خوش فہمی کا انجام

75

ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ چکدرہ کے دوبئی پلٹ نوجوان کے اہل خانہ پر کیا گزری ہوگی، جب کپتان نے میڈیا پر آکر یہ بیان دیا کہ مظاہرین سے میرا کوئی تعلق نہیں،اس کا قصور صرف یہ تھا یہ بھی دوسرے تارکین وطن کی طرح کپتان کی پارٹی کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتا تھا،جب جوش جذبات میں توڑ پھوڑ کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ بیچارہ بھی وہاں پایا گیا،اس کے اہل خانہ کے مطابق یہ کسی اندھی گولی کا نشانہ بن گیا، جنہوں نے پہلے ہی والی وارث بننے سے انکار کیا ہے وہ اس کے پانچ بچوں، بیوہ اور ماں کا بوجھ کب اٹھائیں گے، اس نے چند روز بعد واپس جانا تھا، کپتان کی محبت بہت مہنگی پڑی،کچھ ایسا ہی لورالائی کے اس نوجوان کے ساتھ ہوا جوایک جامعہ کا طالب علم تھا،اس نے بھی زندگی کئی بہاریں دیکھنا تھیں مگر اسے بھی مظاہرہ میں شرکت کی قیمت زندگی ہارنے کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔
اس ہنگامہ آرائی میں راہ والی کا ایک نوجوان بھی پر تشدد واقعات میں مارا گیا جو سکیورٹی فورس اورشرپسند گروہ کے مابین ہوئے تھے،مرنے والا رضاکار تھا،والدین کے بقول اس کو پولیس وردی سے پیارتھا، وہ باقاعدہ اس شعبہ میں بھرتی ہونا چاہتا تھا، مگر یہ بھی کپتان کی گرفتاری کے مابعد اثرات کی نذر ہو گیا، اس طرح اور بہت سے نوجوان فرط جذبات میں جہاں اپنی زندگی کھو بیٹھے ہیں وہاں وہ پابند سلاسل بھی ہیں، انھوں نے جس انداز میں قومی املاک کو نقصان پہنچایا ہے اس کی کوئی مثال ہماری تاریخ میں نہیں ملتی۔جناح ہاؤس، ریڈیو پاکستان پشاور کی تاریخی عمارات،پاک فضائیہ کے نامور عالمی شہرت یافتہ پائلٹ ایم ایم عالم کے جہاز کے ماڈل، شہداکی یادگار، ایک نشان حیدر پانے والے شہید کا سربریدہ مجسمہ پر جس انداز میں شر پسندوں نے حملہ کیا اس کا تصور بھی محال ہے، پوری دنیا نے میڈیا کی آنکھ سے یہ المناک مناظر دیکھے ہیں،9مئی کا یہ دن ہماری سیاسی اور عسکری تاریخ میں سیاہ باب کے طور پر ایک بدنما اضافہ ہے۔
پارٹی قائدین کے مطابق سنگین واقعات کپتان کی گرفتاری کا ردعمل ہیں، جو احاطہ عدالت سے اس وقت گرفتا ر ہوئے جب بدعنوانی کے الزام کی پاداش میں پیش ہوئے، یہ کسی سیاست دان کی پہلی گرفتاری تھی نہ ہی نیا الزام ان پر تھا،مگر شرپسندوں کی جانب سے اس طرح کا ردعمل کہ جس پر ہمارے ابدی دشمن کا چہرہ بھی چہک اُٹھے
،دال میں کچھ کالا ظاہر کرتا ہے۔
بھارتی میڈیا میں تو عید کا سماں تھا،دفاعی امور کے تجزیہ نگار یوں داد دے رہے تھے جیسے شرپسندوں نے ان کا کام آسان کر دیا ہو۔وہ برملا کہہ رہے تھے 75سال سے جو وہ خواب جو وہ دیکھ رہے تھے اسکی تعبیر اپنی آنکھوں سے دیکھ لی، المیہ یہ کہ اس ناپاک کام کو کپتان کے”ٹائیگرز نے انجام دیا جن کو وہ پہچاننے سے انکاری ہیں، عقل سے ماوراء ماڈرن خواتین بھی اس گندے کھیل کا حصہ تھیں، ارباب اختیار کا یہ کہنا ہے کہ سب شرپسند قانون کے کٹہرے میں لائے جائیں گے۔
وہ تمام کارکنان جو موت کی وادی میں چلے گئے ان کے لواحقین لالہ موسیٰ کے کویت پلٹ نوجوان کے انجام کو یاد رکھیں جو نام نہاد”آزادی مارچ“میں گولی لگنے سے مارا گیا جس کی میت سر بازار پڑی رہی،پارٹی حلقوں میں اس کا تذکرہ بھی اب نہیں ہوتا، اس لئے ورثا کے پاس صبر کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
