جیلوں میں چھج پتاسے

96

پنجاب کی اڈیالہ جیل ان دنوں عمران خان کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہو چکی ہے، سابق وزیر اعظم یہاں قیدی کی حیثیت سے بند ہیں اور ان کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو باقی قیدیوں کے ساتھ ہوتا ہے، وہ جیل مینوئل کے مطابق دال روٹی اور باقی چیزیں کھاتے ہیں، اپنے پلے سے پیسے خرچ کر کے کبھی کبھی مرضی کی سبزیاں اور دیسی مرغ بھی پکوا لیتے ہیں، معلوم ہوا ہے کہ وہ جیل کے قواعد و ضوابط کی مکمل پابندی کرتے ہیں، کسی بیماری یا سہولت کے نہ ملنے کی کوئی شکایت کرنے کی بجائے ورزش کرتے ہیں،قران پاک کی تلاوت اور نماز کی ادائیگی بھی ان کے روزانہ امور کاحصہ ہیں۔اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ اسد وڑائچ ایک ایماندار مگر سخت گیر اور اکارڈنگ ٹو بک چلنے والے جیلر ہیں، ان سے کوئی ”ان ڈیو فیور“ لے سکتا ہے نہ وہ کسی کے ساتھ نا انصافی ہونے دیتے ہیں، چاہے وہ کتنا بھی بااثر قیدی ہو، لاہور کی کیمپ جیل میں وہ کافی عرصہ تک سپر نٹنڈنٹ رہے اس دوران موجودہ وفاقی وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد اور موجودہ معاون خصوصی برائے وزیر اعظم احد خان چیمہ ”ان کے قیدی“ رہے، دونوں ہی ان کے کام اور رویے کی تعریف کرتے ہیں، عمران خان ان دنوں قیدی ہیں مگر تصور کریں اگر عمران خان وزیر اعظم کی حیثیت سے اڈیالہ جیل آتے تو آئی جی جیل اور سپرنٹنڈنٹ، اڈیالہ جیل کے گیٹ پر اپنے عملے کے ہمراہ انہیں ہار پہنا کر سیلوٹ کرتے، قیدیوں میں چھج پتاسے تقسیم کرتے اور دل ہی دل میں گا رہے ہوتے ”میں چھج پتاسے ونڈاں اج قیدی کر لیا ماہی نوں“۔
پنجاب کے چیف جیلر (آئی جی) میاں فاروق نذیر ویسے بھی ان دنوں جیل افسروں کے محبوب بنے ہوئے ہیں، پنجاب کے جیلروں میں زیرو میٹر گاڑیاں بانٹنے،جیلوں میں ٹریکٹر چلا کر تازہ سبزیاں اگانے کے تصور اور حکومت سے دوسری سہولیات حاصل کرنے کے حوالے سے کافی مشہوری پا چکے ہیں۔ میں نے کسی ویڈیو میں دیکھا کہ وہ جیلروں میں کالے رنگ کی نئی لش پش گاڑیوں کی چابیوں کے چھلے تقسیم کر رہے تھے تو کئی سپرنٹنڈنٹ جیل تو ان کے واری صدقے جا رہے تھے اور یہ گانا گاتے ہوئے بھی پائے گئے ”ماہی ماہی ماہی مینوں چھلا پوا دے“ لگتا ہے کہ میاں فاروق نے وزیر اعلیٰ آفس اور ہوم ڈیپارٹمنٹ میں اچھے رابطوں سے محکمہ جیل کی بہتری کے لئے کام کرانے کا گر حاصل کر لیا ہے اور ”لگے رہو منا بھائی“ کے مصداق جیلوں اور جیل سٹاف کے لئے مزید سہولتوں کے لئے فائلیں اور تجاویز تیار کر رہے ہیں،انہیں جیل انسپیکٹوریٹ کو پولیس انسپیکٹوریٹ کے ہم پلہ بنانے کی سعی بھی کرنا ہوگی وہ محکمہ جیل کے واحد افسر ہیں جنہوں نے آئی جی کا عہدہ تیسری دفعہ حاصل کیا ہے،اس لئے وہ جیلوں اور جیل والوں کی حالت بہتر سے بہتر بنانے کے لئے کافی علم رکھتے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے آئی جی جیل کا عہدہ پولیس کے چنگل سے آزاد ہو کر واپس جیل والوں کے پاس آیا ہے تب سے جیلوں کے معاملات اور جیل سٹاف کے حالات میں رفتہ رفتہ بہتری آ رہی ہے،ماضی میں مفتی صاحب سے لے کر،کوکب ندیم وڑائچ،شاہد سلیم بیگ اور ملک مبشر نے اپنی بساط کے مطابق اچھا کام کیا مگر اب میاں فاروق نذیر کو یہ موقع تیسری دفعہ ملا ہے تو ان پر ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔
