جامعہ پنجاب کا شمار برصغیر پاک و ہند کی قدیم ترین جامعات میں ہوتا ہے۔ اس کا قیام 14 اکتوبر 1882 کو عمل میں آیا تھا۔ دو دن پہلے جامعہ پنجاب کے قیام کے 141 برس مکمل ہوئے ہیں۔ اس درسگاہ نے بڑے بڑے نام پیدا کئے ہیں۔ اس کے فارغ التحصیل طالب علم اندرون اور بیرون ملک مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ جامعہ پاکستان کا قابل قدر اثاثہ ہے۔ گزشتہ ماہ پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمن جامعہ پنجاب تشریف لائے تو انہوں نے بھی یہ بات دہرائی۔ فرمایا کہ جامعہ پنجاب ہم سب کا فخر ہے۔ گورنر صاحب نے بطور چانسلر پنجاب یونیورسٹی سینٹ کے 360 ویں اجلاس کی صدارت کی تھی۔ اس اجلاس میں دیگر امور کے ساتھ ساتھ جامعہ کے سالانہ بجٹ کی منظوری دی گئی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ خسارے کا بجٹ تھا۔ خسارہ بھی کم و بیش اڑھائی ارب روپے کا۔یہ کوئی معمولی رقم نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بھاری بھرکم خسارہ کیسے پورا ہو گا؟۔ سرکاری جامعات کا انحصار طالب علموں کی فیسوں پر ہوتا ہے یا پھر حکومت کی طرف سے ملنے والے فنڈز پر۔ فنڈز کی صورتحال ہم سب کے سامنے ہے۔ گزشتہ کئی برس سے ہماری سرکاری جامعات فنڈز کی کمی کا نوحہ پڑھ رہی ہیں۔ لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن (جو سرکاری جامعات کو فنڈز مہیا کرنے کا ذمہ دار ہے) بھی کئی برس سے مختلف قسم کے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ ا ن حالات میں جامعات کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
گزشتہ کئی برس سے سرکاری جامعات کی مالی مشکلات سے متعلق خبریں اور اطلاعات تواتر سے سننے کو مل رہی ہیں۔ یہ فقط چند جامعات کا قصہ نہیں ہے۔ نہ ہی یہ معاملہ کسی ایک صوبے تک محدود ہے۔ ہر صوبے میں کم و بیش یہی صورتحال ہے۔ چند برس پہلے پشاور یونیورسٹی کے متعلق خبر آئی تھی کہ یہ اپنے اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہیں دینے سے قاصر ہے۔ لاہور کی معروف درسگاہ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے دیوالیہ ہونے کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا تھا۔ یہ خبریں بھی زیر گردش رہیں کہ بہت سی سرکاری جامعات بنکوں سے قرض مانگنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ اس صورتحال کے پیش نظر لازم تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل بیٹھتیں۔ اتفاق رائے سے ٹھوس منصوبہ بندی کرتیں۔ سرکاری جامعات کو مالیاتی دباو سے نکالنے کے لئے حکمت عملی وضع کی جاتی۔ لیکن افسوس کہ اس ضمن میں کسی قسم کی منصوبہ بندی یا پالیسی سازی نہیں کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک کے بعد دوسری جامعہ مالی مسائل سے دوچار ہوتی گئی۔ رہی سہی کسر کرونا وائرس نے پوری کر دی۔ کوویڈ نے جہاں دنیا بھر کے ممالک کی معیشت کو متاثر کیا، پاکستان کی کمزور معیشت بھی اس کی زد میں آ گئی۔ اس معاشی صورتحال کا اثر دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ شعبہ تعلیم پر بھی پڑا۔ اب حالت یہ ہے کہ زیادہ تر سرکاری یونیورسٹیاں اپنے اخراجات نہایت دقت سے پورے کر رہی ہیں۔
جامعات کے مالی بحران کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری حکومتیں شعبہ تعلیم کے لئے ضرورت سے بہت کم بجٹ مختص کرتی ہیں۔ حکومتی فنڈز کے علاوہ سرکاری جامعات کا ذریعہ آمدن طالب علموں کی فیسیں ہوتی ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے، نجی تعلیمی اداروں کی طرح کام نہیں کرتے۔ نجی تعلیمی ادارے کاروباری طرز پر استوار ہوتے ہیں۔ وہاں پربھاری بھرکم فیسیں وصول کی جاتی ہیں۔ جبکہ سرکاری ادارے معمولی فیسیں وصول کرتے ہیں۔ انہیں فیسیں بڑھانے کی اجازت بھی مشکل سے ملتی ہے۔ جامعہ پنجاب کی مثال لیجئے۔اس کی فیس پنجاب کی دیگر سرکاری جامعات کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ گزشتہ پندرہ سال سے یہاں پر فیسوں میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔اندازہ کیجئے کہ پندرہ برس میں مہنگائی کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔اس دوران پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہیں بڑھتی رہیں۔ جزوقتی اساتذہ کے واجبات میں بھی اضافہ کیا گیا۔ لیکن طالب علموں کی فیسیں وہیں کی وہیں رہیں۔ اس کی وجہ غالباً طلبا ء تنظیموں کا دباؤ ہو گا۔ یہ صورتحال یقینا جامعہ کے مالی دباؤ میں اضافے کا باعث ہو گی۔ چند ماہ پہلے پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے جامعہ پنجاب کے ایکٹنگ وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالا تو سربراہان شعبہ جات کی درخواست پر فیسوں میں اضافے کی منظوری دی۔ لیکن یہ اضافہ بھی نہایت معمولی ہے۔ڈاکٹر صاحب کا نقطہ نظر ہے کہ سرکاری جامعات اس ملک کے غریب نوجوانوں کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ اگر سرکاری جامعات کی فیسیں بھی آئے روز بڑھائی جانے لگیں تو ملک کا غریب نوجوان کہاں جائے گا؟ اس پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بندہو کر رہ جائیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف ہے کہ یہ دراصل حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکاری جامعات کی سر پرستی کریں۔ ان کے لئے فنڈز کی فراہمی یقینی بنائیں۔
چند دن پہلے جامعات کے مالی مسائل کے حوالے سے گفتگو میں پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود صاحب نے ایک اہم نکتے کی جانب توجہ دلائی۔ فرمایا کہ رواں برس حکومت نے اساتذہ او ر ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے۔ مہنگائی کے پیش نظر یہ اضافہ قابل جواز ہے۔ لیکن جس حساب سے تنخواہو ں میں اضافہ ہوا ہے اس حساب سے حکومت کی طرف سے جامعات کو ملنے والے فنڈز میں بھی اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اب ان اضافی تنخواہوں کا بوجھ جامعات کو اٹھانا پڑرہاہے۔ اس کے علاوہ پنشن اور اس میں ہونے والا اضافہ بھی جامعات کی مالی مشکلات بڑھانے کا باعث ہے۔ وہ جامعات جن کے قیام کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا، وہ اس اضافی ذمہ داری سے آزاد ہیں۔ لیکن پرانی یونیورسٹیوں کو پنشنوں کی ادائیگی کے لئے بھاری بھرکم رقم مختص کرنا پڑتی ہے۔ خود جامعہ پنجاب کو تقریباً 2 ارب روپے سالانہ پنشن اور دیگر واجبات کی مد میں ریٹائرڈ ہونے والوں کو ادا کرنے پڑتے ہیں۔ و ائس چانسلر صاحب نے بتا یا کہ دنیا بھر میں رجحان ہے کہ فارغ التحصیل طالب علم اور دیگر اہل خیر تعلیمی اداروں کی مالی امداد کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس ضمن میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کی ایلومینائی ایسوسی ایشن نہایت متحرک ہے۔ اس ایسوسی ایشن نے میڈیکل یونیورسٹی کے موجودہ طالب علموں کی فیسوں کا ذمہ اٹھا رکھا ہے۔کنگ ایڈورڈ کالج کے ایک پرانے طالب علم نے اپنی جیب سے یونیورسٹی میں سوا ارب روپے کی لاگت سے ایک اکیڈیمک بلاک تعمیرکر وایا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پنجاب یونیورسٹی ایلیومینائی ایسوسی ایشن کو متحرک بناناچاہتے ہیں تاکہ اس ادارے کے پرانے طالب علم جو اندرون اور بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں وہ جامعہ کے موجودہ طالب علموں کی فلاح کے لئے آگے بڑھیں۔
ڈاکٹر صاحب اگر ایسا کر سکیں تو یہ یقینا ایک اچھی حکمت عملی ہو گی۔ ہمارے ملک میں بھی اہل خیر کی کمی نہیں ہے۔برسوں سے ہمارے ملک کے بہت سے سرکاری ہسپتالوں میں تین وقت کا کھانا تقسیم ہوتا ہے۔ حکومت کا ایک روپیہ بھی اس میں خرچ نہیں ہوتا۔ اس کا انتظام نہایت خاموشی سے اللہ کے وہ بندے کرتے ہیں جو اپنی تشہیر نہیں چاہتے۔تعلیم پر خرچ کرنا تو یوں بھی صدقہ جاریہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مخیر حضرات کو یہ باور کروایا جائے کہ ہسپتالوں اور دینی مدارس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں پر خرچ کرنا بھی نیکی کا کام اور صدقہ جاریہ ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.