بادشاہ اور رعایا

69

ایک شخص جو تندور پہ روٹیاں لگاتا تھا۔ وہ ایک روٹی 5 روپے میں فروخت کر رہا تھا۔ مگر ایک دن اُس نے سوچا کہ روٹی کی قیمت کم ہے جو میں بیچ رہا ہوں اور میرے گھر کا گزر بسر بھی مشکل سے ہو رہا ہے کیوں نا میں ایک روٹی کی قیمت بڑھا دوں مگر وہ روٹی کی قیمت بادشاہ کی اجازت کے بنا نہیں بڑھا سکتا تھا۔ وہ بادشاہ کے دربار میں پیش ہوا اور بادشاہ کے آگے درخواست کی کہ بادشاہ سلامت میں جو روٹی بیچ رہا ہوں اُس کی قیمت اتنی کم ہے کہ میں اپنی گزر بسر بھی نہیں کر پاتا، آپ کی اگر اجازت ہو تو میں روٹی کی قیمت بڑھا دوں۔ بادشاہ نے تندور والے کو اجازت دے دی ٹھیک ہے تم روٹی 10روپے میں بیچ لو۔ تندور والے نے روٹی کی قیمت بڑھا کر دس روپے رکھ دی۔ چند روز گزر جانے کے بعد تندور والے نے پھر سے قیمت بڑھانا چاہی تو دوبارہ بادشاہ کے دربار میں پیش ہوا اور بادشاہ سے دوبارہ روٹی کی قیمت بڑھانے کی درخواست کی تو بادشاہ نے 15روپے فی روٹی کی قیمت رکھنے کا حکم دے دیا۔ مگر تندور والے نے پندرہ روپے کے بجائے روٹی کی قیمت 30روپے رکھ دی۔ تندور والے کے تندور پہ لوگوں کا رش لگا رہتا آخر جب بھوک لگنا تھی تو روٹی تو سب نے کھانی ہی تھی۔ چند روز یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا آخر کار ایک دن عوام مہنگی روٹی سے تنگ آ کر بادشاہ کے دربار میں پیش ہوئے کہ بادشاہ سلامت روٹی اتنی مہنگی ہے کہ ہم تو شاید بھوک سے ہی مر جائیں گے کچھ رحم کیجیے ہم پہ۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ فوری طور پہ تندور والا دربار میں پیش کیا جائے۔ تندور والا دربار میں پیش ہوا بادشاہ کا دربار لگا ہوا تھا رعایا بھی دربار میں تھی بادشاہ سلامت نہایت برہم ہوئے اور غصے سے حکم دیا کہ اس تندور والے کا سر قلم کر دیا جائے۔ تندور والے نے فوراً سے بادشاہ کی منت سماجت میں عافیت سمجھی۔ بادشاہ سلامت رحم کیا جائے میں بھی کیا کروں میرا گزر بسر نہیں بہتر ہو رہا تھا مجبوراً مجھے قیمت میں اضافہ کرنا پڑا۔ بادشاہ سلامت نے فوراً سے حکم دیا روٹی کی قیمت آدھی کر دی جائے۔ تندور والے شخص نے جواب دیا؛ جو حکم عالم پناہ۔ اس سارے ماجرے کو دیکھنے کے بعد عوام نے تو بادشاہ سلامت زندہ باد، بادشاہ سلامت زندہ باد کے نعرے لگا دیئے۔ عوام بھی خوش، بادشاہ بھی مطمئن اور تندور والے نے بھی منشا پوری کر لی۔
اس ساری بات کے کرنے کا ایک مقصد ہے۔ ذرا سوچئے! جو کام تندور والے نے کیا وہی کام ہمارے ملک میں بڑے بڑے وزیر کرتے ہیں عوام جب بلبلا کر شور مچاتے ہیں تو بادشاہ پھر یوں ہی ایکشن لیتا ہے اور یوں ہی تندور والے کی طرح کلاس لگتی ہے اور پھر عوام کو بھی اسی طرح لوٹ کر بھی عوام کی نظر میں اچھے ہو جاتے ہیں۔ یہی سیاست پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے سے لے کر اب تک کی جا رہی ہے۔ اس اقتدار کی پاور کو حاصل کرنے کے لیے کس کو لوٹا، کون مارا گیا اس کی فکر کیوں ہو گی کسی کو بھلا۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو بادشاہ جہانگیر نے اکبر کے خلاف بغاوتیں کیں لیکن جب وہ بادشاہ بنا تو اُس کی جانب سے عوام کے لیے کوئی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ اورنگ زیب نے جب اپنے بھائیوں کے خلاف جنگیں لڑیں جن میں ہزارہا لوگ مارے گئے تو اس کا صلہ اورنگ زیب کو ملا۔ عوام نے ان جنگوں میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ دیکھا۔