موجودہ محتسب پنجاب اعظم سلیمان خان جب پنجاب میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم تھے اس وقت وزیر اعلیٰ آفس،ہوم ڈیپارٹمنٹ اور جیل خانہ جات کے تعلقات مثالی تھے،اور ہوم آفس میں آئی جی جیل کی مانی جاتی تھی لیکن ان کے جانے کے بعد ہوم ڈیپارٹمنٹ نے آئی جی جیل آفس کو کمزور کرنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں جیلوں کا انتظامی نظام خراب ہونا شروع ہو گیا تاہم اب میاں فاروق نذیر کے آئی جی جیل خانہ جات بننے کے بعد ہوم ڈیپارٹمنٹ اور آئی جی آفس کے باہمی معاملات بہتر ہو رہے ہیں،محکمہ جیل خانہ جات پر حالیہ کچھ عرصے میں جو خصوصی توجہ دی جا رہی ہے انہی بہتر تعلقات کا نتیجہ ہے۔
ایک زمانہ تھا جب جیل خانہ جات ملک کا سب سے زیادہ نظر انداز کیا جانے والا محکمہ تھا، اس کا اندازہ قیدیوں کی جانب سے سامنے لائی جانے والی شکایات سے کیا جا سکتا تھا، کئی بار تو قیدی اس قدر پریشانی یا تکلیف دہ صورت حال میں مبتلا ہوئے کہ انہوں نے جیل انتظامیہ کے خلاف بغاوت تک کر دی لیکن اب لگتا ہے کہ دن پھر گئے ہیں کیونکہ اس محکمے کے بارے میں ایک کے بعد ایک اچھی خبریں سامنے آ رہی ہیں،محکمہ جیل خانہ جات پنجاب اور لمز سکول آف لا کے مابین پنجاب کی جیلوں میں مقید اسیران کو پیرا لیگل ایڈ اور فری لیگل ایڈ کی فراہمی کے لیے سمجھوتے کی یادداشت پر دستخط کئے گئے ہیں، پیرا لیگل ایڈ کے تحت سکول آف لا کے سٹوڈنٹس کی جانب سے پڑھے لکھے اسیران کو ٹریننگ دی جائے گی جو آگے باقی اسیران کو ان کے کیسز کے مختلف مراحل میں راہنمائی فراہم کریں گے۔ سمجھوتے کی یہ یادداشت جیلوں میں بند قیدیوں کے وہ مسائل حل کرنے میں ممد ثابت ہو گی جن کا انہیں اپنے حقوق کے حوالے سے قانونی موشگافیوں کا علم نہ ہونے کی وجہ سے سامنا کرنا پڑتا ہے، مشاہدے میں آتا ہے کہ کسی وجہ سے جیلوں میں بند ہو جانے والے قیدیوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ بحیثیتِ قیدی ان کے حقوق کیا ہیں اور جن الزامات یا جن ایشوز کی بنیاد پر انہیں قید کیا گیا ہے ان سے بچاؤ کے ان کے پاس کون سے قانونی آپشنز موجود ہیں۔ ایسی کہانیاں بھی سامنے آئیں کہ لوگوں نے بے گناہ ہونے کے باوجود پوری زندگی قید میں گزار دی، محکمہ جیل خانہ جات پنجاب اور لمز سکول آف لا کے مابین سمجھوتے کی یادداشت ان سارے معاملات پر قیدیوں کے لیے روشنی کی کرن ثابت ہو گی۔
جیل خانہ جات کے حوالے سے دوسری اچھی خبر یہ سامنے آئی کہ صوبے بھر کی جیلوں کے سپرنٹنڈنٹ صاحبان کو سرکاری کرولا گاڑیاں دی گئی ہیں اور ایسا اس محکمے کی ایک سو پینسٹھ سالہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے، باقی محکموں میں گریڈ سترہ کے افسروں کو اچھی گاڑیاں ملتی رہیں مگر جیل خانہ جات مسلسل اگنور ہوتا رہا جس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ افسران کی کارکردگی متاثر ہونے لگی، ماضی میں جیل خانہ جات کو کس طرح نظر انداز کیا جاتا رہا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس شعبے میں افسران کی بڑی تعداد پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہو کر آتی ہے مگر مناسب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ محکمہ جیل چھوڑ کر کسی اور محکمے میں چلے جاتے رہے ہیں۔
جیل خانہ جات کے شعبے کو اب سہولتیں تو وافر مل رہی ہیں افسروں کو مناسب مراعات بھی دی جا رہی ہیں جس سے جیلوں میں تعینات افسران خوش ہیں،اب انہیں بہتر کام بھی کر کے دکھانا ہو گا تاکہ جیلوں میں قیدیوں کو بہتر سہولتیں ہی نہ ملیں بلکہ ان کی اچھی تربیت بھی ہو سکے اور وہ جیلوں سے رہا ہوں تو اچھے، فرض شناس شہری بن کر نکلیں،یقینی طور پر ڈی آئی جی (ہیڈکوارٹر)میاں سالک جلال اور انسپیکٹوریٹ کے دفتری مدارالمہام وارث علی اس سلسلے میں آئی جی جیل کی معاونت کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔

تبصرے بند ہیں.