محسن نقوی سپیڈ

48

پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی صرف ’مین آف آئیڈیاز‘ ہی نہیں وہ’مین آف ایکشن‘بھی ہیں۔ میں ان کے بارے گواہی صرف ان کی وزارت اعلیٰ کے حوالے سے نہیں دے رہا، میں ان کے کام کرنے کے انداز کو برسوں سے بلکہ عشروں سے جانتا ہوں۔ وہ نت نئے منصوبے ہی شروع نہیں کرتے بلکہ انہیں کامیاب کرنے کیلئے دل و دماغ کی صلاحیتیں آخری حد تک استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب سٹی فارٹی ٹو کا آغاز ہوا تو بہت کئی لوگوں نے کہا کہ یہ ’سی بتالی‘ یا ’چک بتالی‘ کیا ہے۔ مجھے ایک قومی چینل کے طاقتور بیورو چیف نے کہا کہ لوگ نیشنل سے انٹرنیشنل کی طرف جاتے ہیں تو کیا میڈیا اب نیشنل سے لوکل کی طرف آئے گا، یہ ممکن نہیں کیونکہ دنیا گوبل ویلج بنتی چلی جا رہی ہے۔ پھر وہی سینئر صحافی میرے بلانے پر ہر مرتبہ ایک نئے سوٹ اور ایک نئی ٹائی کے ساتھ پروگرام میں بھی آئے کیونکہ انہیں چک بتالی کی پہنچ اور اثر کا پتا چل گیا تھا،سو، نہ ماننے والے بھی سب کے سب محسن نقوی کے آئیڈیے اورلگن کی طاقت کو مان گئے، وہ برینڈ بن گیا۔
محسن نقوی، بہت دھیما بولتے ہیں اور بہت کم بھی۔ گرم دم جستجو اس شخص کو آپ گرم دم گفتگو نہیں کہہ سکتے یعنی ان سے بہت سارے سکرین کے صحافیوں کی طرح بڑھکیں نہیں لگوا سکتے، گرما گرم تقریر نہیں کروا سکتے اور شاید وہ تقریر پر زیادہ یقین بھی نہیں رکھتے۔ بہت ساروں کو حیرت ہو کہ انہوں نے برادرم سہیل وڑائچ کے ساتھ پورا پروگرام کیسے کر لیا مگرمجھے نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ تعلق اور دھڑا نبھانا جانتے ہیں۔ بہت ساروں کو یہ بھی حیرت ہو ئی کہ انہوں نے بطور وزیراعلیٰ شہباز سپیڈ کا بھی ریکارڈ توڑ دیا۔ میں بطور صحافی پنجاب کوبدقسمت اور خوش قسمت دونوں طرح کا ہی صوبہ سمجھتا ہوں کہ ایک طرف اسے میاں منظور وٹو، سردار عارف نکئی اور عثمان بزدار جیسے وزرائے اعلیٰ ملے تو دوسری طرف شہباز شریف، پرویز الٰہی اور محسن نقوی جیسے۔ پرویز الٰہی سپیڈ کے قائل نہیں تھے میں نے دیکھا کہ گجرات سے منڈی بہاوالدین تک جو سڑک انکے وزیراعلیٰ بننے پر شروع ہوئی تھی اس کی تکمیل کی تقریب میں نے ان کی وزارت اعلیٰ کے آخری ہفتے ان کے ساتھ جا کر شرکت کی۔ یہ سمجھا جا رہا تھا کہ شہباز شریف کی سپیڈ کوئی نہیں پکڑ سکے گا کہ وہ دن بھر جتنا کام کرتے ہیں وہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا بلکہ کہا جا تا تھا کہ شہباز شریف سوتے ہی نہیں۔ ان کا فون رات اڑھائی تین بجے بھی آسکتا ہے اور صبح چار، پانچ بجے بھی۔ شہباز سپیڈ کی دھومیں چین سمیت دوسرے ملکوں میں بھی پڑی ہوئی تھیں مگر سچ تو یہ ہے کہ محسن نقوی نے ان کی سپیڈ کا ریکاڈ بھی توڑ دیا ہے۔ میں اخبار کے ایڈیٹر کے طور پر جانتا ہوں کہ بعض اوقات خبر کی مرکزی تین،چار کالم سرخی تو ایک طرف رہی، اس کی ذیلی سرخیوں (یا ہم صحافیوں کی زبان میں پٹیوں) تک میں جگہ ختم ہوجاتی ہے مگر محسن نقوی کے دورے، چھاپے، اجلاس اور ہدایات ختم نہیں ہوتیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ پنجاب کے ایسے وزیراعلیٰ ثابت ہوں گے کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہ ہونے کے باوجود، دوسری سیاسی جماعتوں کے کارکن، اپنی اپنی سوشل میڈیا پروفائلز پر کہیں گے،’اپنا وزیراعلیٰ کیسا ہو، محسن نقوی جیسا ہو۔ بلاخوف تردید کہتا ہوں کہ سندھی اورپختون بھی ان جیسا وزیراعلیٰ چاہتے ہیں۔
