بدعنوانی کی قیمت

36

اقوام متحدہ کے کنونشن میں بدعنوانی کے معیشت اور کاروبار پر اثرات کی وضاحت کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ”بدعنوانی ناقص معاشی کارکردگی کا ایک بنیادی عنصر اور ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے“۔ بدعنوانی چھوٹے بڑے دونوں قسم کے کاروباروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ کاروباری اداروں کو براہ راست متاثر کرنے کے علاوہ بدعنوانی ایک عام شہری کو بھی مختلف انداز سے متاثر کرتی ہے، یہاں تک کہ ایک عام دکاندار یا ایک چھوٹی کمپنی بھی رشوت میں دی گئی رقم کو پورا کرنے کے لیے اپنی اشیا کی قیمت بڑھاتی ہے جو کہ بالآخر گاہکوں کی جیب سے نکلتی ہے۔ زیادہ قیمتیں رشوت میں دیا جانے والا ”مخفی ٹیکس“ ہیں۔ کئی مرتبہ ایک سے زیادہ بدعنوان افراد کو رشوت دینے کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے یا کسی لحاظ سے محنت کشوں کی اجرتوں میں کمی کر دی جاتی ہے۔ ایک بدعنوان ماحول میں جہاں پر حکومتوں اور کاروباری اداروں پراعتبار نہ کیا جا سکے، سرمایہ کاری میں بتدریج کمی کی وجہ سے اس ملک کی معیشت گراوٹ کا شکار ہوسکتی ہے۔ اگر بدعنوانی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1990 کی دہائی تک اسے عالمی سطح پر بھی کبھی سنجیدہ نہیں لیا گیا تاہم 90 کی دہائی کے بعد سول سوسائٹی کی ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جیسی تنظیموں کی کوششوں کی وجہ سے بدعنوانی ایک اہم بین الاقوامی مسئلے کے طور پر سامنے آئی۔ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر انسداد بدعنوانی کے لیے مختلف طریقہ کار وضع کیے گئے اور مختلف معیارات، ہدایت نامے اور معاہدے عمل میں لائے گئے۔ جس کی ابتداء پہلے امریکہ پھر یورپ، ایشیا اور افریقہ میں کی گئی۔ لیکن ان معاہدوں پر عمل درآمد میں عمومی طور پر کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا، کئی برسوں کے مذاکرات کے بعد 2005 میں بد عنوانی کے خلاف اقوام متحدہ کا کنونشن وجود میں آیا۔ تاہم دنیا کے ایسے ممالک جو اقوام متحدہ کے کنونشن سے قبل بھی جانتے تھے کہ بدعنوانی نہ صرف شہریوں کے ان کی حکومتوں پر اعتماد کو مجروح کرتی ہے بلکہ سماجی و اقتصادی ترقی کو بھی روکتی ہے، انہوں نے اس ناسور سے نمٹنے کے لیے ایسے خود مختار محکمے یا ایجنسیاں قائم کیں جن کی ساکھ عالمی سطح پر مانی جاتی ہے، یہ ادارے شفافیت، احتساب اور قانون کی حکمرانی کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جبکہ کچھ ممالک نے سخت انسداد بدعنوانی قوانین اور مثالی سزاؤں کے ذریعے اس ناسور پر قابو پایا ہے، مثالی سزاؤں سے مراد ایسی سزائیں ہیں جو کسی خاص جرم سے وابستہ اوسط سزا سے جان بوجھ کر زیادہ سخت رکھی جاتی ہیں۔ جس کا مقصد لوگوں کو بدعنوان سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے روکنا ہے۔ ان میں سب سے پہلے بدعنوانی کے خلاف ہانگ کانگ کا آزاد کمیشن (ICAC) اپنی نوعیت کے سب سے مؤثر اور معتبر اداروں میں سے ایک کے طور پر مشہور ہے، یہ ادارہ 1974 میں اپنے قیام کے بعد سے بدعنوانی کے خلاف جنگ میں ایک مضبوط ٹریک ریکارڈ پر فخر کرتا ہے۔ یہ کمیشن ایک مضبوط قانونی فریم ورک کے ساتھ کام کرتا ہے اور اسے وسیع تفتیشی اختیارات حاصل ہیں۔ اس کی غیر جانبداری، کارکردگی اور انصاف کے عزم نے اسے دوسرے ممالک کے لیے ایک نمونہ بنا دیا ہے۔ اس ادارے کی کوششوں نے ہانگ کانگ میں بدعنوانی کی سطح کو نمایاں طور پر کم کیا ہے، دوسرے نمبر پر سنگاپور کرپٹ پریکٹس انویسٹی گیشن بیورو (CPIB) کا نام آتا ہے۔ سی پی آئی بی نے سنگاپور کو دنیا کے سب سے کم کرپٹ ممالک میں سے ایک کے طور پر قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔اس کی کامیابی کے پیچھے ایک اہم عنصر بدعنوانی کے خلاف اس کی صفر رواداری کی پالیسی ہے۔ بیورو آزادانہ طور پر کام کرتا ہے اور بدعنوانی کے مقدمات کی چھان بین کرتا ہے جن میں سرکاری افسران اور نجی افراد یکساں شامل ہیں۔ مجرموں کو سخت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں طویل قید اور بڑے جرمانے شامل ہیں۔ تیسرے نمبر پر سویڈش اینٹی کرپشن یونٹ (ROT) ہے، سویڈن طویل عرصے سے اپنی کم بدعنوانی کی سطح کے لیے جانا جاتا ہے، جس کی وجہ سویڈش اینٹی کرپشن یونٹ (ROT) کی کامیابی ہے۔ROT کی خصوصیت بدعنوانی کو روکنے اور ان سے نمٹنے کے لیے اس کے جامع نقطہ نظر سے ہے۔ یہ یونٹ عوامی انتظامیہ میں شفافیت، دیانتداری اور اخلاقیات کو فروغ دینے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اس کی کامیابی کی کلید مختلف اسٹیک ہولڈرز بشمول قانون نافذ کرنے والے اداروں، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کے ساتھ تعاون کرنے کی یونٹ کی صلاحیت ہے۔ روک تھام، پتہ لگانے اور پراسیکیوشن کے ذریعے، ROT نے ایک ایسا ماحول بنایا ہے جہاں بدعنوانی کی انتہائی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ اسی طرح چین نے سرکاری اور نجی دونوں شعبوں میں بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ ملکی قانون بدعنوانی کے سنگین جرائم کے لیے عمر قید سمیت سخت سزائیں دیتا ہے۔ جنوبی کوریا نے اپنے انسداد بدعنوانی کے قوانین، جیسے کم ینگ رن ایکٹ کے نفاذ کے ذریعے انسداد بدعنوانی کے سخت اقدامات کو لاگو کیا ہے۔ یہ ایکٹ کئی بدعنوان طریقوں کو مجرم قرار دیتا ہے اور بھاری جرمانوں سمیت سخت سزائیں دیتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے بدعنوانی کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے لیے سخت سزائیں مقرر کر رکھی ہیں۔ ملک کا مضبوط قانونی ڈھانچہ، مثالی سزاؤں کے ساتھ مل کر ایک مضبوط رکاوٹ کا کام کرتا ہے۔ مجرموں کو بھاری جرمانے کے ساتھ 20 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، برازیل نے حالیہ برسوں میں بدعنوانی کے خلاف اپنی لڑائی میں تیزی لا کر توجہ حاصل کی ہے۔ ملک نے قانونی اصلاحات کا ایک سلسلہ نافذ کیا ہے، انسداد بدعنوانی کی قانون سازی کو مضبوط بنایا ہے اور سخت سزائیں دی ہیں۔ برازیل کا ’کلین ریکارڈ قانون‘ بدعنوان سیاست دانوں پر عوامی عہدے کے لیے انتخاب لڑنے پر پابندی لگاتا ہے، اور مجرموں کو ان کے ناجائز کاموں کے لیے قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بلاشبہ سخت قوانین اور مثالی سزائیں معاشرے میں بدعنوانی کی سطح کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن یہ بھی مؤثر قانونی فریم ورک اور قابل اعتماد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بدعنوانی کی بنیادی وجوہات یعنی غربت، قانون کی کمزوری، اور شفافیت کی کمی کو دور کرنا، بدعنوانی کے خلاف جنگ میں طویل مدتی کامیابی حاصل کرنے کے لیے اہم ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں آج تک احتساب کا کوئی ایسا ادارہ نہیں بن سکا،جس پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے، یہی وجہ ہے کہ بدعنوانی کا پودا بڑی تیزی سے پھلتا پھولتا رہا اور آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے، اگر آج بھی بدعنوانی کو برداشت کیا جاتا رہا تو پھر ہماری آنے والی نسلیں بھی اس کی قیمت چکاتی رہیں گی۔ (آخری قسط)

تبصرے بند ہیں.