پاکستان نور ہے،نور کو زوال نہیں

201

آج کل ملک کے دگرگوں حالات دیکھ کر سوشل میڈیا پر حضرت واصف علی واصفؒ کا ایک جملہ بہت جگہ زیرِ بحث ہے ”پاکستان نور ہے، نور کو زوال نہیں“۔
لازم ہے کہ اس جملے پر بحث، تبصرہ یا تنقید کرنے سے پہلے اس کا سیاق و سباق بھی سمجھ لیا جائے اور جلد بازی میں کوئی سیاسی فتویٰ جاری نہ کیا جائے۔ یہ جملہ کمپنی بہادر کی طرف سے کوئی نیا بیانیہ نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ کے ایک فقیر کا پنتیس برس قبل کہا ہوا ایک فقرہ ہے۔ پہلے اسے مکمل پڑھ لیں۔ یہ جملہ مکمل یوں ہے”پاکستان نور ہے اور نور کو زوال نہیں۔ آپؐ کی بخشی ہوئی نورِ ایمان کی روشنی میں پاکستان بنا اور آپؐ ہی کے فیضِ نظر سے اس کا قیام و دوام ممکن ہے“۔
اس جملے کا تاریخی سیاق و سباق یہ ہے کہ 1984ء میں گورنمنٹ ایم اے او کالج میں ملک بھر کے دانشوروں اور ادیبوں کی ایک بیٹھک ہوئی تھی جس میں حضرت واصف علی واصف بطور صدر مدعو تھے۔ اس محفل میں پاکستان کے نامور دانشور موجود تھے، جن میں سرفہرست محترم اشفاق احمد، حنیف رامے، ڈاکٹر اجمل نیازی، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی اور امجد طفیل بھی شامل تھے۔ یہ دانشور حضرات قبلہ واصف علی واصف سے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے بھی سوالات پوچھ رہے تھے۔ ان سوالات کے جواب کے دوران میں یہ جملہ آپؒ نے کہا، اور یہ زبان زدِ عام ہو گیا۔ جس نابغہ عصر ہستی نے یہ جملہ کہا تھا، اسی نے پاکستان کے بارے میں یہ بھی کہہ رکھا ہے: ”انصاف قائم ہو جائے، خطرہ ٹل جائے گا…… خطرہ باہر نہیں اندر ہے“۔ ”ہمارے لیے ہمارا وطن خاکِ حرم سے کم نہیں“۔ ”اس ملک کی خدمت اسلام کی خدمت ہے“۔ ”قائد اعظمؒ سے ایک نئی طریقت کا آغاز ہوتا ہے اور وہ طریقت ہے ’پاکستانی……‘ اس طریقت میں تمام سلاسل اور فرقے شامل ہیں“۔ اور یہ بھی کہ:
جس نے محبوب وطن کی ہے اڑائی مٹی
واصفّ اس شخص کی ہو ساری کمائی مٹی
پاکستان کو محض ایک جغرافیائی خطہ سمجھنے والے پاکستان کی طرح اس قولِ معرفت پر بھی معترض ہیں۔ سادگی سے سمجھا جائے تو اس سے مراد یہ ہے
کہ پاکستان جس کلمہ ”لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، وہ کلمہ ایک نور ہے، اس نورانی کلمے اور نظریے سے نسبت رکھنے والے خطے کو زوال نہیں۔ اگر ہم اس نور کے ساتھ وفا کریں گے تو زوال سے بچ جائیں گے۔ اگر ہم نے اس سے وفا نہ کی تو یہ جھنڈا کسی اور قوم کے ہاتھ میں آ جائے گا۔ ممکن ہے کل کلاں چین کلمہ پڑھ لے، اور وہ اس کلمے کی لازول روشنی سے اپنے ”پاکستان“ کو لازوال کر لے۔ پاکستان ہر اس خطے کا نام ہے جو کلمہ توحید کی نسبت سے قائم ہوا ہے یا کبھی قائم ہو گا۔ ارشاد ربانی ہے: ”زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، نیک عمل کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہے اور امرِ حق کی تلقین کرتے رہے“ لازوال وقت کے تناظر میں دیکھیں تو انسانی زندگی میں خسارہ ایک فطری کلیہ ہے لیکن اس خسارے سے بچنے کا ایک استثنائی کلیہ بھی موجود ہے۔ کلیہ تو یہی ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، لیکن کلمے کے نور کو ایسا عروج ہے جسے کوئی اندیشہ زوال نہیں۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ سے کسی نے سوال کیا کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے، جبکہ پاکستان ایک جغرافیائی خطہ ہے، آپؒ اسلام کو پاکستان کے ساتھ لازم و ملزوم کیسے قرار دیتے ہیں؟ آپؒ نے ارشاد فرمایا: ”جو قطعہ زمین مسجد کے نام پر حاصل کر لیا جائے وہ تقدیس کا حامل ہو جاتا ہے“۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو ملک اسلام کے نام پر لیا گیا ہے، وہ بھی شعائر اسلامی میں داخل ہے۔ شریعت کا قانون بھی یہی کہتا ہے کہ زمین کا جو ٹکڑا مسجد کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے اس زمین کو کسی اور مقصدکے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح مسجد کا احترام عین اسلام کا احترام ہے، اس طرح اب اس ملک پاکستان کا احترام بھی اسلام ہی کا احترام ہے۔ عین ممکن ہے مسجد کا انتظام چلانے والی کمیٹی میں کچھ خائن لوگ بھی بیٹھے ہوں، ممکن ہے وہاں تعصبات کو ہوا دینے والے فسادی قسم کے خطیب بھی میڈیائی لاؤڈ سپیکروں پر قابض ہوں …… یہ سب کچھ ممکن ہے لیکن مسجد کا احترام اپنی جگہ قائم رہے گا۔مسجد ہمیشہ قائم رہنے کے لیے بنتی ہے۔ اس میں نمازیوں کی تعداد کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ بسا اوقات کوئی قبضہ گروپ مسجد کے احاطوں پر قبضہ بھی کر لیتا ہے اور اپنے احترام کو مسجد کے احترام کے ساتھ لازم قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔ دین میں گھسے ہوئے یہ دنیا دار لوگ دراصل دکاندار اور تاجر پیشہ ہوتے ہیں۔ یہ کسی سے وفا نہیں کرتے، ان کی وفاداری صرف ان کے سرمائے کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنا سرمایہ بچانے کے لیے کوئی بھی سودے بازی کرنے لیے تیار ہوتے ہیں۔ باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا قولِ حکمت ہے ”تاجر کو کبھی اپنا حکمران نہ بناؤ“ حکمت واضح ہے کہ تاجر نفع نقصان کا سودا کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ وہ اپنی تجوری بچانے کے لیے قوم کو بیچ کھائے گا۔ قومیں نظریے کے تحت بنتی اور پھلتی پھولتی ہیں، قومیں مال و زر کی جمع تفریق سے نہیں بنا کرتیں۔
قائد اعظمؒ سے لندن میں کسی صحافی نے پوچھا تھا کہ آپ پاکستان لے کر کیا کریں گے، وہاں تو کوئی انڈسٹری نہیں، وہ خطہ غربت زدہ ہے۔ آپؒ نے سوال کے جواب میں ایسا سوال کر دیا کہ وہ لاجواب ہو گیا۔ اس وقت انگلینڈ دوسری جنگِ عظیم کے بعد انتہائی شکست و ریخت کا شکار ہو چکا تھا۔ یہ جملہ انگریز صحافی کو سمجھانے کے لیے برمحل بھی تھا اور ہمارے لیے مشعلِ راہ بھی۔آپؒ نے استفہامیہ انداز میں بیان دیا: Will you prefer a poor but free England or a rich but enslaved England ruled by German? ”تم ایک آزاد مگر غریب انگلینڈ پسند کرو گے، یا خوشحال مگر جرمنوں کا غلام انگلینڈ قبول کرو گے“۔
قصہ مختصر نظریہ ہی ظلمت ہوتا ہے اور نظریہ ہی نور ہوتا ہے۔ مادی نظریے پر کھڑا انسان ظلمت گاہ میں ہے، وہ ظلمت کا نمائندہ ہے۔ کلمہ توحید پر قائم وجود کلمے کے نور سے منور ہے۔ اس کے احوال و واقعات نور کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ جو نور سے وفا کرتا، وہ نور میں ڈھل جاتا ہے۔ جو کلمے ایسے نور سے بے وفائی کا مرتکب ہوتا ہے، وہ دین دنیا دونوں برباد کر لیتا ہے۔ وقتی کامیابی فتح کی دلیل نہیں اور مصایب و مشکلات مترادفاتِ شکست نہیں۔
بعض لوگوں نے اس جملے پر یہ مضحکہ خیز تبصرہ بھی کیا کہ اگر پاکستان نور رہے تو یہ نور 1971ء ٹوٹ کیوں گیا تھا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے روحانی پہلوؤں پر اگلے کالم میں تحریر کریں گے۔

تبصرے بند ہیں.