محسن نقوی کا سب سے بڑا کریڈٹ یہ ہے کہ وہ عوا م کے حقیقی مسائل کو بھی جانتے ہیں اور انہیں حل کرنے کے طریقے بھی۔ یہ سمجھ بوجھ ایک حقیقی عامل صحافی میں ہی ہوسکتی ہے۔ یہ بات نہیں کہ میں ان کے تمام اقدامات اور تمام پالیسیوں سے اتفاق رکھتا ہوں جیسے میں نے بطور صحافی کھل کر پنجاب کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں کم اضافے پر اسے دوسروں کے برابر کرنے کا مطالبہ کیا۔جیسے مجھے افسوس ہے کہ احتجاج کرتے اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگیں،وہ جیل گئے۔ جیسے یہ صحت کے شعبے میں انقلابی اقدامات کے باوجود پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے ساتھ سنٹرل انڈیکشن کا تنازع نہیں پیدا ہونا چاہئے تھا مگر ان تمام کے باوجو د میں سوچتا اور سمجھتا ہوں کہ اگر محسن نقوی کو پانچ سال مل جائیں تو پنجاب کے سرکاری ہسپتال ایسے ہوجائیں کہ غریب عوام کو شکایات ہی نہ رہیں۔ڈاکٹر جاوید اکرم بتا رہے تھے کہ اس وقت ان گنت ارب روپوں سے سرکاری ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کا کام چل رہا ہے۔ وزیراعلیٰ محسن نقوی ہر روز یا ہر دوسرے روز، کم از کم ایک یا ایک سے بھی زیادہ سرکاری ہسپتال پر چھاپہ مارتے ہیں، وہاں مریضوں سے گفتگو کرتے ہیں، مسائل پوچھتے اور ان کے حل کے بارے فوری احکامات ہی نہیں دیتے بلکہ اجلاسوں میں اس صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے حکمت عملیاں بھی بناتے ہیں۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پنجاب کی تاریخ میں کسی وزیراعلیٰ نے صحت کے شعبے پر ایسی توجہ نہیں دی جیسی محسن نقوی دے رہے ہیں اور اس کے بعد سرکاری سکول، وہ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی سکول کی ٹونٹیاں کھولتے اور چیک کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح تعمیراتی کام ہیں کہ صرف لاہور ہی نہیں یوں لگتا ہے کہ پورا صوبہ ہی کھود کے دوبارہ بنایاجا رہا ہے۔ کسانوں او ر فصلوں کی طرف چلے جائیں تو وہاں انقلابی اقدامات نظر آتے ہیں جس کے نتیجے میں کپاس سمیت دیگر اجناس کی ریکارڈ پیداوار ہو رہی ہے۔ لاہور سمیت دوسرے شہروں کی صفائی ستھرائی جو بزدار دور میں غائب ہوگئی تھی ایک مرتبہ پھر اپنی بہترین صورت میں نظر آتی ہے۔
ایک صحافی کے طو رپر میرا کام صر ف تعریفیں کرنا نہیں، تنقید اور مخالفت کرنا،مشورے اور تجاویز دینابھی ہے۔ عام انتخابات کے لئے آٹھ فروری کی تاریخ کا اعلان ہوچکا یعنی پنجاب کی نگران حکومت فروری کے تیسرے ہفتے تک اپنی مدت پوری کر سکتی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ پنجاب تمام اسسٹنٹ کمشنروں اور ایس پیز کو حکم جاری کر دیں کہ آج کے بعد کسی بھی شہر کے کسی بھی بازار میں کوئی بھی کاروبار یا اس کا سامان دکان کے باہر نہیں ہوگا، جہاں بھی سٹال ہو گا یا ریڑھی ہو گی وہ سڑک پر نہیں بلکہ بہر صورت سڑک کے ساتھ لگے کھمبے سے پیچھے ہو گی اوراس کے لئے بھی بلدیہ سے جگہ کی موجودگی کی اجازت لینا ہوگی۔ وہ ہر سڑک کے ساتھ پارکنگ کی جگہ مختص کرنے کا حکم دے دیں اور اس کی باقاعدہ لائننگ کردی جائے۔ ہر پلازے کے تاجر، انتظامیہ یا یونین اپنے گاہکوں کے لئے پارکنگ فراہم کرے جو اس کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق فرض بھی ہے۔ ان تمام ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کئے جائیں تاکہ ریونیو جنریٹ ہومگر ریونیو سے بھی بڑھ کے وہ تجاوزات کے خاتمے سے صوبے بھر کے عوام کوکھلے ڈلے بازار اور ٹریفک کے لئے دستیاب سڑکیں دے کر جائیں گے، وہ صوبے بھر کے شہروں اور دیہات کی شکل ہی بدل جائیں گے اورپنجاب کے عوام عشروں تک ان کی یہ کارکردگی، یہ احسان نہیں بھولیں گے۔

تبصرے بند ہیں.