کپتان نجانے حقیقی آزادی کے نام سے کس کو بیوقوف بنا رہے، ان کا اپنا انتخاب کسی کے دست شفقت کا محتاج تھا، وہ کیسے وزیر اعظم بنے اب یہ کوئی راز نہیں رہا، آئینی طور پر اس سے رخصتی کے بعد وہ دوبارہ اقتدار پر آنے کے لئے مقتدر افراد کو بلیک میل کرتے رہے ہیں، ایک طرف وہ امریکہ کو اپنی حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں دوسری طرف اپنی حمایت کے لئے امریکی فرموں سے تاحال لابنگ کرا رہے ہیں، اس منافقت کو وہ”آزادی“کا نام دیتے ہیں۔ پونے چار سال میں تمام مقتدرافراد اور ادارے انکی پشت پر تھے مگر وہ صرف اپوزیشن کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہے انھیں بدعنوان ثابت نہ کر سکے۔
ہماری سیاسی تاریخ میں ایک شریف النفس وزیر اعظم محمد خاں جونیجو بھی گزرے ہیں، انھیں بھی”گود“ لیا گیا تھا، پیر پگاڑا مرحوم نے کہا کہ ہم وزیراعظم ادھار پر دے رہے ہیں، جنرل ضیاء الحق مرحوم ایک طاقت ور صدر تھے، پہلی ملاقات کے 12منٹ بعد ہی اختلافات سامنے آگئے جب انھوں نے ضیاء سے سوال کیا مارشل لاء کب اٹھائیں گے؟جنیوا معاہدہ کی بابت اعتماد میں لینے کے لئے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی،ضیاء الحق نے اس سے خطاب کی خواہش کا اظہار کیا تو جونیجو نے برملا کہا کہ اگر آپکو بلایا تو پھر کوئی بھی پارٹی میں شریک نہیں ہوگا،حالا نکہ یہ عالمی ایشو تھا۔
اپوزیشن نے اے پی سی میں ہر تعاون کا یقین دلایا راجہ ظفر الحق کے نزدیک صدر کے لئے بڑا دھچکا تھا۔ایک دفعہ جونیجو مرحوم آرمی ہاؤس گئے ضیاء الحق نے کہا کہ لوگ میری گاڑی کو روک کر مکے مارکر پوچھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی نہیں ہورہی، جونیجو مرحوم نے اطمینان سے کہا طویل عرصہ آپ نے حکومت کی ہے ضروری کام کرجاتے،مجھے تو پارلیمنٹ کو ساتھ لے کر چلنا ہے، جاوید میانداد کا معروف چھکا جب لگا تو اس نے ایک عدد گاڑی کسٹم ڈیوٹی کے بغیر امپورٹ کرنے کی اجازت کے لئے صدر ضیا ء الحق کو درخواست دی، انھوں نے سفارش کے لئے جونیجو کو فائل بھیج دی، وزیراعظم نے اس پر واضح لکھا قانون ڈیوٹی کی ادائیگی کے بغیر اسکی اجازت نہیں دیتا۔جونیجو سرکار کو ایک حکم نامے سے اس وقت برطرف کیا گیا جب وہ سرکاری دورہ پر بیرون ملک تھے، ائر پورٹ پر اترتے ہوئے دنیا بدل چکی تھی، انھوں ٹیکسی پکڑی اور اپنے گھر کی راہ لی مگر کسی کے خلاف بد کلامی نہ کی۔ بڑے وقار اور شفاف کردار کے ساتھ رخصت ہوتے جونیجو مرحوم ان مٹ نقوش چھوڑ گئے وہ بھی کسی کے کندھے پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے تھے لیکن اپنی صلاحیتوں سے تاریخ میں اپنا نام لکھوا گئے،تعیناتی اور سرکاری عہدہ میں کپتان اور جونیجو مرحوم میں خاص فرق نہ تھا۔
کپتان اپنے لانے والوں کے ہاتھ میں کھیلتے رہے،بدعنوانی اور قرض لینے کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے۔چور چور کی بازگشت میں پلتی عداوتیں سیاسی ماحول کوپراگندہ کرتی رہیں، نسل نو کے ذہنوں میں پرُ فریب نعروں سے زہر گھولا جاتا رہا، جس کا ثمر اس قوم کو 9 مئی کے سانحہ کی صورت میں ملا ہے۔ تمام تر اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انھوں نے ان شخصیات کو نشانہ پر رکھا، جو مسند اقتدار تک پہنچانے میں سہولت کار رہیں جنہیں یہ خوش فہمی تھی کہ وہ کامیاب منتظم ثابت ہوں گے،یہ غلط فہمی نسل نو کو بھی تھی جو ان کے سحر میں مبتلا ہوئی ان میں چند ایک بدامنی کی پاداش میں اپنی اولاد کو روتا چھوڑ کر دنیا سے چل بسے۔
اقتدار میں جن کی تعریفوں کے وہ پل باندھتے تھے، جونہی الگ ہوئے بے اختیاری کا رونا میڈیا میں روتے ہوئے ان پر الزامات دھرتے رہے، کپتان کو”بھگوان“ ماننے والے اب انکی پارٹی چھوڑ رہے ہیں،خوش فہمی کا یہ انجام تو آخر ہونا ہی تھا کیونکہ قومی الیکشن میں ان قوتوں کو باہر رکھتے ہوئے ان کا مینڈیٹ چرایا گیا۔9 مئی کے واقعات اپنے اندر بہت سا سبق لئے ہوئے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.