سیاسی منظرنامہ،معاہدہ،الیکشن

49

آئی ایم ایف کا ٹنٹنا ختم ہوا حکومت کی 6 ماہ سے زائد کی محنت رنگ لائی، وزیروں نے بیانات دیے۔ وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے ملاقاتیں کیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مذاکرات کا ڈول ڈالے رکھا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی معاونت شامل رہی۔ وزیراعظم کی پیرس میں ڈی جی آئی ایم ایف کے ساتھ ملاقات نے بگڑا کام بنا دیا۔ ناکامی کے لیے ہزار کوششوں کے باوجود آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کے معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ عالمی مالیاتی فنڈ 9 ماہ کے دوران یہ رقم دے گا۔ بلا شبہ کڑی شرائط ہیں۔ بجلی پیٹرول کی قیمتیں بڑھانا ہوں گی شرح سود میں بھی اضافہ ہو گا۔ لیکن ملک کو ڈیفالٹ کے خطرات سے نکالنے اور زر مبادلہ کے ذخائر بڑھانے میں مدد ملے گی۔ حماد اظہر اور شیخ رشید کو معاہدے سے صدمہ پہنچا اپنے دور اقتدار میں کیا تیر مارے تھے۔ 24 ہزار ارب ڈالر کے قرضے غتر بود، اللوں تللوں میں گنوا دیے۔ ایک بھی میگا پراجیکٹ شروع ہو سکا نہ انجام کو پہنچا۔ عوام پورے ساڑھے تین سال مہنگائی کے ہاتھوں مجبور ہو کر غالب کا شعر دہراتے رہے۔ ”قرض کی پیتے تھے مے اور اس پہ کہتے تھے کہ ہاں، رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن“ فاقہ مستی 30 جون کو رنگ لائی۔ ناک بھوں چڑھانے کے بجائے حکومت کی شبانہ روز کاوشوں کو سراہنا چاہیے کہ اس نے آئی ایم ایف کا پیچھا نہ چھوڑا اور سب سے زیادہ توجہ معیشت کی بحالی پر مرکوز رکھی۔ عالمی سود خور پیار سے تو قرض دینے سے رہے کڑی شرائط تو رکھیں گے۔ تسلیم کرنا ہوں گی صبر کرنا پڑے گا۔ شہبازحکومت نے اپنے پڑوسی اور دیگر ممالک سے خوشگوار تعلقات بڑھائے۔ سائفر لہرانے والوں کی طرح تعلقات خراب نہیں کیے۔ چین نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ سعودی عرب بُرے وقت میں کام آیا۔ یو اے ای نے کشکول خالی نہیں ہونے دیا۔ دوست نما دشمنوں کے چہرے لٹک گئے۔ پی ٹی آئی دور کے ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی کے بقول میں نے 2019ء میں اس وقت کے وزیراعظم کو بتا دیا تھا کہ ملک ڈیفالٹ ہونے جا رہا ہے۔ خان نے اسد عمر کو جو وزیر خزانہ تھے فون پر پوچھا اسد عمر نے تصدیق کی خان ناراض ہوئے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ اسد عمر نے کہا میں سمجھتا تھا آپ کو علم ہو گا۔ ”خاک علم ہوتا وہ تو اونچی ہَواؤں میں اُڑ رہے تھے علم رکھنے اور اقدامات کرنے والے دیر سے آئے اس وقت تک باڑھ کھیت کھا چکی تھیں۔
مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہے؟ ایک اہم پریس کانفرنس کا کئی دنوں سے چرچا تھا۔ ہو گئی اور دو ڈھائی گھنٹے بعد بند آنکھیں کھلنے لگیں۔ نابیناؤں کو بینائی ملی تو انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ سیانوں نے سیانوں سے پوچھا۔ ”خان ملٹری کورٹ کے ایریا میں فٹ ہوں گے؟ جواب ملا بالکل فٹ ہوں گے جیسی کرنی ویسی بھرنی کیا ہو گا؟ شواہد موجود ہیں مقدمہ چلے گا۔ ملٹری ایکٹ اور ملٹری سیکرٹ ایکٹ کی شق D/1 اور D/2 لاگو ہوں گی۔ طویل سزا ہو گی۔ حالات چشم کشا ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان کی باڈی لینگویج اور لہجہ انتہائی سخت تھا۔ واضح کر دیا کہ جلاؤ گھیراؤ کرنے والوں ان کے سرغنہ اور اکسانے والوں کے لیے کوئی معافی نہیں بلکہ معافی دلانے کی کوشش کرنے والوں کو بھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ پریس کانفرنس نے یاروں اور ان کے یاروں کے چودہ طبق روشن کر دیے بازی پلٹ گئی عید بعد بڑا کھیل شروع ہو گا۔ پریس کانفرنس میں سرغنہ کا
نام لیے بغیر تعین کر دیا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری نے آرمی کے 15 اعلیٰ افسروں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی تفصیل بتائی۔ جنہوں نے اپنے اندر موجود سہولت کاروں کو نہیں بخشا۔ وہ سرغنہ کو کیوں چھوڑیں گے۔ سیانے کہا کرتے تھے پیمانے تک محدود رہو میخانے پر قبضے کی خواہش خام خیالی ہے بات نہیں مانی اب مرزا یار سنجیاں ہونے والی گلیوں میں اکیلا گھوم رہا ہے۔ تلچھٹ جو پی رہا تھا ہوس دیکھئے کہ وہ اب کہہ رہا ہے مجھ کو تو مے خانہ چاہیے۔ خواہش کیا تھی اقتدار کے راستے ملک پر یلغار، معاشی تباہی، اپنی بساط کچھ نہ تھی کچھ کیا ہی نہیں تو لانے والے کیوں متاثر ہوتے سارا کھیل موکلوں کا تھا موکل بھی غیر ملکی جن کا مقصد پاکستان کو ایٹمی قوت سے محروم کرنا تھا۔ خان ابھی تک اپنی ضد پر قائم اپنی ”قوم“ سے خطاب میں کہا ”میری حمایت تمہارے ایمان کا حصہ ہے“ پتا نہیں ایمان کا کون سا رکن ہے۔ بالآخر شکنجہ کس دیا گیا۔ عسکری اور عدالتی شخصیات سے خفیہ رابطوں کے شواہد مل گئے بچانے کی کوششیں، فیصلے دھرے رہ جائیں گے۔ ”جرم ایسا نہیں کہ تم سے کہیں“ آج تک کسی نے بھی ایسا نہیں سوچا تھا۔ سانحہ 9 مئی میں چار ہزار گرفتار ہیں۔ فرانزک رپورٹ آ گئی پہلے 102 سے نمٹا جائے گا۔ لیفٹیننٹ جنرل سمیت 3 افسران برطرف، تین میجر جنرلز اور دیگر 9 کے خلاف تادیبی کارروائی ہو چکی۔ ایک ریٹائر فور سٹار کی نواسی، ایک کا داماد تھری سٹار اور ٹو سٹار ریٹائرد افسران کی بیگمات کے خلاف ناقابل تردید شواہد حاصل کر لیے گئے آگ گھروں تک پہنچ چکی تھی قابو پا لیا گیا۔ آرمی نے ریڈ لائن کھینچ دی، 48 گھنٹے پہلے موبائل پیغام دے دیا گیا۔ لائن کراس نہ کریں ورنہ داماد بچیں گے نہ بہنوئی حمایت سہولت کاری فضول، پریس کانفرنس کی ٹائمنگ اہم تھی بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیے۔ رات کیا سوچ کر سوئے تھے منگل کی صبح سین بدل گیا۔ عید کے بعد کیا ہونے والا ہے؟ سینئر تجزیہ کار حامد میر کے مطابق جو ہونے والا ہے وہ آج تک کسی سیاستدان کے ساتھ نہیں ہوا۔ لوگ ضیا دور کو بھول جائیں گے۔ کوئٹہ میں آرمی چیف کی صحافیوں کے ساتھ جو بات چیت ہوئی اس سے آئندہ حالات کی نشاندہی ہو گئی۔ کوئی رو رعایت نہیں ہو گی۔ طے پا گیا فیصلے جو بھی آئیں جو فیصلہ ہو چکا اسی پر عمل درآمد ہو گا۔ دو وکیل بیچ میں کہاں سے آ ٹپکے اپنی جنت سے نکالے گئے ایک اور جنت کی تلاش میں ادھر آ نکلے۔ سابق دور میں جب فوجی عدالتوں سے 25 افراد کو سزائیں ہوئی تھیں اس وقت کسی کو انسانی حقوق اور سویلین کا خیال نہ آیا۔ سپریم کورٹ نے سویلینز پر مقدمات چلانے کیخلاف درخواستوں کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ حکم امتناع کی درخواست بھی مسترد، خان عجیب مخمصے کا شکار ہیں۔ سانحہ کے بعد مذمت کرنے سے انکار پھر کہا مجھے کمانڈوز نے گرفتار کیا تھا۔ ان ہی کے خلاف رد عمل بھی آنا تھا۔ گزشتہ ہفتے سب کچھ بھول کر کہہ دیا کہ آگ لگانے والے ہمارے کارکن ہی نہیں تھے۔ چار ہزار گرفتار ہوئے سب کو لات مار دی۔ ”اب کسے رہنما کرے کوئی“ حالیہ بیان میں کہا ہمارے 16 کارکن ہلاک ہو گئے (سب سے پہلے 50 کہا پھر 25 پر آئے اب 16 رہ گئے) کوئی پوچھے یہ 16 کارکن وہاں کیا کرنے گئے تھے۔ خان کب اور کیسے گرفتار ہوں گے۔ نیب عدم پیشی پر گرفتار کرے گا اس کے ساتھ آرمی آفیشل سپردگی کی درخواست دیں گے۔ جیل میں ٹرائل ہو گا اور پھر رہے نام اللہ کا ”جی کا جانا ٹھہر گیا ہے“ خان کے حامی روحانی قوتوں سے مدد حاصل کر رہے ہیں۔ خلائی مخلوق کو دعوت دی جا رہی ہے کسی میڈم لالہ رُخ نے دعویٰ کیا ہے کہ 5 گھڑ سوار خان کی مدد کر رہے ہیں انہیں کچھ نہیں ہو گا آئندہ وزیر اعظم وہی ہوں گے تاہم خان نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ میرے نام پر کراس لگا دیا گیا ہے کیا پانچوں گھڑ سوار اس کراس کو مٹا دیں گے۔
الیکشن کب ہوں گے؟ 13 اگست سے ایک دو دن پہلے قومی اسمبلی تحلیل کر دی گئی تو الیکشن 90 روز میں یعنی اکتوبر نومبر میں ہوں گے۔ اگرچہ شہر اقتدار میں افواہیں گشت کر رہی ہیں کہ نگراں حکومت عبوری حکومت ہو گی جو دو سال تک معاشی بحالی کے دس سالہ پروگرام پر عملدرآمد کرائے گی علاوہ ازیں ایک سینئر سیاستدان اور الیکشن کمیشن کے سینئر رکن نے بھی حلقہ بندیوں اور دیگر وجوہات کی بنا پر الیکشن آئندہ سال مارچ اپریل میں ہونے کی پیشگوئی کی ہے۔ حکومت کس کی ہو گی نواز شریف کی دبئی آمد پر شاہی خاندان کی جانب سے پُر اسرار پروٹوکول، ان کی آصف زرداری بلاول بھٹو اعلیٰ ترین شخصیت کے علاوہ سرمایہ کار کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقاتیں، سعودی عرب میں بھی ولی عہد اور سرمایہ کار کمپنیوں سے ممکنہ اور مجوزہ ملاقاتیں خالی از علت نہیں۔ تجزیہ کاروں کا سروے ہے کہ آئندہ وزیر اعظم نواز شریف ہوں گے ن لیگ پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں اور آئی پی پی کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت بنائے گی۔ سب اندازے اور تجزیہ کاروں کی ہوائی باتیں ہیں۔ عوام کا کیا موڈ ہے انتخابی رن پڑے گا تو پتا چلے گا۔

تبصرے بند ہیں.