ریکوڈک ناکامی کے اسباب

54

وزیر اعظم شہباز شریف کا بیان کہ ریکوڈک کیس میں اربوں جھونک دئیے مگر عوام کو کوئی فائدہ نہ پہنچا اس خبر پہ مزید کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے میں قا رئین کو اس کے کچھ حقائق سے آگاہ کروں گی۔ریکوڈک جس کا بلوچی زبان میں مطلب ریتلی چوٹی ہے۔بلوچستان کے ضلع چاغی کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے اور ریکو ڈک اپنے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی وجہ سے مشہور ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں سونے کا دنیا کا پانچواں بڑا ذخیرہ ہے۔
یہ ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب نوکنڈی سے 70کلومیٹر شمال مغرب میں صحرائی علاقے میں واقع ہے۔جو ترکی اور ایران سے پاکستان تک پھیلا ہوا ہے۔حکومت پاکستان کے درمیان آسٹریلیا پاکستان دو طرفہ سرمایہ کاری معاہدے کی خلاف ورزی اور تانبے اور سونے کی سب سے بڑے میں سے ایک کی کان کنی کے حقوق سے انکار پر ایک مقدمہ تھا۔
اب اس کیس کا پس منظر کچھ یوں ہے کان کنی کمپنی بی پی ایچ بلیٹن اور حکومت پاکستان نے 1993میں ریکوڈک کان میں سونے اور تانبے کی تلاش اور کان کنی کے لیے چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایگریمنٹ کے نام سے ایک معاہدے پر بھی دستخط کیے تھے۔
اب معاہدے کے مطابق آسٹریلوی مائننگ کمپنی اس منصوبے میں 75%خود رکھے گی جبکہ پاکستان کے پاس بقیہ 25%حصہ باہمی سرمایہ کاری کی بنیاد پہ اور 2%رائلٹی کے ساتھ ادا ہوگا۔بعد ازاں اپریل 2000میں کمپنی نے اپنی ذمہ داریاں ایک غیر معروف آسٹریلوی کمپنی مائنز ریسورسز کے حوالے کر دیں جسے ٹیتھان کاپر کمپنی نے 2006میں حاصل کیا تھا۔
ٹیتھیان کاپر کمپنی نے فروری 2011میں بلوچستان حکومت کے ساتھ مائننگ لیز کی درخواست جمع کرائی تاہم اسے نومبر میں بلوچستان حکومت نے مسترد کر دیا تھا۔پھر 2013میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے معاہدے کو کالعدم قرار دیا، بلوچستان نے اس پر دستخط کرکے اپنے
اختیارات سے تجاوز کیا تھا کیونکہ یہ عوامی پالیسی کی مخالفت کر رہا تھا۔اُس وقت عدالت کا موقف یہ تھا کہ ٹی سی سی کے پاس ریکوڈک میں دریافت اور کان کنی میں دریافت کا کوئی قانونی حق نہیں ہے یوں رفتہ رفتہ یہ معاملہ متنازع ہوتا چلا گیا۔
2011کے فیصلے پر ٹی سی سی کو ریکوڈک پروجیکٹ کے لیے کان کنی کی لیز سے انکار کرنے کے بعد آئی سی ایس آئی ڈی کے ایک بین الاقوامی ثالثی ٹربیونل نے 12جولائی 2019کو پاکستان پر 6بلین کا جرمانہ عائد کر دیا گیا۔ٹریبونل کی سربراہی جرمنی کے کلاﺅس ساکس کر رہے تھے اور اس میں بلغار یہ کے ثالث سٹیمیر الیگزینڈر روف اور برطانیہ کے لارڈ ہوف مین بھی شامل تھے جنہوں نے پاکستان کو حکم دیا تھا کہ وہ ٹی سی سی کو 4بلین ڈالر سے زائد سود بھی ادا کرے۔
جب اس معاہدے کی دو طرفہ خلاف ورزی ہوئی تو اس پہ عمران خان نے بھی اپنے دور اقتدار میں ایک کمیشن کو تشکیل دیا تھا کہ اس کی وجوہات کی تحقیقات کی جائیں کہ آخر پاکستان اس مشکل سے کیوں دوچار ہوا۔
