توحید اور اسفا حج اور امت

41

سفر انسان کے شعور میں حیرانی جیسے جذبات کو تحریک اور نفس میں نت نئے سوالات کو جنم دیتا ہے جو منجمد فکر کو مہمیز لگاتے ہیں اور اس کے سامنے جوابات کا ایک نیا جہان آشکار کر دیتے ہیں، جب انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی کا آغاز زمین پر وجود انسانی کی ابتدا سے ہوا تھا تو وہ خود کو ہزاروں صدیوں پر محیط ایک قدیم سفر کے سامنے پاتا ہے، دراصل کسی جگہ کے ساتھ وابستگی کا شعور انسان کو روحانی اور وجودی معنوں میں بیگانگی کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ سفر میں انسان اپنے اخلاق کا اظہار کرتا ہے اور اپنے نہاں خانوں کو منصہ شہود پر لے آتا ہے۔ سفر کا لغوی معنی اور صبح جب روشن ہو جائے، نقل و حرکت کرنا بھی ہے، سفر کی خاصیت ہے کہ اس سے ادراک میں وسعت پیدا ہوتی ہے، اسی لیے سفر کو علمی تحریک کے ساتھ بھی جوڑا گیا ہے، اسی سفر کے مشتقات میں سے اسفار کا مطلب ”ڈھانپنے“ کے برعکس ہوتا ہے جو فی الاصل لفظ ”کفر“ کا مفہوم ہے، گویا انسان کی نقل و حرکت اس کی فکر میں معرفت کے اسباب اور ایمان کے داعی پیدا کرتی ہے۔
سفر کے تہذیبی پہلوؤں میں سے ایک قریشی ایالف (قریش کو مانوس کرنے) کا معاہدہ ہے، جو شام و حجاز کے مابین جسے ”ہاشم بن عبد مناف“ نے کیا، مشترکہ مفادات دریافت کیے تھے، پھر ان کی اولاد نے یمن کے بادشاہوں کے ساتھ بھی اسی طرح کے معاہدے ترتیب دیے تھے، چنانچہ یہ معاہدے علاقائی باشندوں کے مابین مشترکہ مفادات کو دریافت کرنے کا سبب بنی، جنہوں نے انہیں بھوک سے نجات اور خوف سے امن فراہم کیا تھا۔ قرآن نے قریش کو اسی نعمت کا احسان یاد دلا کر انہیں منعم کا شکر ادا کرنے کی طرف متوجہ کیا تھا تا کہ یہ نعمتیں ہمیشہ برقرار رہیں، فرمایا: ان کو اس گھر کے مالک کی عبادت ِکرنی چاہیے۔ جس نے ان کو بھوک میں کھلایا ِاور ان کو خوف سے امن دیا۔
دلوں کی دوریاں ایک ہی وطن کے باشندوں میں تفریق پیدا کر سکتی ہیں جبکہ دل ایک ہوں اور مقصد میں یگانگت ہو تو دور دراز کی بستیاں بھی قریب ہو جاتی ہیں، اور حج کا عظیم مقصد یہی وحدت ہے کہ زمین کے ہر گوشے سے حجاج کرام بیت اللہ کا سفر کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دیں کہ تیرے پاس پا پیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں۔ تاکہ اپنے فائدوں کے لیے آ موجود ہوں اور مقررہ دنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں۔ (الحج: 28-27)
حج کے مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ متفقہ امور کی تعظیم اور اختلافات کا احترام ہے، اور اس سے ہمارے معاشروں میں ثقافتی اور مذہبی تنوع کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، اور ہم اس بات کو بھی سمجھ پاتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں مختلف مسالک اور دبستانوں کے مابین اختلاف اپنی نوعیت میں ایک ثمر آور اور نتیجہ خیز تھا، جس نے امت کے احیا اور اس کے تہذیبی منصوبے کی صورت گری میں اہم کردار ادا کیا۔ امتوں اور قوموں کے باہمی تعلقات کے ضمن میں موسم حج ہمیں اسفا حج اور جادہ افکار کے مابین تعلق کی اہمیت پر متنبہ کرتا ہے۔ مقدس مقامات صرف چند رسمی عبادات کے لیے نہیں بلکہ یہ وہ روحانی، ثقافتی اور تجارتی مراکز ہیں جو دنیاوی معاملات اور مقدس عبادات کو منفرد طریقے سے باہم یکجا کر دیتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یہ دینی اور اقتصادی رابطوں کے مراکز ہیں، مسلم تہذیبی معمار یہ جان گئے تھے کہ تعمیر ارضی ایک عبادت ہے، چنانچہ سمرقند سے حجاز تک حج کے راستوں میں ہم بازاروں کو پھیلا ہوا دیکھتے ہیں۔ اسلامی تناظر میں ہمیں ایسی فکر کی ضرورت ہے جو اہل بیت کے مابین جن کی محبت کا اللہ نے یہ فرماتے ہوئے حکم دیا ہے: کہہ دو میں تم سے اس پرکوئی اجرت نہیں مانگتا بجز رشتہ داری کی ِمحبت کے (الشوری: 23) اور صحابہ کرام رضوان علیھم اجمعین کی محبت کے مابین تعلق کو راسخ کرے جن صحابہ کرام کی تعریف اللہ نے یوں فرمائی ہے: محمد رسول اللہ اور جو آپ کے ساتھ ہیں (الفتح: 29)، یہی ہمیں فکر کلی فراہم کرتی ہے جو ہمارے اندر وحدت اور یکجہتی کی روح پختہ کرتی ہے۔ ملتوں اور قوموں کے باہمی اختلافات ایک سماجی تفاعل تشکیل دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک فعال اور متحرک پن پیدا ہوتا ہے، انسانی تعارف مختلف گروہوں کے مابین ایک تبادلے کا کام کرتا ہے۔ اسلامی دانش کے لیے ممکن نہیں کہ وہ مسلمانوں کے مابین تفرقہ بازی پیدا کرنے والے عوامل، ان کی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش اور انہیں مذہبی جواز فراہم کرنے جیسے عوامل کو بڑھتا ہوا دیکھ کر خاموش رہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے درمیان تکفیری بیانیوں کے اثرات سے غافل رہ سکتے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا پر خاصی جگہ بنا لی ہے۔ جب قوموں پر علم و اخلاق کا زوال آتا ہے تو ایک ہی دین اور ایک ہی ثقافت کے پیروکاروں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر جاتے ہیں، جس کا مشاہدہ ہم نے قرو ن وسطیٰ میں مغرب کے اندر ہونے والے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کشمکش کی صورت میں کیا ہے۔ کائناتی اور عالمگیر سطح پر انسانی فکر کی وسعت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک اپنے ثقافتی اور دینی تناظر میں داخلی تنوع کے اندر وسعت پیدا نہیں ہو جاتی۔ داخلی تنوع جتنا خوشحال اور منظم ہو گا اتنا ہی ہم خارجی تنوع کا ادراک رکھتے ہوئے اس سے مستفید ہونے میں کامیاب ہوں گے۔ انسانی شرف اور اس کے ثقافتی و دینی امتیاز کا احترام کسی بھی حیات آمیز تہذیبی منصوبے کی بنیادی شرط ہے، ہمیں آج اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اس طاقت کی منطق کے بجائے ”اختلاف کا حق“ تسلیم کریں تاکہ یقینی طور پر ہم جہانوں کے لیے رحمت اور تمام انسانوں پر گواہ ایک امت وسط یعنی درمیانی امت بن پائیں۔
(لکھاری شہزادہ حسن بن طلال کا تعلق اردن کے شاہی خاندان سے ہے جبکہ وہ اردن کے ولی عہد بھی رہے ہیں اس وقت وہ اردن کی اعلیٰ کونسل برائے اعلیٰ تعلیم و سائنس وٹیکنالوجی کے سربراہ بھی ہیں)

تبصرے بند ہیں.