اب میں آتی ہوں موجودہ وقت کی طرف، مگر میں اپنے قارئین کو یہ بتاتی چلوں کہ ان دونوں باتوں میں ایک خاص مقصد ہے، پہلی بات میں اس ملک کی طرز سیاست کا رنگ چھپا ہوا ہے اور بادشاہوں نے ماضی میں جو جنگیں لڑیں اُس وقت کے حساب سے رعایا کو بہت سہنا پڑا۔ اگر آج ہم ماضی سے موازنہ کریں تو آج بھی اقتدار کی جنگ بادشاہوں میں دکھائی دے رہی ہے صرف ایک لفظ کی ہی تبدیلی آئی ہے پہلے تخت و تاج کہا جاتا تھا آج اس کو لفظ جمہوریت سے بدل دیا۔ مگر ہر طرف سے ہر جمہوری دور میں پستے عوام ہی ہیں۔ آج عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں مگر ہم جمہوریت کو دیکھیں کہ ایک طرف اپوزیشن بہت پریشان ہے کہ اس موجودہ گورنمنٹ نے عوام کو مہنگائی سے مار دیا۔ اور ہم عوام کے بہت ہمدرد ہیں۔ یہ بات جب اپوزیشن کہتی ہے تو مجھے تو کسی مزاحیہ لطیفے سے کم نہیں لگتی کیونکہ ان کے دور میں انہوں نے کیا الگ کیا۔ انہوں نے بھی بینک بیلنس بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اپوزیشن بھی انتظار میں ہے کہ کہیں سے غداری ہو آج پی ڈی ایم کے نام پہ جو جماعتیں اکٹھی ہیں کل کو پھر ان کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹے گی۔ اسی طرح کی پریشانی اور گھبرایٹ عوام کی محسوس کرتے ہوئے عمران خان نے بڑی بڑی باتیں کی تھیں۔ بڑے بڑے مگرمچھوں کو چور چور کہہ کر پہلے پکڑا اور پھر بڑی پلاننگ کے ساتھ چھوڑا۔ عوام کو خوشحالی کے خواب دکھائے اور مہنگائی کی دلدل میں دھکا دے کر بڑی آسانی سے یہ کہہ کر بری الزمہ ہو گئے کہ مجھ سے پہلے جماعتوں نے اس ملک کو کھوکھلا کر دیا۔ اب تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی برائیاں تو خوب گنوا رہی ہیں کیونکہ ان کو عوام کی بہت فکر ہے۔ اسی طرح اگر ہم ن لیگ کی بات کریں تو یہاں ان کی بادشاہوں جیسی شان و شوکت، پروٹوکول، ہی نہیں پورا ہوتا مگر جب لندن میں ہوتے ہیں تو پیدل بھی چلتے ہیں قطاروں میں بھی کھڑے ہوتے ہیں اور عام ٹرانسپورٹ میں سفر بھی کرتے ہیں اگر یہی رنگ ڈھنگ اپنے ملک میں بھی رکھتے تو آج صورتحال ملک اور عوام کی مختلف ہوتی۔ یہی بات عمران خان نے بھی کہی تھی کہ اس ملک سے پروٹوکول کو ختم کیا جائے مگر اپنے دور میں سب سے زیادہ اس جماعت نے ہی پروٹوکول پہ خرچ کیا۔ آج ہر کوئی عوام کا ہمدرد بن کر تو نکل رہا ہے کل کو جب یہی مقابل ہوں گے تو ان کے بھی یہی الفاط ہونگے کہ ہم سے پہلے والوں نے ملک کو قرضوں تلے دبا دیا اور آج ملک کی یہ صورتحال ہے۔ مگر یہی الزام دھرتے ہوئے آج کئی جمہوری دور گزر گئے مگر کبھی کوئی کل سیدھی نہیں ہو سکی نہ جانے کب ان سیاستدانوں کے درمیان کوئی لیڈر پیدا ہو گا؟

تبصرے بند ہیں.