پاکستان کے معاشی و سیاسی تضادات

58

پہلی جنگ عظیم کے انسانی معاشرت، نفسیات اور جذبات پر منعکس ہونے والے منفی اثرات کی ترجمانی کے لیے انگلینڈ کے مشہور شاعر اور نثر نگار T.S Elliot نے اپنی مشہور نظم The Waste Land 1914-1918 کے دوران مکمل کی جو اس وقت کی نسلوں کا المیہ تھی جس میں اس نے جنگی تباہی اور انسانی رشتوں کی ناقدری کو موضوع بنایا کہ یہ دنیا دانش و حکمت سے بانجھ ہو چکی ہے اور ایک سنگین بحران سے دو چار ہے۔ بحران کی بنیادی وجہ کو اگر ایک لمحے کے لیے ایک طرف رکھیں تو اس وقت ہمارا پیارا ملک پاکستان اُسی غارت گری کا نقشہ پیش کرتا ہے جس کا اظہار ایلیٹ نے آج سے ایک صدی پہلے کیا تھا۔ اس معاشرتی شکست و ریخت نے ہماری پوری نسل کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور یہاں سے باہر نکلنے کے راستے مسدود ہیں لیکن یہ ایک سانحہ ہے کہ ہم بطور قوم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان زرمبادلہ کے ایک ایک قطرے کو ترس رہا ہے اور آئی ایم ایف اور دوست ممالک کے آگے یوں سمجھیں کہ لیٹا ہوا ہے مگر معاشی ماہرین کے ایک اندازے کے مطابق اس وقت بھی پاکستانیوں نے ڈالر خرید کر گھروں میں چھپا رکھے ہیں تا کہ اس سے اندھا منافع کمایا جا سکے ڈالر کی اس ناجائز ذخیرہ اندوزی کی مالیت 5 ارب ڈالر ہے۔ اندازہ کریں کہ ہم ایک ارب کے لیے منتیں کر رہے ہیں جبکہ اس سے 5 گنا رقم ہمارے پاس مال مسروقہ کی شکل میں موجود ہے۔ جس سے پاکستان کا بحران حل ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اربوں ڈالر ملک سے باہر ٹرانسفر کر کے طاقتور طبقہ ڈالر مہنگا ہونے پر خوش ہوتا ہے جبکہ ملک مزید تباہی میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ حکومتی پالیسیاں اس قابل نہیں ہیں کہ چھپایا گیا ڈالر برآمد کیا جا سکے یا پاکستان سے باہر بھیجا گیا سرمایہ واپس لایا جا سکے۔
آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کرنے کے باوجود ملک میں افراط زر 40 فیصد پر پہنچ چکی ہے اور مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ ایک عام آدمی روز مرہ اخراجات کی تاب نہیں لا سکتا ملک میں ذرائع روزگار ختم ہو چکے ہیں اگر آپ کسی بھی شہر کے پاسپورٹ آفس کا وزٹ کریں تو وہاں پاسپورٹ کے حصول کے لیے روزانہ لگنے والی قطاریں آپ کو بتا دیں گی کہ بچے بوڑھے اور جوان سب پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ یہاں سے فرار کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے۔
اس دفعہ پاکستان میں ریکارڈ گندم پیدا ہوئی۔ Bumper Crop کا قدرتی ردعمل یہ ہوتا ہے کہ پیداوار کی بہتات اور فراوانی کے نتیجے میں اکنامکس کے ڈیمانڈ سپلائی اصول کے تحت اس کی قیمت گر
جاتی ہے لیکن شروع میں یہاں ایسا بالکل نہیں ہوا بلکہ قیمت پہلے سے بڑھ گئی۔ نئی فصل آتے ہی بڑے پیمانے پر گندم ذخیرہ کر لی جس سے گندم کا ریٹ 4500 روپے من تک پہنچ گیا۔ ذخیرہ اندوزوں کا خیال تھا کہ پیداواری سال کے شروع میں جب یہ حال ہے تو 6مہینے بعد تو یہ ریٹ ڈبل ہو جائے گا یہ لوگ 10 ہزار روپے فی من کا اندازہ لگائے بیٹھے تھے اور انتظار کر رہے تھے۔ حکومت خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی مگر پھر اچانک گندم کی قیمتیں گرنا شروع ہو گئیں جو گرتے گرتے اب 3100 روپے تک آچکی ہیں یہ الگ بات ہے کہ آٹا پھر بھی سستا نہیں ہوا۔
گندم کی قیمتوں میں گراوٹ کا سبب کچھ اور تھا ہوا یہ ہے کہ پاکستان سے بیورو کریسی اور بارڈر سکیورٹی سسٹم کی خرابی اور کرپشن کی وجہ سے جو گندم افغانستان سمگل ہو جاتی تھی اس کا سلسلہ اچانک رک گیا جس کی وجہ حکومتی کریک ڈاؤن نہیں تھا بلکہ خارجی وجوہات تھیں۔ ہوا یہ کہ افغانستان جو 4500 روپے میں پاکستانی گندم خرید رہا تھا روس اور افغانستان میں ایک معاہدے کے نتیجے میں رو س نے 2600 روپے میں افغانستان کو گندم سپلائی کرنے کا معاہدہ کر لیا جس سے پاکستان کے سمگلنگ چین میں کھلبلی مچ گئی اگلے مرحلے پر پاکستان میں گندم کی قیمت نیچے آنا شروع ہو گئی آپ یہ سمجھیں کہ پاکستانی عوام کی اللہ تعالیٰ نے یہ غیبی مدد کر دی ہے ورنہ بے رحم مافیا اب تک پاکستانی عوام کو کچا چبانے کے لیے بہت کچھ کر چکا ہوتا۔ دیکھتے ہیں روس گندم کی سپلائی کب تک جاری رہتی ہے۔