ماضی کے تمام حقائق کو دیکھتے ہوئے اب جو بات سامنے آئی کہ وزیر اعظم کا یہ اعلان صوبے کے سیاسی رہنماﺅں کی تنقید کے بعد سامنے آیا جنہوں نے ریکوڈک منصوبے کے ’مجوزہ معاہدے‘ پر تنقید کی تھی حال ہی نے بلوچستان اسمبلی نے اس منصوبے پر ایک قرارداد بھی منظور کی تھی جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ بلوچستان کے منتخب نمائندوں اور صوبائی حکومت کو شامل کیے بنا منصوبے کے مستقبل کے بارے میں کوئی معاہدہ قبول نہیں کیا جائے گا قرارداد متفقہ طور پر اس وقت منظور کی گئی جب ایوان کو بتایا گیا کہ وفاقی حکومت بلوچستان حکومت اور اسمبلی کو اعتماد میں لیے بغیر تانبے اور سونے کی کان کنی کے معاہدے یا کسی بھی یادداشت پہ دستخط نہیں کرے گی۔
اب اس پروجیکٹ کی ناکامی کی وجہ کچھ یوں ہیںپہلے نمبر پہ:فنی اور تکنیکی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ،اگر میں گہرائی سے موازنہ کرتے ہوئے بیان کروں تو ہمارے ملک میں قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے اگر اس پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے ملکی سطح پہ سنجیدہ ہوتے تو بہت سے راستے نکل سکتے تھے جہاں سیاسی جماعتیں مختلف سکیموں پہ اربوں ضائع کرتی ہے اور وہ سب کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں چند ہی مہینوں کے بعد اگر تھوڑا سا پیسہ ہی جدید مشینری پہ لگا دیا جاتا تو آج اس ملک کی تقدیر بدل سکتی تھی مگر ایک مزید وجہ سبب مختلف سیاسی گروہ بندیوں ،تنازعات،اور سیاسی اختلافات کی نذر یہ پروجیکٹ ہوا۔
نمبر2 :یہ منصوبہ قومی،اور عالمی قوانین اور ریاستوں کے روایتی ردعمل کی وجہ سے معطل ہوا
نمبر3:کچھ سیاسی جماعتوں کی متنازع آراءاور ٹائم فریم کے ساتھ مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے اس پروجیکٹ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
اب اگر پاکستان کا یہ منصوبہ پایہ تکمیل کی جانب جاتا تو اس کے مثبت اثرات ملک کی عوام اور معیشت پہ ثابت ہوتے۔
1 :اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل ہوتا، تو مختلف سیکٹرز میں روزگار کی فراہمی میں اضافہ ہوتا ۔نئے منصوبے اور پروجیکٹس کے تعمیر اور ترقی کے لئے لوگوں کو ملازمتوں کے مواقع حاصل ہوتے جو معاشی ترقی کو بھی بہتر بناتے اور بے روزگاری کا بھی خاتمہ ہوتا۔
2:اس پروجیکٹ کی تکمیل سے بینک اور مالیاتی سیکٹر میں بھی ترقی حاصل ہوتی جو کاروباری طبقے کو اور نئی انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے آسان قرضوں کی فراہمی اور سرمایہ کاری میں بھی مدد ملتی۔
مجموعی طور پہ دیکھا جائے تو اقتصادی، معاشی، اور روزگار کو فروغ ملتا۔
مگر بد قسمتی سے صر ف ایک بیان سے ایک اہم پروجیکٹ کو دبا کر رات گئی اور بات گئی والا معاملہ کیا جا رہا ہے۔یہاں اس ملک میں ہر سیاسی جماعت اپنی اپنی سیاست کو فروغ دینے اور اپنے اقتدار کو محفوظ کرنے کے سوا ان کے دماغوں میں کوئی پلان ہی نہیں چلتا۔ یہاں وہی پروجیکٹ چلتے ہیں جن میں حکمرانوں کے اپنے بینک بیلنس میں اضافہ ہو کمیشن ملتا رہے۔دوسرا کوئی بھی سیاسی جماعت ملک و قوم کی بہتری کے لیے ون پیج ہونا نہیں چاہتی جس کے نتائج ملک اور غریب عوام کو بھگتنا پڑتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.