مزہبی ہم آہنگی اور کینیڈا

42

کینیڈا کے گریٹر ٹورنٹو کے ایک شہر مارکھم میں میرے عزیز دوست فاروق ارشد چودھری نے میرے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا،اس موقع پر پاکستان کے شہر جڑانوالہ میں چرچ اور نہتے لوگوں پر حملہ زیر بحث آیا تو ہر کوئی شرمندہ شرمندہ تھا، چودھری منیر نے دکھی لہجے میں پوچھا بھائی محسن پاکستان میں اقلیتوں پر کب تک ظلم ہوتا رہے گا؟اس واقعہ میں ملوث لوگوں کو سخت سزا ملنی چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو ایسی حرکت کی جرأت نہ ہو، عابد صاحب اور ان کی اہلیہ کئی دہائیوں سے کینیڈا کے شہری ہیں وہ پاکستان شفٹ ہونا چاہتے ہیں مگر اس واقعہ نے انہیں خوفزدہ کر دیا ہے،میں نے انہیں بتایا کہ حکومت نے واقعہ کے ذمہ داروں پر سخت ہاتھ ڈالا ہے اور اب تک ایک سو پچاس سے زائد ملزمان گرفتار کر لئے گئے ہیں،ایک اچھی، محنتی اور کام کرنے والی کمشنر سلوت سعید فیصل آباد کی کمشنر ہیں،امید ہے وہ انصاف کی مکمل فراہمی تک چین سے نہیں بیٹھیں گی۔
جڑانوالہ واقعہ کے ذکر سے ہر کوئی دکھی لگ رہا تھا، وہاں موجود تمام پاکستانی کینیڈئینز، پاکستانی معاشرے کی حالت پر بھی رنجیدہ تھے، ارشد چودھری بتانے لگا کہ کینیڈا کے اکثر شہروں میں ایک طرف چرچ اور دوسری طرف مسجد جبکہ تھوڑی دوری پر سکھوں کی عبادت گاہ گرودوارہ بھی موجود ہوتا ہے، ہندو ؤں کے مندر بھی یہاں موجود ہیں، سکھ کمیونٹی کا تو ایک پورا شہر ہی یہاں آباد ہو چکا ہے جسے بریمٹن کہا جاتا ہے۔ میں نے سوچا سماجی حسن کیا ہوتا ہے؟ یہ مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارہ ہوتاہے اور یہ سب کچھ ہمیں اسلام اور ہمارے پیارے نبی نے سکھایا ہے مگر افسوس آج کل یہ سب کچھ ہی ہمارے معاشرے سے غائب ہے یا کم کم ہے، میں ان دنوں جس معاشرے میں ہوں یہاں یہ سب کچھ پایا جاتا ہے، یہ کینیڈین معاشرہ ہے۔ یہاں اچھی یونیورسٹیاں ہیں علم کے نورسے جیسے جیسے دنیا کا طول و عرض روشن ہو رہا ہے رجعت پسندی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہورہا ہے،مادی ترقی کیساتھ سوچ اور فکر بھی ترقی پذیر ہے۔ ہرقسم کی عصبیت سے انسانی آبادی کی اکثریت بیزار ہے مگر اس کی باوجود مذہبی عصبیت کا الاؤ دنیا کے ہر ملک میں دہک رہا ہے اگر چہ دیگر تعصبات کی آگ بھی پوری طر ح بجھ نہیں پائی، تاہم اسکی شدت میں کسی حد تک کمی آچکی ہے۔نفرت کی آگ میں جلتے کرہ ارضی پر ایک خطہ مگر ایسا ہے جہاں ہردین، مذہب، مسلک کے پیروکار آباد ہیں لیکن عصبیت نام کو نہیں، جی ہاں یہ کینیڈا ہے۔ اس ارضی جنت میں سب سے بڑا مذہب مسیحیت ہے، اگر چہ اس مذہب کے پیروکار بھی فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہیں، مگر سب مل جل کر رہتے ہیں، رومن کیتھولک 38.7فیصدی آبادی کیساتھ سب سے بڑا مذہب ہے مگر عیسائیت کے پیروکاروں کی تعداد 67.3فیصد ہے، ان میں پروٹسٹنٹ، آرتھو ڈکس،میتھوڈسٹ اورانجلیکنز بھی شامل ہیں۔اسلام یہاں کا دوسرا بڑا مذہب ہے،مسلمان 3.2فیصدی کیساتھ یہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہیں،سکھ برادری 1.5فیصدی آبادی کے ساتھ دوسری بڑی اقلیت ہے، ہندو، بدھ مت، جین مت اور یہودی بھی کینیڈین معاشرے کا جزولاینفک ہیں، مگر سب بھائی چارے سے رہتے اور مل کر محنت مشقت کرتے ہیں۔ 18ویں صدی سے قبل جب فرانس اور برطانیہ سے نقل مکانی شروع نہیں ہوئی تھی کینیڈا میں اکثریت روحانیت پر یقین رکھتی تھی۔ بہت بڑی تعداد میں حضرت ابراہیم کے پیروکار بھی آباد تھے اگر چہ تعلیمات ابراہیمی خواب و خیال ہو چکی تھیں مگر خدا پرلوگوں کا یقین تھا۔ فرانس نے یہاں سب سے پہلے رومن کیتھولک چرچ قائم کیا، برطانیہ نے چرچ آف انگلینڈ کے تحت پروٹسٹنٹ کی بنیاد رکھی، سوویت یونین سے آرتھوڈکس کے پیروکاروں کی بڑی تعداد بھی انہی دنوں کنیڈا منتقل ہوئی، میتھوڈست بھی آہستہ آہستہ نقل مکانی کر کے کینیڈا کی سکونت اختیار کرنے لگے، جس کے بعد مسیحیت اس ملک کا سب سے بڑا مذہب بن گیا۔ دنیا بھر سے مسلما ن بھی اچھے مستقبل کی تلاش میں یہاں منتقل ہوئے، گولڈن ٹمپل پر بھارت کی فوج کشی کے بعد کینیڈین حکومت نے خالصہ برادر ی کیلئے اپنے ملک کے دروازے کھول دئیے، جس کے بعد قابل ذکر تعداد میں سکھ بھی نقل مکانی کر کے یہاں شفٹ ہو گئے، آج یہ سب کینیڈین ہیں،اپنے اور اپنے خاندان کیلئے معاش کمانے کیساتھ کینیڈا کی ترقی خوشحالی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، اسی طرح افغانستا ن میں روسی جارحیت کے بعد افغانوں نے جہاں پاکستان میں نقل مکانی کی وہاں انکی بڑی تعداد کینیڈا میں بھی پہنچ گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کینیڈا کا کوئی سرکاری مذہب نہیں، لامذہب لوگوں کی بھی بڑی تعداد یہاں رہائش پذیر ہے، مگر کسی مذہب کو سرکاری قرار نہ دینے کی وجہ لا مذہب لوگ نہیں بلکہ کینیڈا کی حکومت اور شہریوں کا اعتقاد ہے کہ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے اور ہر شہری کو اس حوالے سے آزادی حاصل ہے، جو مرضی مذہب اختیار کرے اور جس طرح چاہے اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کرے کسی کو دوسرے پر اعتراض نہیں،اسی بناء پر کینیڈا میں مذہبی رواداری عروج پر ہے، آج تک مذہب کے حوالے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ کینیڈین تاریخ کا حصہ نہیں،صرف ایک چھوٹے سے معاملے نے اس وقت سر اٹھایا جب حکومت کی طرف سے سرکاری ملازمت، فوج اور پولیس میں بھرتی کیلئے سکھ برادری سے وابستہ لوگوں کے پگڑی پہننے پر پابندی کی تجویز آئی، مگر سکھ کمیونٹی کے معمولی احتجاج پر اس فیصلہ پر مزید پیش رفت روک دی گئی، اور مسلۂ خوش اسلوبی سے فساد سے قبل ہی حل کر لیا گیا۔
معاشرے اور سماج کو پر امن بنانے کیلئے اور شہری حقوق کے تحفظ کیلئے اسلام نے جو تعلیمات اپنے پیروکاروں کو دیں ان کا اطلاق آج کسی اسلا می ملک میں دکھائی نہیں دیتا مگر کینیڈا وہ ملک ہے جہاں اسلامی تعلیمات کے مطابق شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کینیڈین معاشرہ میں عدل وانصاف، تعلیم و صحت کی سہولیات، رواداری عام ہے، جس نے معاشرہ کو نہ صرف پر امن بنانے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ اسے خوشگوار بنادیا۔ خالق کائنات کو معلوم تھا کسی زمانہ میں کینیڈا کی دھرتی اپنے شہریوں کیلئے امن، انصاف کو یقینی بنائے گی جس کے تحت قدرت نے اس سر زمین کو ہر قسم کے وسائل سے مالا مال کردیا، قدرتی حسن جا بجا بکھیر دیا، زیر زمین معدنیات،گیس اور پٹرولیم کے ذخائر رکھ دئیے، پہاڑوں کو صاف شفاف پانی کی فراہمی کا ذریعہ بنا دیا اور مختلف رنگ نسل،مذہب، ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد کو ایک گلدستہ کی شکل دیدی،جس کا ہر پھول اور پتی نہ صر ف مہک رہی ہے بلکہ اپنی خوشبو سے ماحول کو بھی خوشگوار بنا رہی ہے۔
شخصی اور مذہبی آزادیوں نے کینیڈین معاشرے کو لازوال اور بے مثال بنا دیا ہے، دنیا کے باقی ممالک اور ریاستوں کو اس معاشرہ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے ممالک میں بھی رواداری کو فروغ دینا چاہیے اور اپنے شہریوں اور ہمسایہ ممالک کو جینے کا حق دینے کیلئے اقدامات بروئے کار لانے ہوں گے۔ آخری بات یہ کہ پاکستان اور خاص طور پر اسلامی ممالک کو اپنے شہریوں کو حقوق اور مراعات دینے کے لئے کینیڈا کی تقلید کرنا ہو گی،ہمیں اگر دنیا کو جنت بنانا ہے تو ضروری ہے کینیڈین طرز کا معاشر ہ تشکیل دیں تاکہ جڑانوالہ جیسے واقعات دوبارہ نہ ہو سکیں۔

تبصرے بند ہیں.