عمر فاروق مرزا ہمارے دوست اور کولیگ ہیں پیشے کے اعتبار سے حساب کتاب رکھنے اور کرنے والے ماہرین میں شمار ہوتے ہیں۔ بہت بڑے ادارے میں بہت بڑے عہدے پر فائز ہیں۔ حکومت ادارے کو 7 ہزار ملین روپے تک کا بجٹ دیتی ہے جو ان کی نگرانی میں خرچ ہوتا ہے۔ ادارے کے قوائد و ضوابط اور تاریخ جغرافیہ انہیں حفظ ہے۔ محکمہ جاتی سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ ان کی وفاداری اپنے ادارے اور ادارے کے نمبرون کے ساتھ ہوتی ہے۔ دو جمع دو کے حساب سے چلتے ہیں اس لئے ادارے میں ان کی دوستیاں کم ہیں، اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ قومی سیاست کو بھی دو جمع دو کے انداز میں دیکھتے ہیں قومی سیاست، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی تاریخ ہی نہیں بلکہ جغرافیہ بھی ان کی انگلیوں پر ہے۔ اس لئے جب بولتے ہیں تو پھر حقائق و حیرت کا ایک بحر بے کراں کھل جاتا ہے۔ ہم ان کے علم و فضل سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ جب سپریم کورٹ کا آٹھ رکنی بینچ تشکیل پایا تو انہوں نے بتایا کہ فیصلہ مکمل ہم آہنگی یعنی 8:0 کے تناسب سے ہو گا۔ بینچ حکومت کو ناک آؤٹ کر دے گا۔ انہوں نے تمام بینچ اراکین کا پوسٹ مارٹم کر کے بتایا کہ یہ ایسا کیوں کریں گے۔ حیران کن بات ایسے ہی ہوئی پہلی ہی پیشی پر بینچ نے بل پر عمل درآمد تاحکم ثانی روک دیا۔ حالانکہ قانونی ماہرین پہلے ہی کہہ چکے تھے کہ ایک ایسے بل کے خلاف شنوائی کے لئے بینچ قائم کرنا ہی خلاف قانون ہے، جو ابھی پارلیمان سے منظور ہو کر نافذ العمل ہی قرار نہیں پایا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل، ابھی تک مجوزہ ہے کیونکہ صدر نے اس کی ابھی تک منظوری ہی نہیں دی ہے اور کیونکہ وہ بھی پارلیمان کا حصہ ہیں اس لئے ایک مجوزہ بل کو جو ابھی منظوری کے مراحل میں ہو، سٹرائیک ڈاؤن کر دینا قطعاً مبنی بر انصاف نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے لیگل مائنڈ حامد خان بھی ایسا ہی کہہ چکے ہیں۔ چیف جسٹس کا اتنی سرعت کے ساتھ بینچ تشکیل دینا اور وہ بھی تمام ہم خیال ججز پر مشتمل اور ایک ہی سماعت میں فیصلہ جاری کر دینا ظاہر کرتا ہے کہ سپریم کورٹ میں دھڑے بندی ہے اور چیف جسٹس آئینی ادارے کو ایسے چلانے میں قطعاً ناکام ہو چکے ہیں جس طرح اسے چلایا جانا چاہئے تھا۔ 8 ہم خیالوں پر مشتمل بینچ کی تشکیل سپریم کورٹ میں تقسیم کی گواہی دے رہی ہے اور عجلت میں فیصلہ اور فیصلے کے مندرجات جانبداری کا اظہار ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کیا ہے اور منصف کے طور پر نہیں بلکہ ایک فریق کے طور پر کام کیا ہے۔
آٹھ رکنی ہم خیال بینچ عمر عطا بندیال، اعجاز الحسن، منیب اختر، مظہر علی اکبر نقوی، محمد علی مظہر، عائشہ ملک، سید حسن اظہر رضوی اور شاہد وحید جج
صاحبان پر مشتمل ہے۔ اس بینچ میں شامل جج صاحبان کی سنیارٹی، 1، 4، 6، 9، 11، 12، 14 اور 15 ہے۔ حالانکہ اتنے بڑے فیصلے کے لئے سینئر ججز پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جاتا ہے لیکن ہمارے چیف کیونکہ ایک فریق کے طور پر حکومت کو ناکام بنانے پر تلے بیٹھے ہیں اس لئے وہ ہر قیمت پر اپنی مرضی کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں جس کے لئے انہیں ہم خیالوں کی ضرورت ہے چاہے ان کی سنیارٹی کچھ ہی ہو۔
