سابق وزیراعظم نواز شریف اور پی ایم ایل این قیادت پارلیمانی انتخابات 2023 سے قبل لندن سے دبئی پہنچ چکے ہیں جہاں سیاسی بساط بچھائی گئی ہے۔ امارات میں نواز شریف آصف زرداری اور مریم نواز سے اہم سیاسی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ یہ طے ہو رہا ہے کہ وزارت عظمیٰ اگر چوتھی بار نواز شریف کو ملے گی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ پیپلزپارٹی کو ملے گی یا جہانگیر ترین کو نواز شریف نے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کر لیا ہے، لیکن وہ آئندہ انتخابات میں اپنی پارٹی کی قیادت اسی صورت میں کریں گے جب انکی وطن واپسی سے قبل انکے راستے کی قانونی رکاوٹیں ختم کرنے کے بعد انکا شاندار استقبال کیا جائے اور وہ جیل جانے کے بجائے براہ راست عوام کے ذریعے اقتدار حاصل کریں۔
9 مئی کے حملوں کے بعد پی ٹی آئی اصل مشکل میں ہے۔ عمران خان کے علاوہ سبھی نے 9 مئی حملوں کی شدید مذمت اور ان حملوں کی ذمہ داری پی ٹی آئی قیادت پر عائد کی ہے۔ حملوں میں ملوث ہزاروں شرپسندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر 102 حملہ آوروں کو ٹرائل کے لیے فوجی عدالتوں کے حوالے کیا گیا تھا۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو عید سے قبل گرفتار کرکے انکے خلاف 9 مئی کو ہونے والی بغاوت، بد امنی اور دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔ وہ پہلے بھی کرپشن کے مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خوف سے سیاستدان عمران خان اور پی ٹی آئی کو چھوڑ رہے ہیں۔ 9 مئی کو رونما ہونے والے واقعات کے بعد عمران خان نے کہا تھا کہ اگر انہیں دوبارہ گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو دوبارہ ایسا ہی عوامی رد عمل آئے گا جیسا 9 مئی کو دیکھنے میں آیا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر انہیں سزا ہوئی تو یقینی عمر قید اور پھانسی کے پھندے سے خوفزدہ پارٹی سپورٹرز اور ووٹرز کوئی رد عمل ظاہر نہیں کریں گے۔ سخت ترین قانونی گرفت کے خوف سے ان کی سزا کے بعد ملک میں سیاست بہت بہتر ہو جائے گی۔ عوام جانتے ہیں
کہ عمران خان، ان کے ساتھی اور پیروکار سرخ لکیر عبور کر چکے ہیں۔ اب ذمہ داروں کو سنگین نتائج کا سامنا اور اپنے طرز عمل کی قیمت بھی چکانا پڑے گی۔
بھارت کا کہنا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کے سوشل فیبرک اور تمام اداروں کو برباد کر کے بھارت کی وہ خدمت کی ہے کہ جو بھارتی افواج اور حکمران اربوں ڈالر جھونک کر بھی نہیں کر سکتے تھے۔ اسی لیے عمران کی سیاست پر بھارتی مارے خوشی کے بغلیں بجاتے پھر رہے ہیں۔ وہ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو پانچ نہیں دس پندرہ برس کے لیے وزارت عظمیٰ دے دی جائے تاکہ عمران بھارت کا ادھورا خواب پورا کر دے۔
آئندہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے بہت پہلے عمران خان کو پانچ سال کی نااہلی، جلاوطنی، عمر قید یا سزائے موت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آئندہ انتخابات میں نواز شریف متعلقہ (relevant) اور عمران خان غیر متعلقہ (irrelevant) ہوں گے۔ دبئی میں یہی طے ہو رہا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف انتخابات کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب ہوں گے، جہانگیر ترین یا پیپلز پارٹی کا کوئی مہرہ؟ نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم ہوں گے تو بلاول بھٹو زرداری کو کیا ملے گا؟ وزیراعظم کے عہدے کے لیے نواز شریف کا بلاول بھٹو زرداری سے سخت مقابلہ ہوگا۔ دوسری جانب نئی اعلان کردہ سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے سرپرست اعلیٰ جہانگیر خان ترین بھی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ انتخابات سے قبل بندر بانٹ جاری ہے، الیکٹیڈ کے بجائے نئے سیلیکٹیڈ طے کیے جا رہے ہیں۔
میں 2018 اور 2019 میں چینی حکومت کی دعوت پر چین گیا تو چینی حکام نے مجھ سے پوچھا کہ پاکستان میں سب سے بہتر حکمران کون ہے؟ میں نے سوال پلٹا کر جواب دیا اور کہا کہ میں تو پاکستانی ہوں میں جانتا ہوں کہ کونسا حکمران بہتر یا بد تر ہے۔ آپ کے مطابق کون بہتر ہے؟ اس پر چینی حکام نے کہا کہ نواز شریف بہتر جبکہ عمران خان بدتر حکمران ہیں کیونکہ عمران خان کے ابتدائی ایک سالہ اقتدار نے ہی سی پیک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا تھا۔ اسی لیے عمران خان کے بارے میں چین کی رائے ناپسندیدگی پر مبنی تھی۔
ترک صدر رجب طیب اردوان اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی عمران خان سے نالاں ہیں۔ عمران خان دوبارہ اقتدار میں آئے تو سعودیہ، چین اور ترکی ناخوش ہوں گے اور پاکستان اپنے ان دوست ممالک کے ساتھ اپنے سیاسی، سفارتی اور معاشی تعلقات میں خرابی کبھی نہیں چاہے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کی پونے چار سالہ وزارت عظمیٰ کے دوران پاکستان کو ناقابل برداشت سیاسی، سفارتی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
تین بار وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے لاہور سے پارلیمانی الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اپنی آبادی اور قومی اسمبلی میں زیادہ نشستوں کی وجہ سے یہ صوبہ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے لیے بہت اہم ہے۔ اس صوبہ میں مسلم لیگ (ن) کی گرفت مضبوط ہے۔ جہاں تک صوبے میں مقبولیت کا تعلق ہے تو پی ٹی آئی دوسرے نمبر پر ہے۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی، پی ایم ایل (این) اور پی ٹی آئی کی نسبت کمزور ہے۔ آئندہ بھی پی ایم ایل (ن) اور پی ٹی آئی پنجاب میں بالخصوص اور ملک میں بالعموم مضبوط سیاسی حریف ہوں گی۔
9 مئی کے حملوں کی وجہ سے پی ٹی آئی اور عمران خان کی سیاست مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت عمران خان کا سیاسی مستقبل مکمل طور پر تاریک ہے۔ وہ اور ان کی پارٹی یقینی طور پر الیکشن ہاریں گے۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی ایک بار پھر ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ خیبرپختونخوا (کے پی) میں مولانا فضل الرحمان حکومت سازی کے لیے مضبوط امیدوار ہوں گے۔ بلوچستان میں حکومت جمیعت علماء اسلام (ف)، بلوچستان عوامی پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کی غالب نشستوں کے ساتھ بنے گی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.