سعودی وژن 2030، چین اور غزہ میں جنگ

69

سعودی عرب کی معیشت زیادہ تر تیل کی برآمد پر انحصار کرتی ہے سعودی خام قومی پیداوار کا 42 فی صد اسی شعبے سے حاصل ہوتا ہے جبکہ 58 فی صد قومی پیداوار دیگر عوامل پر منحصر ہے۔ سعودی شہزادہ، جو مملکت کے بادشاہ کے طور پر نامزد بھی ہو چکے ہیں، محمد بن سلمان مملکت کو ایک جدید ترین ریاست بنانے کے عظیم الشان نظریے اور منصوبے وژن 2030 پر چل رہے ہیں یہ منصوبہ مملکت کو مکمل طور پر ایک جدید ترقی کرتی ہوئی ریاست میں بدلنے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے سعودی عرب کو سرمایہ کاری کا مرکز اور سرمایہ کاروں کے لئے جنت بنانے کا عزم لئے ولی عہد محمد بن سلمان دن رات ایک کر چکے ہیں وہ سعودی خام پیداوار میں نان آئل عوامل کو 58 فیصد سے بڑھا کر 69 فی صد تک لیجانا چاہتے ہیں۔ وژن 2030 کے تحت کئی عظیم الشان منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں سب سے بڑا منصوبہ نیوم سٹی کی تعمیر کا ہے نیوم مجموعہ ہے لاطینی لفظ NEO یعنی نیا اور M، عربی لفظ مستقبل سے اخذ کردہ ہے نیوم یعنی ”نیا مستقبل“ شہر 26,500 مربع کلومیٹر رقبے پر بحیرہ احمر کے شمال مغرب میں واقع ہو گا۔ اس شہر کو بسانے کے لئے 500 ارب ڈالر سے زائد رقم کی سرمایہ کاری کا تخمینہ لگایا گیا ہے یہ ایک میگا پراجیکٹ ہے جس پر اس قدر خطیر رقم خرچ کی جانی ہے دوسرا بڑا پراجیکٹ 334 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ایک تفریحی مقام/ شہر بسایا جائے گا جو ریاض سے 40 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہو گا۔ اس شہر کے قیام سے سعودی باشندے جو رقوم دبئی ابوظہبی، عمان اور گلف کے دیگر مقامات پر جا کر خرچ کرتے ہیں، یہاں اس مقام پر خرچ کی جائیں گی۔ سعودی سیاحوں کے علاوہ علاقائی اور بین الاقوامی سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔ وژن 2030 کے ذریعے نجی شعبے کے تعاون سے 4 لاکھ 50 ہزار روزگار کے مواقع پیدا ہونگے۔ وژن 2030 کو حقیقت کا رنگ دینے کے لئے نیشنل ٹرانسفارمیشن پروگرام ترتیب دیا جا چکا ہے اور اس کی قیادت سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کر رہے ہیں جو کونسل آف اکنامک اینڈ ڈویلپمنٹ افیئرز کے چیئرمین بھی ہیں۔

سعودی عرب پہلے بھی ریاض میں کنگ عبداللہ فنانشل ڈسٹرکٹ (KAFD) اور کنگ عبداللہ اکنامک سٹی (KAEC) جیسے عظیم الشان منصوبوں کی تکمیل کے ذریعے اپنی معیشت میں تنوع پیدا کرنے کی کاوشیں کر چکا ہے۔ یہ عظیم الشان پرا جیکٹس، وژن 2030ء کے لئے رہنما کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سعودی عرب ثقافتی اور تہذیبی طور پر بھی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے روایتی طرز زندگی میں تبدیلی لائی جا رہی ہے عورتوں کو آزادی مل رہی ہے وہ امور دیگر میں بھی شریک ہو رہی ہیں گاڑیاں چلا رہی ہیں سینما ہاؤسز کھل رہے ہیں۔ معاشرتی گھٹن میں کمی آ رہی ہے۔ سیاسی طور پر بھی تبدیلی نظر آ رہی ہے امریکہ برطانیہ کے علاوہ چین اور روس سے بھی تعلقات بڑھائے جا رہے ہیں خارجہ پالیسی میں تنوع پیدا کیا جا رہا ہے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہو چکے ہیں یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ سعودی عرب معاشی اور ثقافتی تبدیلی اور ترقی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ اسی پالیسی کے تحت اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات معمول پر لانے کی باتیں سننے میں آ رہی تھیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں بھی سنا جا رہا تھا۔ پس پردہ شاید سلسلہ جنبانی بھی چل رہا تھا۔ وژن 2030 کے نفاذ کے حوالے سے بڑے بڑے ٹھیکے یہودی اسرائیلی فرموں کو دیئے جا رہے ہیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور یہودیوں کے ساتھ دشمنی ختم یا کم کرنے کی سعودی پالیسی وژن 2030 کے اہداف کے حصول کی راہیں کشادہ کر سکتی ہے۔