ہماری سپریم کورٹ کے چیف سرعام پارلیمان کے اختیارات پر ڈاکہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، اتحادی حکومت کے خلاف عمران خان کو کھل کھلا کر سپورٹ کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے شہباز شریف حکومت کا رویہ معذرت خواہانہ اور بزدلانہ ہے۔ وہ سوائے اجلاس بلانے اور قراردادیں پاس کرنے کے اور کچھ نہیں کر پائے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا جب آئی جی پنجاب کا مسئلہ اٹھا تھا اور سپریم کورٹ نے مداخلت کی تھی اس وقت وزیراعظم سپریم کورٹ جا کر انہیں کہتے کہ میں استعفیٰ دیتا ہوں حکومت آپ چلا لیجئے لیکن ایسا نہیں ہوا اور بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک آن پہنچی ہے کہ سپریم کورٹ میں ہم خیال ججوں کے ساتھ مل کر چیف نے ایک ایسا بل جو ابھی قانون بنا ہی نہیں، معطل کر دیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آگے کیا ہو گا؟ بات یہ ہے کہ چیف کے رویے سے واضح ہو گیا ہے کہ وہ اس حکومت کو ہرگز ہرگز چلنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ اب کھلی جنگ ہے سپریم کورٹ کے آٹھ جج بمع چیف ایک طرف اور باقی سات جج دوسری طرف۔ ایک طرف ہم خیال جج ہیں جو حکومت کے خلاف ہیں، سپریم کورٹ کے چیف کھل کھلا کر حکومت مخالف ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ انہوں نے 90 دنوں میں الیکشن کرانے کا جو حکم جاری کیا ہوا ہے اس کی آڑ میں شہباز شریف کی نااہلی نوشتہ دیوار بن چکی ہے۔ چیف صاحب جس انداز میں آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اس کا منطقی انجام شہباز شریف حکومت کا خاتمہ ہے۔
اگلا سوال یہ ہے کہ حکومت کے پاس کیا آپشن ہے؟ ویسے تو آپشن بہادروں کے پاس ہوتے ہیں طاقتور کے پاس ہوتے ہیں۔ اتحادی حکومت جس کی قیادت شہباز شریف کر رہے ہیں ایک انتہائی کمزور اور ناتواں ہے، متضاد خیالات و مفادات کی حامل اتحادی جماعتیں عمران خان کی مخالفت میں اکٹھی ہیں۔ آئی ایم ایف کے احکامات کی بجاآوری کرتے کرتے حکومت نے عوام کو پاتال میں اتار دیا ہے۔ قدر زر میں شدید گراوٹ نے عوام کی قوت خرید سلب کر لی ہے، آئی ایم ایف شرائط منواتا چلا جا رہا ہے لیکن معاہدہ نہیں کر رہا ہے۔ ہر آنے والا دن حکومت کی کمزوری عیاں کر رہا ہے۔ عمران خان حکومت پر تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں۔ 10 اپریل 2022تک عمران خان عوامی غیض و غضب کا شکار تھے ان کی عوامی پذیرائی ان کی ناکارکردگی اور نالائقی کے باعث پست ترین سطح پر تھی لیکن ایک سال گزرنے کے بعد عوام ان کی چیرہ دستیاں بھول چکے ہیں۔ انہیں موجودہ اتحادی حکومت کی نااہلیاں و نالائقیاں متاثر کر رہی ہیں۔ اتحادی حکومتیں ویسے ہی کمزور ہوتی ہیں لیکن موجودہ حکومت تو بالکل نڈھال ہو چکی ہے۔ اس نے عوام کا کچومر نکال دیا ہے۔ ان کی عوامی پذیرائی انتہائی پست سطح پر ہے۔
اتحادی حکومت کے پاس اب بہت زیادہ آپشن نہیں ہیں، سردست تو وہ سپریم کورٹ کے اتحادی بینچ کے نشانے پر ہے اور ایسے لگتا ہے کہ توہین عدالت کے ذریعے سپریم کورٹ اس کا بولورام کرنے جا رہی ہے۔
ملک سردست افتراق و انتشار کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے قوم مکمل طور پر ناامید ہے ریاستی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریبان ہیں، معیشت بدحال بلکہ پست حال ہے، سرکاری انتظامی مشینری کی چولیں ڈھیلی ہو چکی ہیں سیاست دگرگوں ہے۔ حکومت کے پاس ایک حتمی آپشن ہے کہ وہ ایمرجنسی لگا دے اور معاملات تھوڑی دیر کے لئے سدھر جائیں یا کم از کم حالات میں جاری پستی و گراوٹ رک جائے اور کوئی دوسرا آپشن سردست نظر نہیں آ رہا۔ باقی اللہ خیر کرے گا۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.