت بنانے میں شامل ہی نہیں ہے اب تو ہمارے نظام کا کام بے روزگاروں کی فوج میں اضافہ کرنا نظر آنے لگا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ایسے چل نہیں سکتا ہے 24 کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ملک کو ایسے چھوڑا نہیں جا سکتا ہے یہ قانون فطرت کے بھی خلاف ہے اور عالمی نظام سیاست و معیشت کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہے اسے تبدیل ہو کر رہنا ہے کیونکہ اسی میں بقا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال کیسے ختم ہو گی؟ ہمارے حالات کیسے بدلیں گے؟ اقوام پر برے وقت آتے ہیں جیسے دوسری جنگ عظیم میں جاپان ایٹمی تباہی کا شکار ہوا۔ مکمل طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہم نے دیکھا کہ اس تباہی و بربادی سے ایک نیا عظیم الشان ترقی کرتا ہوا جاپان برآمد ہوا جس نے صنعتی تعمیروترقی میں عظمت کے جھنڈے گاڑے۔ ملائیشیا و سنگاپور بھی ایسی ہی مثالیں ہیں۔ تبدیلی کی دو ممکنہ صورتیں ہوتی ہیں ایک تبدیلی قدرت لاتی ہے وہ تبدیلی خوفناک اور تباہ کن ہوتی ہے۔ جب قومیں پستی و ذلت کی انتہاؤں کو چھو لیتی ہیں، فسق و فجور، ناانصافی اور دیگر اخلاقی بیماریاں راستہ بنا لیتی ہیں تو قدرت اپنا راستہ بناتی ہے۔ سب کچھ ملیامیٹ کر کے نئے سرے سے ترتیب قائم کرتی ہے۔ یہ راستہ یا طریقہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔ دوسرا راستہ بتدریج تبدیلی کا ہوتا ہے کہ قوم میں انقلابی اصلاحی تحریک برپا ہو اور وہ لوگوں میں ذہنی تبدیلی کا آغاز کرے اور اس کے زیراثر قوم کے افراد میں تبدیلی پیدا ہو اور اس طرح معاشرہ تعمیروترقی کی راہ پر چل نکلے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ عظیم کے بعد پورے یورپ کی تعمیر اسی بنیاد پر ہوئی۔ روس میں سرخ انقلاب اور ایران میں خمینی انقلاب ایسی ہی انقلابی تبدیلیوں کی مثالیں ہیں۔ تقسیم ہند اور اس کے نتیجے میں پاک و ہند ریاستوں کا قیام ایسے ہی پرامن انقلاب کی مثالیں ہیں جہاں غلامی کا خاتمہ اور آزاد ہندو اور مسلم معاشرے کا قیام ممکن ہوا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اسی تبدیلی کے نتیجے میں ہندوستان اقوام عالم میں ایک طاقتور اور باوقار قوم کے طور پر آگے بڑھ رہا ہے۔ صنعتی تعمیر و ترقی ہو یا سفارتی مقام اور مرتبہ ہر دو اطراف میں اس کی عظمت کے ڈنکے بج رہے ہیں۔ افسوس کہ ہم اعلیٰ مقاصد اور آدرشوں کی آبیاری کرنے میں قطعاً ناکام رہے ہیں۔

تبدیلی کے لئے سب سے اہم چیز اپنی موجودہ صورتحال کے بارے میں ادراک ہونا ہے اور اللہ کے فضل و کرم سے آج قوم کا ہر فرد جانتا ہے کہ ہم تباہ حالی کا شکار ہیں، ہر فرد تبدیلی کا خواہاں ہے اور اس کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ تحریک انصاف نے اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے نوجوانوں میں تبدیلی کی خواہش کو ابھارا اور سیاسی شعور کے ذریعے ایک موثر قوت بنایا لیکن افسوس قیادت کی نااہلی اور نالائقی کے باعث سب کچھ ضائع ہو چکا ہے۔ لیکن ایک بات اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ ہماری نئی نسل جو کل آبادی کے 63 فیصد پر مشتمل ہے کو قومی معاملات کا شعور ضرور ہے انہیں مسائل سے آگہی بھی ہے اور وہ تبدیلی کے لئے آمادہ پیکار بھی ہیں۔ گویا بہتری و تبدیلی کے لئے جس شعور اور آگہی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے ہاں پایا جاتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے ایک قابل عمل سیاسی لائحہ عمل میں ڈھالا جائے۔ یہ کام سیاسی قیادت کر سکتی ہے جسے عوام پسند کرتے ہوں، جس کی آواز پر لبیک کہہ کر آمادہ پیکار ہو سکیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی عمل کو بلاروک ٹوک اور بلامداخلت آگے بڑھنے دیا جائے۔عوامی شعور کی قدر بھی کی جائے اور اس کا احترام بھی کیا جائے۔ ہمارے ہاں سیاسی نظام تو موجود ہے لیکن اس میں نہ صرف بار بار مداخلت ہوتی رہی ہے بلکہ اس میں تعطل بھی پیدا کیا جاتا رہا ہے۔ عوامی رائے کا احترام کرنے کی بجائے اس پر شک کیا جاتا رہا ہے۔ ہماری مقتدرہ عوامی رائے کا احترام کرنے کی بجائے اپنی رائے ان پر ٹھونستی رہی ہے جس کے کبھی بھی مثبت نتائج نہیں نکلے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مثبت تبدیلی کے لئے عوامی رائے پر انحصار کیا جائے تاکہ قوم کو درست سمت میں آگے بڑھایا جا سکے۔

تبصرے بند ہیں.