مرزا ابراہیم، بڑے قد کا مزدور رہنما!

21

بر صغیر کی تقسیم سے قبل مزدور تحریک کے بانی مرزا محمد ابراہیم کی 11 اگست 2023 کو 24 ویں برسی ہوگی۔ وہ 11 اگست 1999ء کو اپنے آبائی گاؤں کالا گجراں جہلم میں 94 برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ آج جب پاکستان ریلوے سمیت کئی قومی، عوامی اہم ادارے تباہی کی زد میں ہیں۔ پی آئی اے، سٹیل ملز، واپڈا اور ریلوے سمیت دیگر اداروں میں کرپشن، لوٹ مار، توڑ پھوڑ اور تنزلی جاری ہے۔ اگرچہ ملک میں ایک جمہوری حکومت موجود ہے مگر عوام بھوک، غربت، جہالت، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے خود کشیاں، جسم فروشی اور بچوں کو قتل کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کو قائم ہوئے 76 برس ہو گئے ہیں مگر عوام بھوک، ننگ، بیماری، جہالت اور بے روزگاری سے آزادی حاصل نہ کر سکے۔ IMF، WTO، FATF کے بدستور غلام ہیں۔ خودکش حملے، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری روز کا معمول ہیں۔ مرزا محمد ابراہیم 1905میں جہلم میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد مرزا عبداللہ بیگ بے زمین کسان تھے۔ اُن کے ایک بھائی مرزا اللہ دتہ چغتائی پشاور سے ایک اخبار روشنی نکالتے تھے۔ اس ملک کے دوسرے غریب انسانوں کی طرح مرزا ابراہیم کے والدین کی خواہش کے باوجود وہ ابتدائی تعلیم سے آگے نہ بڑھ سکے۔ نوجوانی میں قدم رکھتے ہی 1920-1921 میں تحریک خلافت میں حصہ لینا شروع کیا۔ جس کے صدر سیٹھ چھوٹانی اور جنرل سیکرٹری حاجی صدیق تھے۔ شروع میں کانگریس اور تحریک خلافت میں رول ایکٹ کے خلاف اتفاق تھا۔ مرزا ابراہیم نے اپنی ملازمت کا آغاز بطور مالی کیا۔ بعد میں بھٹہ مزدور کے حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ وہ 1925ء میں برج ورکشاپ جہلم میں بطور معاون بھرتی ہوئے۔ 1920ء میں محکمہ ریلوے میں یونین بن چکی تھی۔ 1930میں اُن کا تبادلہ جہلم سے مغلپورہ ورکشاپ لاہور میں ہوگیا۔ جہاں انہوں نے 1931 میں یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس وقت ریلوے میں NWR (نارتھ ویسٹرن) یونین مضبوط تھی جس کے صدر ایک انگریز JP MIller تھے۔ جبکہ جنرل سیکرٹری ایم اے خان تھے۔ یوں مرزا ابراہیم مغلپورہ ورکشاپ یونین کے صدر مقرر ہوگئے۔ 1917ء کے روسی انقلاب کا اثر ہندوستان کے محنت کشوں پر بھی ہوا۔ 1935ء میں کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد پڑی جس کے پہلے جنرل سیکرٹری پورن چند جوشی تھے۔ اس دوران مرزا ابراہیم کا رابطہ کمیونسٹ پارٹی سے ہوا اور وہ 1935 میں ہی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے لیبر ونگ کے انچارج مقرر ہوئے۔ انہی دنوں ریلوے میں فیڈریشن کی بنیاد پڑی۔ جس کے مرکز سینئر نائب صدر مرزا ابراہیم مقرر ہوئے۔ جبکہ صدر وی وی گری منتخب ہوئے۔ جو 1969ء سے 1974ء تک بھارت کے صدر بھی رہے۔ اس یونین کے جنرل سیکرٹری ایس اے ڈانگے تھے۔ تقسیم سے ایک سال قبل یکم مئی 1946 کو ہندوستان بھر کے ریلوے کے مزدوروں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور چھانٹیوں کے خلاف بھرپور ہڑتال کردی۔ جس کی قیادت مرزا محمد ابراہیم کر رہے تھے۔ بر صغیر کی تقسیم کے فوری بعد مرزا محمد ابراہیم کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔ آزاد پاکستان میں یہ اُن کی پہلی گرفتاری تھی۔ بعد میں وہ سترہ مرتبہ جیل گئے۔ چھ مرتبہ لاہور کے شاہی قلعہ میں قید رہے۔ پاکستان میں جب 1951ء میں جیل میں تھے تو حکومت نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کا اعلان کردیا۔ مرزا ابراہیم کو جیل سے کمیونسٹ پارٹی نے پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی طرف سے امیدوار نامزد کر دیا۔ اُن کے مقابلے میں بر سر اقتدار مسلم لیگ کے امیدوار احمد سعید کرمانی تھے۔ مرزا ابراہیم یہ الیکشن جیت گئے۔ مگر بعد میں اُس وقت کا آر ٹی ایس بیٹھ گیا۔ مرزا ابراہیم کی جیت کا اعلان بھی ہوگیا۔ مگر بعد میں دھاندلی کر کے اُن کے 2500 ووٹ کینسل کر کے سرکاری امیدوار کو جیتا ہوا قرار دیا گیا۔ پاکستان میں سب سے پہلے قائم ہونے والی پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی تو اُس کے پہلے صدر مرزا محمد ابراہیم مقرر ہوئے جبکہ نائب صدر فیض احمد فیض، آفس سیکرٹری ایرک اسپرین، جوائنٹ سیکرٹری فضل الٰہی قربان اور سندھ کے صدر سوبھو گیان چندانی مقرر ہوئے۔ مرزا ابراہیم ایک تاریخی شخصیت تھے، انہوں نے ہمیشہ رنگ، نسل، مذہب، زبان اور علاقے سے بالا تر ہو کر وطن اور دنیا بھر کے مزدوروں کا سربلند رکھا۔ مزدوروں کے لیے یہ بات بڑی اہم ہے کہ اُن کے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک محنت کش نے عالمی شہرت حاصل کی۔ وہ مزدوروں کے بڑے لیڈر بنے جن کے سامنا کرتے ہوئے فوجی اور اُن کی حامی حکومتیں گھبراتی تھیں۔ انہوں نے اپنے عمل اور کردار سے ملک کے تمام طبقوں کو متاثر کیا۔ اُن کی جدو جہد ہی تھی کہ آج مزدوروں کے نام لیوا موجود ہیں۔

تبصرے بند ہیں.