گندم کو چھوڑیں آپ کو ایک اور کہانی سناتے ہیں کچھ سال پہلے تک پاکستان میں کوکنگ آئل اور گھی کی قیمت 200 روپے کلو تھی یاد رہے کہ پام آئل سے تیار ہونے والا کوکنگ آئل اور گھی پاکستان میں ملائیشیا سے امپورٹ ہوتا ہے کورونا کے دوران اس کی قیمتوں میں برق رفتار سے اضافہ ہونا شروع ہوا جو 200 سے 660 تک پہنچ گیا۔ لیکن اس سال اچانک بینک الاقوامی منڈیوں میں پام آئل کی قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئیں آپ حیران ہو جائیں گے کہ گزشتہ ہفتے تک پام آئل کی قیمت جو کبھی 1700 ڈالر فی ٹن سے بھی زیادہ ہوا کرتی تھی اب 600 ڈالر تک آچکی ہے لیکن ظلم کی بات یہ ہے کہ پاکستانی تاجروں میں کوکنگ آئل اور گھی کی قیمت میں صرف 60 روپے کمی ہے حالانکہ اس کی قیمت آدھی سے بھی زیادہ گرنا چاہیے تھی۔ ہمارے امپورٹر کہتے ہیں کہ روپے کی قیمت میں ناقدری اور Freight چارجز میں اضافے کی وجہ سے وہ قیمت کم نہیں کر سکتے اور حکومت نے خاموش رہ کر ان کی بات مان لی۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے جولائی 2022ء سے مارچ 2023ء تک 13 بلین ڈالر کا خوردنی تیل درآمد کیا ہے جو ہماری ضروریات کا 70 فیصد ہے بقیہ 30 فیصد مقامی پیداوار سے حاصل کیا جاتا ہے۔ کورونا کے دوران جب خوردنی تیل کی قیمتیں بڑھنا شدروع ہوئیں تو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا کہ پاکستان آنے والے سالوں میں خوردنی آئل اپنا پیدا کر کے سالانہ 20 ارب ڈالر کا زرمبادلہ بچائے گا مگر ان کا یہ بیان ان کے باقی بیانات کا حصہ ثابت ہوا جیسا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ غیر ملکی پاکستان میں نوکریاں ڈھونڈنے آیا کریں گے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود پام آئل یا کینولہ آئل کی مقامی کاشت کو فروغ نہیں دے سکا حالانکہ یہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے۔
معیشت اور مہنگائی کے بارے میں اب آپ کو ایک اور واقعہ بتاتے ہیں روسی پٹرول کی پہلی کھیپ ایک لاکھ ٹن آئل پاکستان میں کچھ دن میں پہنچنے والا ہے۔ یہ تیل عالمی مارکیٹ کے معاملے میں اندازاً 100 روپے لٹر بچت ہونے جا رہی ہے کیا وہ فائدہ عوام کو پہنچایا جائے کہ نہیں۔ PDM حکومت کی کابینہ اس کے حق میں نہیں تھی کہ پٹرول 100 روپے سستا کیا جائے لیکن انہیں الیکشن کا خوف بھی تھا کہ کہیں عوام ان کے خلاف نہ ہو جائیں الیکشن تو فی الحال ہو ہی نہیں رہے پھر بھی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اس 100 روپے فی لٹر بچت میں 8 روپے عوام کو واپس کر دیئے جائیں چنانچہ گزشتہ ہفتے پٹرول کی قیمت میں 8 روپے کمی کر دی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ گیس کی قیمتیں 45 فیصد بڑھا دی جائیں گویا حکومت نے آپ کی ایک جیب میں 8 روپے ڈال کر آپ کی دوسری جیب سے 45 روپے نکال لیے ہیں۔
آخری خبر یہ ہے کہ 65 امریکی ممبران کانگریس نے سیکرٹری آف اسٹیٹ یعنی امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کو خط لکھا ہے کہ پاکستان کی فوجی امداد بند کر دی جائے کیونکہ وہاں عمران خان اور اس کی جماعت کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا جا رہا ہے۔ اس خط کے پیچھے تحریک انصاف کے امریکہ میں موجود تنظیمی ڈھانچے کی لابنگ ہے یہ ایک سنگین صورت حال ہے اور پاکستان میں اس پر تحقیقات ہو رہی ہیں کہ کیا عمران خان براہ راست پاکستانی امداد بند کروانے کے مرتکب ہیں اگر ایسا ہو واقعہ ہو رہا ہے تو اس پرپاکستان میں عمران خان پر ملکی سالمیت کے خلاف کام کرنے پر باز پرس ہو سکتی ہے۔ یہ وہی امریکہ ہے جس پر وہ اپنی حکومت کے خاتمے کی وجہ قرار دیتے رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.