ایٹمی پاور سے معاشی سپر پاور کا سفر؟

55

طیب اردوان تمام تر رکاوٹوں اور مخالف اتحادوں کی سیاست کے باوجود ایک بار پھر ترکیہ کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ ان کی تقریب حلف برداری میں دنیابھر سے 21 صدور، 13 وزرائے اعظم اور دیگر اہم عالمی شخصیات نے شرکت کی۔ ان کی تقریب حلف برداری میں کثیر تعداد میں عالمی شخصیات کی شرکت سے ترکیہ کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب نے بھی اس تقریب میں خصوصی شرکت کی۔ میں ٹی وی پر تمام مناظر دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ہمارے پچھلے تین وزرائے اعظم کی تقریب حلف برداری میں کتنے ملکوں سے صدور اور وزرائے اعظم نے شرکت کی؟ پاکستان اپنے جغرافیے، قدرتی وسائل، افرادی قوت اور ایٹمی طاقت ہونیکی وجہ سے ترکیہ سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ملک ہے۔لیکن ہمیں دنیا میں ویسی پذیرائی حاصل نہیں ہے۔ ترکیہ ہمارا برادر ملک ہے یہ ہماری ترقی کا ہدف نہیں ہے۔ ہمیں امریکہ، روس اور چین کا ہدف رکھ کر ترقی کرنا ہو گی۔ تو ہی ہمیں باعزت مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ ورنہ ہمیں اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے ناجائز مطالبات اور الزامات کا سامنا رہتا ہے۔ یہ سوال ہر باشعور شخص کے ذہن میں وقتاً فوقتاً ابھرتا ہے کہ پاکستان اپنی صلاحیت کے مطابق ترقی کیوں نہیں کر سکا؟ اگر ہم ایٹمی طاقت بن سکتے ہیں تو معاشی سپر پاور بننے میں کیا بات رکاوٹ ہے۔ آج ہم 25 کروڑ کا ملک ہیں۔ ہمارے پاس ایک مضبوط پروفیشنل آرمی ہے۔ ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ پاکستان میں دریا ہیں خوبصورت وادیاں ہیں بلند پہاڑ ہیں چار موسم ہیں، لیکن پھر کمی کس چیز کی ہے؟ہم نے بعض شعبوں میں قابل حیرت ترقی کی ہے۔ ہم نے ایٹمی ہتھیار بنا لئے یہ ایک معجزہ تھا اور یہ معجزہ صرف اس وجہ سے ممکن ہوا، کیونکہ پوری لیڈر شپ اس پر متفق تھی اورسب سیاست دانوں، بیوروکریسی اور سیکیورٹی کے اداروں نے مل کر بھرپور حصہ ڈالا۔ اگر لیڈرشپ کو ایٹم بم بنانے پر متفق کیا جا سکتا ہے تو پاکستان کو معاشی سپر پاور بنانے پر کیوں عدم اتفاق ہے؟ ایٹمی ہتھیاروں کے بعد سی پیک کے منصوبے پر لیڈر شپ متفق ہوئی تھی اور توقع تھی کہ واقعی یہ منصوبہ بھی گیم چینجر ثابت ہو گا، لیکن بدقسمتی سے وہ اتفاق رائے کچھ مصلحتوں کی نذر ہو گیا۔ بہرحال اشارے مل رہے ہیں کہ کچھ غلط فہمیوں کے ازالے کے بعد اب قومی مفاد کے تقاضے غالب آ رہے ہیں۔ خدا کرے ایساہی ہو۔ ان منصوبوں کے علاوہ موٹر ویز کی تعمیر تیسرا بڑا منصوبہ ہے۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں موٹر ویز بنانے کا شاندار منصوبہ بنایا گیا۔ جب فیصلہ کیا گیا تو اس خطے میں کہیں بھی ایسی سڑکیں بنانے کا تصور بھی موجود نہیں تھا۔ اس کے باوجودہم معاشی ترقی میں کیوں پیچھے رہ گئے؟ ہمیں اپنے بنیادی مسائل سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا سب سے اولین مسئلہ معیشت کی درست سمت میں تعین کرنا ہے۔ ہمارا دوسرا مسئلہ آبادی کا بڑھتا ہوا دباؤ ہے۔ جمہوری عدم تسلسل کے باعث ہم وہ کام نہ کر سکے جو ہمیں حقیقی معاشی طاقت بناتے۔ کئی دفعہ عالمی اداروں نے پاکستان کو دْنیا کی بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کی پیشگوئیاں بھی کیں۔ لیکن پھر کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ہم ترقی معکوس کا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری پسماندگی کی سب سے بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے پاکستان ووٹ کے ذریعے وجود میں آیا اور اسی لئے پاکستان کے بانیوں نے پورے شعور کے ساتھ ہمارے لئے جمہوری نظام ہی تجویز کیا، لیکن افسوس 75 سال میں کوئی وزیراعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔ اس اکھاڑ پچھاڑ سے قوم میں مایوسی پیدا ہوئی، لوگ کاروبار، تعلیم اور جاب کے لئے باہر کا رخ کرنے لگے۔ ادارے مضبوط نہ ہو سکے۔ پوری قوم کی توجہ سیاسی محاذ آرائی پر لگی رہی اور لگی ہوئی ہے۔ نجی محفلوں میں سیاست ہمارا مرغوب موضوع ہے۔ ہر آدمی دوسرے سے پوچھ رہا ہوتا ہے کہ حکومت کتنا عرصہ چلے گی۔ اس نظام کو کرپشن، بدانتظامی اور نااہلی کے چنگل سے نکالنا ہو گا۔ کرپشن کے خاتمے کے لئے کی گئی کوششوں سے کرپشن کم نہیں ہو سکی بلکہ بڑھی ہے۔ ہمیں سب سے زیادہ فوکس تعلیم پر دینا ہوگا۔ ایک تعلیم یافتہ قوم ہی ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ایک محفل میں پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے بتایا کہ بنگلہ دیش میں سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء نے اپنے دور میں پرائمری تعلیم کا قلمدان اپنے پاس رکھا اور ایک اہم فیصلہ کیا کہ آئندہ پرائمری سطح تک صرف خواتین ٹیچر ہوں گی۔ اس سے سکولوں میں ڈراپ آؤٹ ریٹ فوری طور پر نیچے آ گیا۔ ورک فورس میں خواتین کی تعداد بڑھائی گئی اور پھر آبادی میں اضافے کی شرح بھی نیچے آ گئی۔ بنگلہ دیش کی ترقی میں ورک فورس خصوصاً ٹیکسٹائل کی صنعت میں خواتین کو شریک کیا گیا۔ ہمیں بھی ایسے دور اندیش فیصلوں کی ضرورت ہے۔ بار بار حکومتوں کی تبدیلی سے اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا اور اس طرح سرمایہ کاری نہیں آتی۔ باہر سے آنے والے سرمایہ کار منڈی کے حالات، انفراسٹراکچر، امن و امان کی صورتِ حال اور پالیسیوں میں تسلسل کی ضمانت چاہتے ہیں۔ ہمیں ایک ایسا تھنک ٹینک بنانے کی ضرورت ہے جو فیصلوں پر عمل درآمد کی طاقت رکھتا ہو۔ اس تھنک ٹینک کا سربراہ وزیر اعظم پاکستان کو بنائیں۔اس میں موجودہ مسلح افواج کے تینوں چیف صاحبان، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، وزیر خزانہ، پلاننگ کے وزیر سمیت معیشت دان، سابق قابل بیوروکریٹ، ٹاپ کریڈایبل بزنس مین اور تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو شامل کیا جائے۔ یہ لوگ وہ ہوں جنھوں نے اپنے شعبوں میں زبر دست کام کیا ہو۔ کسی نے آج تک ان کے کام پر انگلی نہ اٹھائی ہو۔جن کا صرف ایک ہی مشن ہو کہ پاکستان کو معاشی سپر پاور کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ ایٹمی طاقت ملک کا دفاع تو ناقابل تسخیر بنا سکتی ہے لیکن دفاعی صلاحیت معاشی ترقی کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ جس طرح ایک قومی سلامتی کمیٹی موجود ہے۔اسی طرح یہ تھنک ٹینک بھی اسی طرح قومی بنیادوں پر تمام تر سیاسی، علاقائی، فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں سے بالاتر ہو کر فیصلے کرے۔ ہمیں دفاع، معیشت اور دیگر تمام شعبوں میں ٹھوس منصوبہ بندی چاہئے۔ صرف ٹھوس لیڈر شپ ہی یہ کام کر سکتی ہے۔ ہمیں ایک قوم بننے کے لئے ایک قومی نظام بنانا ہوگا۔ جس کی بنیادیں صرف اور صرف عوامی مفاد کے نظریئے سے قائم کی جائیں۔ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف سے متعلق ایک متفقہ رائے ہے۔ بے تحاشا ترقیاتی کاموں اور بروقت تکمیل کی وجہ سے انھیں پنجاب سپیڈ کہا جاتا ہے۔ وہ ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر حالات موافق ہوں تو یہ جادو پورے پاکستان پر چل سکتا ہے۔ آ ج ہم اداروں کی تکریم اور توہین کے درمیان کھڑے ہیں۔ آئین پاکستان اداروں اور عوام کی تکریم کا گارنٹر ہے۔ وہ لوگ جو عوام اور اداروں کو لڑا کر دونوں کو رسوا کرنا چاہتے ہیں۔ اپنے مقصد میں ناکام ہوں گے۔ مجھے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے پوری امید ہے کہ وہ اداروں کی توہین کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ خطے میں پاکستان کے مثبت کردار کو اجاگر کرنے میں موجودہ حکومت کی معاونت کا جو بیڑا انھوں نے اٹھایا ہے۔ اس کی منزل خوشحال اور تابناک پاکستان ہے۔ شہباز سپیڈ اور پر عزم جنرل عاصم کا کمبینیشن عوامی حمایت کے ساتھ اس ملک کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ ایک تجویز کردہ تھنک ٹینک بن جائے تو وہ تمام قومی منصوبے جو اس ملک کی خوشحالی کے لئے ضروری ہیں ہر حالت میں پایہ تکمیل کو پہنچیں گے۔ اگر ہم اپنی سمت درست کر لیں تو کوئی بھی پاکستان کو معاشی سپر پاور بننے سے نہیں روک سکتا۔

تبصرے بند ہیں.