80 کی دہائی کے اواخر میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے ہاسٹل میں پہلی دفعہ قدم رکھنے کا سبب زیر تعلیم دوست تھا، سر بازار ملا اورساتھ چلنے کو کہا پہنچے تورات کے کھانے کا وقت تھا، ہم بھی ایک میز پر بیٹھ گئے،کچھ وقت گزرا کہ ایک طالب علم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کے مہمان آئے ہیں اوپر کمرہ میں چلیں، میزبان نے اصرار کیا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ، یہ جڑواں بھائی ہم شکل ہیں، برادر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اصغر اُن دنوں جامعہ زکریاشعبہ اردو میں زیر تعلیم تھے۔ جونہی کمرہ میں داخل ہوئے تو نوجوان نے کنڈی لگا کر پوچھا یہاں کیا کرنے آئے ہیںدو میں سے ایک جامعہ زکریا کے سابقہ طالب علم اور بھائی کو جانتے تھے جو اسلامی جمعیت طلباءکی انتظامی کمیٹی کے ممبر اور فعال تھے، کمرے میں لانے کا سبب بھی یہی تھا،طلباءکا تعلق انجمن طلباءاسلام سے تھا جامعہ بہاولپور میں اِن کاطوطی بولتا تھا، انٹرویو کے بعد حکم دیا کہ پوائنٹ پر سوار ہوکر کیمپس سے نکل جائیں، آپ جیسے افراد کی” خاطر مدارت‘ ‘ہم گرین بلٹ پر کرتے ہیں،مہمان سمجھ کر چھوڑ رہے ہیں، میزبان کے ساتھ حسب پروگرام واپس شہر چلے آئے۔
اِسی جامعہ میں کئی برس کے بعد شعبہ سیاسیات پی ایچ ڈی میں داخل ہوئے، ادھیڑ عمرکلاس فیلوز کے ساتھ باہر نکلے،تو بزرگ نے رکنے کا اشارہ کیا کاغذ تھماتے ہوئے کہا کہ اس ہاسٹل کا پوچھنا ہے میری بیٹی یہاں پڑھتی ہے وہ گویا ہوئے زمانہ بڑا خطرناک ہے اِس دور میں بچیوں کوپڑھانا بڑا مشکل ہے،ہم دیہاتی زیادہ اس لئے بھی پریشان رہتے ہیں، کہ جامعہ کی نت نئی باتیں سننے کو ملتی ہیں، مگر پڑھائے بغیر بھی چارہ نہیں،پھر بچوں اور بچیوں کا اکٹھا پڑھنا والدین کے لئے نت نئی پریشانی کا باعث ہے،انٹر کے بعد یونیورسٹی میں پڑھنے کی پالیسی نہ جانے کس نے بنائی ہے،اب تو صبح و شام دل کو دھڑکا سالگا رہتا ہے۔
ہاسٹل کا بتا کر رخصت لی،برسبیل تذکرہ سوچنے لگے کہ بی ایس اور سمسٹر سسٹم پروگرام کس کی ایجاد ہے، گریجویشن کے بعد جامعہ آنے والے طلباءو طالبات میچور ہوتے تھے،کلاس فیلو نے بتایا کہ یورپی یونین کے کہنے پر ”بلونگنہ معاہدہ “یکساں معیار تعلیم کے لئے تحت ہوا ،کیونکہ یورپی ممالک میں الگ الگ تعلیمی نظام تھے،یونین سے وابستہ ممالک کے لئے یکساں نظام مرتب کیا،پھر تیسری دنیا میں لاگو کرنے کے لئے مالی امداد بھی دی ،اس لئے بھی روزگار اور تعلیم کے لئے بیرون ملک جانے والوں کو مساوی ڈگری درکار تھی۔
جب سے نو عمر بچے اور بچیاں جامعات میں داخل ہوئے، آئے روز سکینڈل منظر عام پر آرہے ہیں، تازہ ترین اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا سامنے آیا ہے منشیات،جنسی ہراسگی کے اخلاق سوز واقعات اب والدین کے لئے وبال جان ہیں،بلیک میلنگ پر جرم میں ملوث بیٹیاں کیسے خاندان کا سامنا کریں گی۔
