غیر آئینی و غیر قانونی حکمرانی کا دور دورہ

26

اگست 2018 میں قائم کی جانے والی اسمبلی اپنی مدت پوری کر چکی۔ اسے اپنی طبعی عمر پوری کرنے سے چند روز پہلے تحلیل کرنے کا حکم جاری کیا گیا تا کہ نگران حکومت کو 60 دن کے بجائے 90 دن مل جائیں۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اتحادی حکومت نے جاتے جاتے جو آخری آئین شکنی کی اس  نے نگرانوں کی مدت حکومت میں 30 دنوں کا اضافہ کر دیا۔ آئین میں قبل از وقت اسمبلی تحلیل کرنے کی آپشن موجود ہے لیکن اس کا استعمال اضطراری حالت میں ہی کیا جا سکتا ہے اس کا استعمال نادر شاہی انداز میں نہیں کیا جا سکتا ہے قاسم کے ابوجی نے پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں اسی آئینی آپشن کا ”نادر شاہی“ استعمال کرتے ہوئے تحلیل کی تھیں ایسا کرنا صریحاً غلط تھا بادی النظر میں غیر آئینی و غیر قانونی تھا۔ ابوجی نے ایک غیر آئینی کام کیا اس کے بعد سے آج تک دونوں صوبائی اسمبلیوں میں قائم نگران مدت ہوئی غیر آئینی ہو چکے ہیں انکی آئینی و قانونی حیثیت پر مستقلاً سوالیہ نشانات لگ رہے ہیں وہ اپنی 9 ماہی مدت بھی گزار چکی ہیں اور ان کی اگلی مدت کا بھی کچھ پتہ نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا حکم شاہی بھی کہیں ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے۔ کسی نابغہ روزگار قانون و آئین دان کو بھی پتہ نہیں کہ یہ نگران حکومتیں کس آئین وقانون کے تحت بر سر اقتدار ہیں۔
الیکشن کمیشن  نے الیکشن کا شیڈول جاری کرنے کے بجائے نئی حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کر کے واضح کر دیا ہے کہ عام انتخابات طے شدہ 90 دنوں کے اندر ہونے نہیں جا رہے ہیں حلقہ بندیوں کا آغاز 17 اگست سے ہو گا۔ 10 اکتوبر سے 8 نومبر تک ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات چیف الیکشن کمشنر کے سامنے پیش کئے جائیں گے جبکہ حتمی فہرست 14 دسمبر کو جاری کی جائے گی۔ گویا نومبر تک انتخابات کرانے کی آئینی پابندی ہوا میں اڑا دینے کا اعلان نادر شاہی جاری کر دیا گیا ہے 90 دن کی آئینی حد کراس کرنے کے بعد کیا ہو گا۔ سردست کچھ پتہ نہیں ہے۔
الیکشن کمشنرز نے حلقہ بندیوں کے لئے مردم شماری کی جس منظور شدہ لسٹ کا سہارا لیا ہے اسے سی سی آئی نے منظور کیا ہے اس کونسل کی آئینی وقانونی حیثیت بھی چیلنج کی جا چکی ہے اس کونسل میں چاروں صوبوں کی منتخب کردہ قیاد ت کے ساتھ دیگر سٹیک ہولڈر بیٹھتے ہیں اجتماعی امور پر غور و فکر کرکے ان کی منظوری دیتے ہیں اس کونسل میں صوبہ پنجاب اور سرحد کے عوام کی نمائندگی ہی نہیں تھی۔ کیونکہ یہاں نگران حکومتیں قائم ہیں جو کسی طور بھی عوام کی نمائندہ نہیں ہیں انہیں تو ایک آئینی ضرورت کے تحت نامزد کیا گیا تھا لیکن وہ بھی غیر آئینی ہو چکی ہیں گویا پاکستان کی 70 فی صد آبادی کی نمائندگی نہیں تھی اس لئے سی سی آئی کی آئینی وقانونی حیثیت بھی صفر تھی اس لئے اس نے جو کچھ کیا اس کی آئینی وقانونی حیثیت ہی مشکوک ہے۔ اس کی منظور کردہ لسٹ کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کے فیصلے کے ذریعے انتخابات کو 90 روز سے آگے لے جانا کسی طور بھی آئینی فیصلہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
غیر آئینی اقدامات کے نتیجے میں پنجاب و سر حد میں قائم نگران حکومتیں، آئینی مدت پوری کر کے قطعاً غیر قانونی ہو چکی ہیں جبکہ مرکز میں قائم کی جانے والی 90 روزہ حکومت الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے بعد یقینا 90 روز کے بعد غیر قانونی قرار پائے گی۔ عام انتخابات ہونے کی کوئی بھی سبیل ابھی تک قوم کے سامنے نہیں لائی گئی ہے ہر شے شکوک و شبہات کی دبیز تہہ میں لپٹی اور سکڑی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ قومی معیشت کی بدحالی اپنی جگہ، اس کی بحالی کی کوئی بھی صورت ابھی تک نظر نہیں میں آ رہی ہے۔
