اقلیتوں کا تحفظ ضروری

52

جڑانوالہ کے دل خراش واقعات ابتدائی تحقیقات میں ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ قرار دیئے گئے ہیں جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ کے ملوث ہونے کا امکان بھی رد نہیں کیا گیا جس کے گماشتوں نے نواحی علاقوں کے چند لوگوں کو گمراہ کیا اور انہیں جڑانوالہ پہنچا کر کچھ مقامی افراد کو بھی مسیحی برادری کے گرجا گھروں اور املاک پر حملوں کے لئے اکسایا۔ افسوسناک واقعات کی حکومت اور پوری قوم نے شدید مذمت کی ہے۔ علماء کے ایک وفد نے لاہور کے ایک چرچ میں جاکر بشپ اور مسیحی برادری سے اس نارواعمل کی معافی مانگی۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سانحہ کا نوٹس لیتے ہوئے آئی ایس پی آر کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک اور ناقابل برداشت قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کے تمام شہری، مذہب جنس ذات اور عقیدے کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہیں پولیس کا کہنا ہے کہ واقعات کے ذمہ دار 34 افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی اور ضابطہ فوجداری کے تحت مقدمات درج کرلئے گئے ہیں جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا اسکا دفاع تو نہیں کیا جا سکتا۔ بنیادی طور پر یہ معاشرے کا سب سے تشویشناک پہلو ہے کہ یہاں قانون کو ہاتھ میں لینا بہادری سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں قانون توڑنا بہادروں کا شیوہ ہے اور ملک میں قانون توڑنا اور ملکی قوانین کو پاوں تلے روندنا قوانین پر عملدرآمد سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ بالخصوص جب کوئی بپھرا ہوا گروہ ہو تو وہاں ایسی صورتحال اور بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ ملک میں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی ایسے افسوسناک واقعات رونما ہو چکے ہیں اور آئندہ کے لیے ہمیں ایسے واقعات کا راستہ روکنا ہے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ ناصرف دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ اندرونی طور پر بدامنی کے خدشات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ ملک میں امن و امان کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اس واقعے کے ذمہ داروں کی مرمت بھی ہونی چاہیے اور جس وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے اس کی بھی مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات کی ضرورت ہے۔ تاکہ کوئی بھی ذمہ دار کسی بھی حوالے سے قانون کے شکنجے سے بچ نہ سکے۔ اس موقع پر ہمیں ایسے واقعات کی راہ روکنے کے لیے کوئی تدبیر بھی اختیار کرنی ہے، ماضی میں 2004 میں جب وزارت مذہبی امور کا چارج میرے پاس تھا، ان دنوں بھی دو واقعات ہوئے تھے ایک شانتی نگر میں دوسرا سانگلہ ہل میں، جہاں گرجا گھر اور سکول جلا دیا گیا تھا، اس وقعہ کی تحقیقات ہوئی تھی تو پتہ چلا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا تھا، ایک واقعہ میں تو مسیحی اور مسلمان نوجوانوں کا تش کھیلتے ہوئے جھگڑا ہوا جس نے افسوس ناک واقعہ کی شکل اختیار کرلی، اس وقت میری تجویز پر ایسا ہوا کہ ہر ضلع کی بنیاد پر کمیٹی بنائی گئی، جس میں اقلیتی نمائندوں کے علاوہ تاجروں اور علماء کرام کو بھی شامل کیا گیا‘ اس کمیٹی کے ذمہ یہ کام تھا کہ ہر ماہ سی پی او اور ڈی پی او کے ساتھ میٹنگ کرے گی اور ضلع بھر میں ایسے کسی بھی واقعہ کی روک تھام کے لیے کام کرے گی، یہ کمیٹیاں اب بحال اور فعال بنادینے کی ضرورت ہے، اسلام اور ہمارا بھی ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کرنے کی تلقین کرتا ہے اس کے لیے ہمارے سامنے628 عیسوی کا ایک معاہدہ ہے، یہ معاہدہ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہے اس سے ہمیں مکمل راہنمائی ملتی ہے، تاریخی طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ یمن کے عیسائیوں کی جانب آنے والے ایک وفد کے موقع پر لکھا گیا تھا معاہدے میں لکھا یہ پیغام محمدؐ بن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے لیے ہے، یہ ہمارے شہری ہیں، ان کے لیے میری طرف سے امان ہے، خواہ دور ہوں یا نذدیک، ان کے گرجا گھروں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، ان کے منصفیں کو منصب سے نہیں ہٹایا جائے گا، ان کی خواتین سے ان کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کی جائے گی اس خاتون کو عبادت کے لیے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا، یہ معاہدہ تاقیامت رہے گا‘ جب ہمارے پیارے نبیؐ نے خود اس طرح کا معاہدہ کیا ہوا ہے تو ہمیں خود اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ہمارے عمل سے کسی بھی اقلیتی برادری کو نقصان نہ پہنچے، فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں گزشتہ دنوں مشتعل مظاہرین کی جانب سے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسیحی برادری پر حملوں، جلاؤ گھیراؤ، چار گرجا گھروں، درجنوں مکانات، گاڑیوں اور دوسری املاک کو نذر آتش کرنے کے انتہائی افسوسناک واقعات کسی بھی مذہب کے پیروکاروں، بالخصوص مسلمانوں کے لئے سراسر ناقابل قبول ہیں۔ واقعات میں ملوث سو سے زائد افراد گرفتار کرلئے گئے ہیں، جن سے سائنٹیفک طریقے سے تفتیش جاری ہے،  جبکہ 6 سو کے خلاف مقدمات درج ہوچکے ہیں، واقعہ پا پس منظر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ دو مسیحی نوجوانوں نے قابل اعتراض پمفلٹ لکھے، جو توہین مذہب کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن پاک کے چند اوراق کی بے حرمتی بھی کی۔ اس واقعہ کارات پتہ چلنے پر لوگوں میں اشتعال پھیل گیا اور شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ مشتعل افراد نے عیسائی برادری کی املاک کے علاوہ سرکاری عمارات پر بھی حملے کئے اور توڑ پھوڑ کی، پولیس مبینہ طور پر تماشائی بنی رہی اور کوئی کارروائی نہیں کی، جس سے 9 مئی کے لرزہ خیز واقعات کی یاد تازہ ہوگئی۔ صورتحال پر قابو پانے کے لئے رینجرز طلب کرنا پڑی۔ پورے ضلع میں دفعہ 144 کا نفاذ کردیا گیا ہے پنجاب کی نگران حکومت نے د ل گداز واقعات کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ترجمان پنجاب حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان کے اندر امن کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔ قرآن پاک کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا جس کی تحقیقات جاری ہیں۔ ملزمان کی گرفتاری کا حکم دے دیا گیا ہے، یہ بات باعث اطمینان ہے کہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کی ہے کہ مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں۔ نگران وزیراعظم نے جڑانوالہ میں توہین قرآن کے الزام میں مسیحی برادری کے گھروں اور گرجا گھروں پر حملوں اور املاک نذرِ آتش کیے جانے کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دے دیا ہے سوشل میڈیا پر جاری کیے گئے بیان میں کہا کہ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے مناظر نے اُنہیں دہلا کر رکھ دیا ہے، اقلیتوں کو نشانہ بنانے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا۔اْنہوں نے تمام پاکستانیوں کو یقین دلاتے ہوئے کہا کہ حکومت برابری کی بنیاد پر اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑی ہے پولیس ترجمان کے مطابق اہل ِ علاقہ نے ایک مسیحی نوجوان پر توہین مذہب کا الزام لگایا جس کے بعد مساجد سے اعلانات کرائے گئے اور اہل ِ علاقہ کی بڑی تعداد جمع ہو گئی۔جان بچانے کے لیے مسیحی شہری گھر خالی کر کے اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ مظاہرین نے مسیحی برادری کے گھروں اور گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی جڑانوالہ میں مکروہ عمل سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا، عوامی جذبات کو ابھار کر فساد پھیلا گیا، واقعے کی تحقیقات کی جاری ہیں، اَمن و امان خراب کرنے والے اور قانون کو ہاتھ میں لینے والے ہر شخص کو گرفتار کیا جائے گا، واقعات کی مختلف ویڈیوز کی مدد سے فسادات میں ملوث مزید ملزمان کو شناخت کر کے گرفتارکیا جا رہا ہے۔ پولیس نے واقعات میں 37 افراد کو نامزد کر کے جبکہ 600 سے زائد نامعلوم ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی اور توہین مذہب سمیت 13 سے زائد دفعات لگا کر مختلف مقدمات درج کر لیے ہیں اسلامی نظریاتی کونسل نے سانحہ جڑانوالہ میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ملک کے ہر طبقہ ہائے فکر نے سانحہ جڑانوالہ کی نہ صرف سخت الفاظ میں مذمت کی ہے بلکہ سب ہی کا موقف ہے کہ ایسے واقعات کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں، سب ہی نے اِس واقعے میں ملوث ہر شخص کو سخت سے سخت سزا دیے جانے کا مطالبہ بھی کیا ہے یہ سوچی سمجھی سازش تھی اِسے نہ صرف بے نقاب کیا جانا چاہئے بلکہ اِس کے کرداروں کو مثالی سزائیں ملنی چاہئیں مساجد اور عبادت گاہیں اَمن کا گہوارہ ہوتے ہیں، بجائے اِس کے کہ اِن مقدس جگہوں سے لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کیا جائے، اُلٹا اْنہیں بڑھاوا دیا جاتا ہے، پُرتشدد واقعات پر اُکسایا جاتا ہے۔ ایسے عناصر کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جانی چاہئے کہ یہ بھی اِس سانحے کے کرداروں کے گناہ میں برابر کے شریک ہیں، اپنے بیان میں انہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی اور تمام شہریوں کو مساوی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں, علماء کرام اور سماجی، ادبی شخصیات اور پاکستان مسلم لیگ(ضیاء الحق شہید) نے مشتعل افراد کے ان حملوں کی شدید مذمت کی ہے، شہید صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ملک میں اقلیتوں کے ساتھ جو بہترین سلوک کیا گیا اسی وجہ آج ملک میں بسنے والے ہندو، سکھ اور مسیحی برادری بھی انہیں یاد کرتی ہے، شہید صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ہی اقلیتوں کے لیے آسانی پیدا کی گئی کہ وہ جدا گانہ انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندوں کا پارلیمنٹ کے لیے انتخاب خود اپنے ووٹ سے کریں، ہمارا موقف ہے کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے نہ ملکی قانون اور آئین، ہمارا مطالبہ ہے کہ گرجا گھروں اور املاک کی بحالی کے لئے اقدامات کیے جائیں کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ غیرمسلموں کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ کسی شخص یا ہجوم کو خود جج اور جلاد نہیں بن جانا چاہیے۔ کسی نے توہین مذہب کے ارتکاب کی ناپاک جسارت کی تو اسے قانون کے حوالے کرنا چاہیے تھا۔ مختلف مذاہب، ان کی مقدس کتب، شخصیات اور شعائر کا احترام سب پر واجب ہے۔ مسلمان دوسرے الہامی ادیان کی کتب، پیغمبروں اور ان کے احکامات پر بھی ایمان رکھتے ہیں اس لئے ان کے بارے میں خلاف ادب کوئی بات کرنا بھی گناہ سمجھتے ہیں لیکن کوئی دوسرا ان کے نبیؐ جو اللہ کے آخری نبی ہیں کی شان اقدس میں گستاخی کرے یا قرآن پاک اور اسلامی شعائر کی توہین کا مرتکب ہو اسے برداشت نہیں کرسکتے۔ سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے حالیہ دلخراش واقعات اور مجرموں کے خلاف متعلقہ حکومتوں کا کوئی کارروائی نہ کرنا پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ناقابل برداشت ہے حرمت قرآن ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اس کے منافی کسی بھی اقدام پر مسلمانوں کا مشتعل ہونا قابل فہم ہے۔ لیکن ہمارے دین نے جو حدود وقیود متعین کی ہیں ان کی پابندی بھی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اسلام، پاکستان کا آئین اور قانون اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے۔ اگر کوئی بدبخت قرآن پاک کی بے حرمتی کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے قانون کے حوالے کرنا چاہیے نہ کہ اس کے اقلیتی فرقے پر حملہ کردیا جائے۔ جڑانوالہ میں جو کچھ ہوا مکمل تحقیقات کے بعد اس کے ذمہ داروں اور کلام پاک کی بے حرمتی کے ملزموں کو جرم ثابت ہونے پر سخت سزا دینی چاہیے, اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے مجرموں کو کٹہرے میں لایا جائے مسیحی برادری نے پاکستان کی سلامتی اور دفاع کیلئے خون دیا ہے۔ ہم اپنی پاک فضائیہ کے بہادر ہوا بازسیسل چوہدری کو کیسے بھول سکتے ہیں بلاشبہ اس واقعہ کو قوم لرز کر رہ گئی ہے یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ مغربی دنیا میں پھیلے اسلامو فوبیا اور توہین مذہب و قرآن جیسے دیدہ دلیرانہ واقعات کے ذریعے مسلمانوں کے جذبات مجروح اور انہیں مشتعل کرنے کی الحادی قوتوں کی گھناؤنی منصوبہ بندی کو جڑانوالہ میں بھی عملی جامہ پہنانے کی سازش کی گئی پولیس نے توہین قرآن و رسالتؐ میں ملوث افراد کو بھی حراست میں لے لیا ہے ان سے ٹھوس بنیادوں پر تفتیش کے ذریعہ ہی معلوم ہو سکے گا کہ انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے والی الحادی قوتوں کے آلہ کار کیوں بنے ہیں۔ بے شک حرمت قرآن او رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے جس کیلئے وہ اپنی جانیں نچھاور کرنا بھی سعادت سمجھتے ہیں۔ شعائر اسلامی کے تقدس و تحفظ کیلئے مسلمانوں کے اس بے پایاں جذبے کو اسلام دشمن قوتوں امن و آشتی کے ضامن دین اسلام پر انتہاء پسندی کے لیبل لگانے میں مصروف ہیں غالب امکان یہی ہے کہ جڑانوالہ کا واقعہ بھی اسلام دشمن عناصر کی انہی گھناؤنی سازشوں کے سلسلہ کی کڑی ہے جس کا مقصد پورے ملک میں اقلیتوں کیخلاف مسلمانوں کو اشتعال دلا کر ملک کا امن برباد کرنے کا ہو سکتا ہے جس کیلئے ہمارے متعلقہ سکیورٹی اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ہمہ وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ جڑانوالہ کے واقعہ میں ہماری بے گناہ اقلیتی برادری کو جو نقصانات اٹھانا پڑے، اس کا فوری ازالہ بھی ضروری ہے اور انکے تحفظ کیلئے بھی ضروری اقدامات فوری طور پر اٹھائے جانے چاہئیں کیونکہ پاکستان کی سلامتی کے درپے عناصر کو ایسے واقعات کے باعث ہی ملک میں اقلیتوں کے غیرمحفوظ ہونے کا زہریلا پراپیگنڈا کرنے کا موقع ملتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.