سمسٹر سسٹم میںبھاری بھر اختیارات نے اساتذہ کو” بھگوان“ بنا دیا ہے، طلباءو طالبات خوف کے باعث کسی ناانصافی پر لب کشائی نہیں کرتے بلکہ بلیک میل ہوتے ہیں، زیادہ طالبات مافیاز کا ” شکار“ بنتی ہیں،راقم بھی جامعہ کی ”علمی دہشت گردی “کا شکار اس لئے ہوا کہ پانچ سال تک میرے تحقیقی عنوان کو بورڈ آف ایڈوانس سٹڈیز میں نہ بھیجنے پرجب حکام بالا سے تحریری شکایت کی تو سابقہ چیئرپرسن شعبہ سیاسیات نے انا کا مسئلہ بناکر ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی دوڑ سے مجھے باہر کردیا،گریجویشن کے پروگرام میں بھلا کوئی طالبہ شکایت کا رسک لے سکتی ہے؟سمسٹر سسٹم پر ماہرین تعلیم کے تحفظات پائے جاتے ہیں۔
جامعہ بہاولپور بد نام زمانہ سکینڈل کے پیچھے یہی بے بسی کا رفرما ہے، مخصوص مافیاز متحرک ہیں جنکی اپروچ ہر شعبہ میں ہے۔ اساتذہ کرام کے حلقہ میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ جب رئیس ادارہ رخصت ہوں گے تو نیب کی آماجگاہ یقیناًیہ مادر علمی ہو گی،راوی کے مطابق جو مافیا” بڑی واردات“ میں پکڑا گیا ہے وائس چانسلر اس کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے،جب سے وہ جامعہ کے تخت پر برا جمان ہوئے ہیں میڈیا کی وساطت سے خود نمائی میں مصروف ہیں۔
قریبی حلقے بتاتے ہیں جامعہ کے معاملات پر انکی گرفت کمزور ہوتی رہی اس لئے منشیات کا دھندہ کرنے والے بھی اس مادر علمی کے طالب علم قرار پائے جن سے آئس اور طالبات کی نازیبا وڈیوز دستیاب ہوئی ہیں،صحافتی ذرائع کا کہنا ہے کہ غلطیوں کی پردہ پوشی وہ تحائف دے کر کرتے ہیں۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جو احباب انکی اذیت کا موجب بنے ہیں ،انھیں ”بے روزگار “سمجھ اورمیرٹ سے ہٹ کر نوکریاں دیں، انہی ” پیاروں “نے آج انکی عزت کا جنازہ نکال دیا۔زیر حراست چیف سیکورٹی آفیسرکے مطابق ہر شعبہ کے 5 میں سے 3اساتذہ ہراسمنٹ میں ملوث ہیں۔
عمومی رائے یہ ہے کہ جامعات کے اساتذہ میں لسانی، طبقاتی،نظریاتی،مسلکی بنیادوں پر گروہ بندی پائی جاتی ہے،طلباءو طالبات انکی تنگ نظری اور گروہی سیاست کی زد میں رہتے ہیں،تعلیمی پالیسی میں طے ہوا تھا کہ گریجویشن تک طلباءو طالبات کی تعلیم و تدریس الگ الگ تعلیمی اداروں میں ہوگی، اعلیٰ تعلیم اورتحقیق کے لئے جامعات کا رخ کریں گے، اس لئے بی ایس پروگرامات کا آغاز کالجز میں کر دیا گیا ہے، جامعہ بہاولپور کے سانحہ کے بعد عوامی سطح پر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ مخلوط تعلیم کا سلسلہ بند کیا جائے ،دونوں اصناف کی تدریس کے لئے الگ الگ ادارے قائم کئے جائیں۔
مذکورہ جامعہ کے سربراہ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے طلب کیا ہے ،اس واقعہ کی تحقیق کے لئے پنجاب سرکار نے تین رکنی کمیٹی بنا دی ہے، نت نئے سکینڈل اور تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے منشیات کے استعمال اور اس میں انتظامیہ کے ملوث ہونے کی شہادتوں کے بعد یہ لازم ہو گیا ہے کہ ایسے درندوں کو درس گاہوں جیسے مقدس مقامات سے نکال باہر کیا جائے اور انھیں قرار واقعی سزا دی جائے۔
شریف النفس گورنر جو پنجاب کی جامعات کے چانسلر بھی ہیں ، ان کے ہوم ٹاﺅن کی یونیورسٹی میں جنسی سکینڈل ٹیسٹ کیس ہے، جس کے اثرات دیگر یونیورسٹیز پر بھی مرتب ہوں گے۔
جب طلباءیونین کا عہد تھا ان کی ناجائز اجارہ داری اور جھگڑوں سے انتظامیہ، والدین مصیبت میں تھے، ان کے جامعات سے باہرہونے پر والدین اپنی بیٹیوں کی عزت کے تحفظ کے لئے پریشان ہیں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.