10 اپریل 2022 جب عمران خان کی حکومت کو ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں چلتا کیا گیا تو اس وقت انکی حکومت عوامی پذیرائی کے حوالے سے پست ترین سطح پر تھی۔ انہوں نے جس بدانتظامی و بد اطواری کے ریکارڈ قائم کر رکھے تھے اسے دیکھتے ہوئے ان کے پارلیمنٹرین عوام میں جانے سے کترانے لگے تھے عام تاثر یہی تھا کہ عمران خان آئندہ الیکشن میں جیت نہیں سکیں گے عمران خان نے نہ صرف معیشت کا دھڑن تختہ کر دیا تھا بلکہ سیاست میں بھی گندگی پھیلا رکھی تھی گالم گلوچ اور کرپشن و بدانتظامی سے لتھڑی سیاست نے پاکستان کے امیج کو بھی تار تار کر دیا تھا دوست ممالک ناراض تھے سعودی عرب ہو یا یو اے ای، ایران، ترکی اور چین سب پاکستان سے فاصلے بڑھا چکے تھے خزانہ مکمل طور پر خالی تھا۔ عالمی برادری ایک بھی ڈالر دینے کے لئے تیار نہیں تھی آئی ایم ایف نے اگلی پچھلی قسطیں دینے سے معذرت کر رکھی تھی۔ ایسے ماحول میں پی ڈی ایم کا چودہ رکنی اتحاد اور پیپلز پارٹی نے مل کر شہباز شریف کی سربراہی میں حکومت تشکیل دی تو ایسے لگا اب ہماری قسمت بدلے گی۔ عام انتخابات کے ذریعے، فریش مینڈیٹ لے کر آنے والی حکومت بنیادی فیصلے کر کے قومی معیشت کو ٹریک پر چڑھائے گی۔ ایک نئے دور کا آغاز ہو گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ پھر 9 مئی کا سانحہ ہوا اور ہماری قومی تاریخ، سیاست سمیت ایک نیا موڑ مڑ گئی۔ اب سیاست وہ نہیں رہی جو 10 اپریل 2022 کے وقت تھی۔ عمران خان اور ان کی جماعت، ایک سیاسی رہنما اور اس کی پارٹی کے طور پر، قومی سیاست میں سٹیک ہولڈر نہیں ہوں گے۔ عمران خان نے جتھے کی سیاست کر کے اپنے آپ کو قومی دھارے سے الگ کر لیا ہے، آئینی وقانونی موشگافیوں نے حالات و معاملات دگرگوں کر دیئے ہیں۔
جڑانوالہ سانحہ جلتی پر تیل کے مترادف ہے یہ عام واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش اور پاکستان کی تار تار سیاست، معیشت اور قومی وحدت کے لئے انتہائی خطرناک وقوعہ ہے جس کے زہریلے اثرات کو نیوٹرلائز کرنے کے لئے اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے صرف روایتی بیان بازیوں اور سرکاری درباری قسم کے مذہبی نمائندگان کو ساتھ بٹھا کر پریس کانفرنسیں کرنے سے معاملات حل کرنے کی روایتی پالیسی چلتی ہوئی نظرنہیں آتی ہے اس سانحے کو عمیق نظری اور فکری انداز میں ہی نہیں بلکہ ریاستی اہمیت کا معاملہ سمجھ کر طے کرنے کی ضرورت ہے عیسائی ہمارے برادر شہری ہی نہیں ہیں بلکہ بطور اقلیت بھی انہیں ہماری سرپرستی حاصل ہونی چاہئے۔ ان کی جان ومال اور گرجا گھروں کی حفاظت ہماری سرکاری و آئینی ذمہ داری ہی نہیں ہے بلکہ ہمارا مذہبی فریضہ بھی ہے۔ باقی رہی عوامی معیشت تو اس کے بارے میں کچھ کہنا سننا ہی بے کار ہے کیونکہ وہ تو مکمل طور پر تباہ و برباد ہوچکی ہے اور اس کی تباہی و بربادی کا یہ عمل ہنوز جاری ہے 16 ماہی شہباز شریف اتحادی حکومت نے اس کے ساتھ جو کچھ کیا وہ بھی تاریخی ہے اور جس طرح نگران حکومت اس کے ساتھ سلوک کرنے جا رہی ہے وہ بھی تاریخی ہو گا۔ جس طرح عمران خان کی نالائقیاں و نا اہلیاں 10 اپریل 2022 کے وقت عیاں تھیں وہ آج 16 ماہی حکومت کی کارکردگی کے باعث قصہ پارینہ ہو چکی ہیں عوام 16 ماہی حکومت کو کوسنے دیتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ نگران حکومت کی واہی تباہی کے باعث عوام 16 ماہی حکومت کی کارکردگی بھول چکے ہوں گے۔ ویسے عوام خود ہی کہیں کے نہیں رہیں گے اس لئے وہ کسی کو بھی یاد نہیں رکھ سکیں گے۔ باقی اللہ خیر کرے گا۔

تبصرے بند ہیں.