8 دسمبر 2022 چینی صدر کا ریاض کے کیا ما پیلس میں فقید المثال استقبال کیا گیا چینی صدر  نے محمد بن سلمان کو بتایا کہ وژن 2030 ایک اعلیٰ منصوبہ ہے لیکن اسے جاری طریقے سے مکمل کرنا ممکن نہیں ہوگا چین کے پاس ایسی صلاحیت ہے جو میگا منصوبوں کو بر وقت مکمل کرنے میں یقینی ہوتی ہے اسرائیلی و یہودی فرمیں، میگا پراجیکٹس بروقت مکمل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔ سعودی عرب کو چاہئے کہ وہ اس حوالے سے چین کو موقع دے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں، اس ملاقات میں معاملات طے پا گئے تھے۔

اب ذرا 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملوں کا جائزہ لیں۔ حماس لینڈ لاک غزہ کی پٹی میں محصور زندگی گزار رہا ہے تین اطراف اسرائیل اور چوتھی طرف سمندر ہے جس پر بھی اسرائیل کی نگرانی ہے۔ غزہ کی پٹی 60 کلو میٹر لمبی ہے جسے مکمل طور پر خاردار دیوار کے ذریعے اسرائیل سے الگ کر دیا گیا ہے اس پر ہر جگہ کیمرے نصب ہیں جن کے منہ فلسطینی آبادی کی طرف ہیں تاکہ انکی ہر حرکت اور نقل و حمل صہیونی ریاست کی نظروں میں رہے پھر ایک سڑک ہے جس پر ہر وقت اسرائیلی فوجی گشت کرتے رہتے ہیں اس کے بعد کنکریٹ کی دیوار ہے جس کے پیچھے اسرائیلی شہری آبادی ہے، زمینی طور پر یہ انتظام اس قدر سخت اور مکمل ہے کہ فلسطینی اسے بائی پاس کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ پھر اسرائیلی فضا میں آئرن ڈوم نامی دفاعی سسٹم آن ہے جس کی تین پرتیں ہیں کوئی جہاز، راکٹ، میزائل اس میں داخل نہیں ہو سکتا ہے یہ نظام اسے ہوا میں ہی تباہ کر دیتا ہے۔ اسرائیل پوری دنیا میں سائبر سکیورٹی ٹیکنالوجی کے حوالے سے مشہور ہے اس ٹیکنالوجی میں اسے یدِطولیٰ حاصل ہے ایسے میں حماس کا اسرائیل کے اندر گھس کر زمینی سکیورٹی نظام کو بائی پاس کر کے کنکریٹ کی دیوار توڑ حملہ آور ہونا، حماس فدائن کا روایتی ہوائی گاڑی کے ذریعے، آئرن ڈوم کو کراس کرنا اور حملہ کرنا حیران کن بات ہے اس پوری کارروائی میں انسانی جرأت و ہمت کے علاوہ مہارت، تکنیک اور اعلیٰ آلات حرب و ضرب کی دستیابی انتہائی اہم ہیں۔ پھر سب سے اہم بات اسرائیلی ایجنسیاں، جو دنیا بھر میں اپنی مہارت کے باعث مشہور ہیں، اس ساری تیاری اور حملے سے کیسے بے خبر رہیں؟ حماس کے مجاہدین نے نہ صرف اسرائیل کے اندر گھس کر 22 مقامات پر حملہ کیا بلکہ 2 سو سے زائد لوگوں کو یرغمال بھی بنا ڈالا۔ حیران کن ہی نہیں پریشان کن بھی ہے۔ اسرائیل کا ری ایکشن بھی سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کیسے ہو گیا۔ ایک چھوٹی سی تنظیم حماس نے، جسے فلسطینیوں کی بھی پوری حمایت حاصل نہیں ہے، اس قدر وسیع آپریشن کر ڈالا۔ علاقے کی سپر پاور اسرائیل کو صرف للکارا ہی نہیں بلکہ اس کے منہ پر طمانچہ بھی مار ڈالا۔ اب سعودی عرب اسرائیل تعلقات میں گرمی نہیں دیکھنے کو ملے گی۔ چین وژن 2030ء میں ایک مرکزی کردار بن جائے گا۔

تبصرے بند ہیں.