ایک طرف تو سیاسی ہلچل اور حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی نے میڈیا کی تمام تر توجہ اپنی جانب مرکوز کر رکھی ہے تو دوسری طرف غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت چپ چاپ اپنے نئے ریکارڈ بنا نے میں مصروف ہے۔ عید اور تہواروں پر بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ تو ہمیشہ ہی ہو جاتا تھا لیکن اس مرتبہ تو حد ہی ہو گئی ہے۔ گھر کی جب بھی بیل بجے تو چیک کرنے پرسامنے ایک بھکاری کھڑا ملتا ہے۔ میرا گھر تو تقریباً مین روڈ پر واقع ہونے کے ساتھ ساتھ چوک میں بھی ہے اس لیے جب بھی کسی بھی وجہ سے باہر کھڑے ہوں تو کوئی نہ کوئی ایڈریس وغیرہ معلوم کرنے کے لیے رک جایا کرتا تھا۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ جونہی گھر سے باہر قدم رکھو بڑی تعداد میں بھکاری حملہ آور ہو جاتے ہیں۔غرض گھر سے باہر قدم رکھنا تک دوبھر ہو چکا ہے۔ یہاں میرا بات کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہمیں صدقہ ، خیرات وغیرہ سے ہاتھ روک لینا چاہیے ۔ بات صرف اتنی ہے کہ ہمیں کوشش کر کے حقیقی ضرورت مندوں اور پیشہ ور بھکاریوں میں تفریق کرنی چاہیے۔
میں ذاتی تحقیق اور تجربہ کی بنیاد پر پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ حقیقی مستحق کبھی اس طرح سے بھیک مانگتے نہیں پھرتے۔ ان کی پہلی کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ کسی بھی طرح ان کی سفید پوشی کا بھرم قائم رہے (ایسے مستحقین کی امداد کرنے کے لیے تو انہیں تلاش کرنا پڑتا ہے ) اگر کسی وجہ سے انہیں ہاتھ پھیلانا پڑ بھی جائے تو ان کی باڈی لینگوئج اور طریقہ کار سے فوراً اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ واقعی مستحق ہیں۔ اس وقت سڑکوں، چوراہوں، سپیڈ بریکرز کے آگے پیچھے کھڑے ہوئے اور گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کر بھیک مانگنے کی کارروائیوں میں سرگرم افراد میں سے نناوے فیصد لوگ پیشہ ور بھکاری ہیں ۔ ان کی دیدہ دلیری کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ پہلے تو معذوری ، بزرگی یا کم عمری کا بہانا بنا کر بھیک مانگی جاتی تھی لیکن اب تو جوان جہان ہٹے کٹے مشٹنڈے قسم کے نوجوان لڑکے لڑکیا ں بھی پوری بے شرمی اور ڈھٹائی سے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔یہ لوگ، جن میں عورتیں بڑی تعداد میں شامل ہیں، گینگز کی شکل میں کسی محلہ میں داخل ہوکر مختلف سڑکوں اور گلیوں میں بکھر جاتے ہیں یا کسی اہم مقام پر کھڑے ہو کر یا دروازوں پر دستک دے کر صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور موقع ملتے ہی واردات کا ارتکاب کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔
یہ صورتحال یقینی طور پر خطرناک شکل اختیا ر کرتی جا رہی ہے لیکن یہ کہنا بھی زیادہ غلط نہ ہو گا کہ معاملات میں ایک حد سے زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کے ہم خود بھی بڑی حد تک ذمہ دار ہیں۔ اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ کسی بھی پیشہ ور بھکاری، چاہے وہ الٹا لٹک جائے، کو دو پیسے بھی نہیں دیں گے، اور اپنی امداد، خیرات، صدقہ اور زکوٰة مستحق افراد کو تلاش کر کے ان تک پہنچائیں گے تویقینا معاملات میں کافی بہتری آ سکتی ہے۔ ہاں تو بات شروع ہوئی تھی غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت سے، تو ایک خبر یہ بھی ہے کہ پنجاب حکومت نے حاتم طائی کی قبر پر ایک زوردار کک رسید کرتے ہوئے صوبہ میں کم از کم ماہوار اجرت 32000 روپے کر دی ہے۔ ویسے تو حکومت کی جانب سے اتنا کر دینا بھی قابل ستائش ہے لیکن یہ وزیر ، مشیر، بیوروکریٹس، ارکان اسمبلی اور بڑے بڑے کاروباری حضرات اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ 32000 روپے ماہوار میں ایک ایسے خاندان کا گزارہ کیونکر ممکن ہے جس نے دو وقت کی روٹی بھی کھانی ہے، مکان کا کرایہ بھی دینا ہے ، بل بھی ادا کرنے ہیں ، سفری اخراجات بھی برداشت کرنا ہیں اس کے علاوہ خوشی، غمی یا بیماری پر کتنا خرچ ہو جائے اس کا کوئی اندازہ نہیں۔ یہ لوگ اگر قرضہ لے لیں تو ایک نئے مسئلہ میں پھنس جاتے ہیں کہ اب یہ قرضہ واپس کس طرح کرنا ہے ۔
مذکورہ بالا صاحب حیثیت لوگوں سے کوئی حلفاً پوچھے کہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان لوگوں کے گھروں کا روزانہ خرچ بھی 32000 روپے سے زائد ہے ؟ اگر ایسا ہی تو پھر کیایہ پنجاب حکوت کی ذمہ داری نہیں تھی کہ تنخواہوں میں اضافہ کرتے ہوئے اس بات کو بھی مدنظر رکھتے کہ اس وقت پیٹرول کتنے روپے لٹر مل رہا ہے ، بجلی کا فی یونٹ ریٹ کہاں تک پہنچ گیا ہے، سبزیاں، دالیں، مرغی، گوشت اور آٹا بازار میں کس بھاﺅ دستیاب ہے، سرکاری ہسپتالوں میں لوگوں کو علاج کے نام پر کس سلوک کا سامنا ہے اور سرکاری سکولوں میں ملنے والی مفت تعلیم کا کیا حال ہے۔ اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر جو مہنگائی ہوتی ہے اس کی وجہ ڈالر کا ریٹ بڑھنا بتائی جاتی ہے۔ اب یہ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومت سے کون سوال کرے کہ اگر ہم پر ڈالر کے ریٹ کے حساب سے مہنگائی مسلط کی جانی ہے تو ہماری آمدنی اور اس میں اضافہ بھی تو ڈالر کے ریٹ کے حساب سے ہی ہونا چاہیے۔ میں نے تو درجہ چہارم کے کئی ملازمین کو یہ تک کہتے سنا ہے کہ ، ’ہماری غیرت اور عزت نفس آڑے آ جاتی ہے ورنہ ہم سے تو کہیں زیادہ ، پیشہ ور بھکاری، جسم فروش اور وارداتیے کما رہے ہیں‘۔ یہ سوچ حکومت اور ضرورت سے زیادہ مال و زر سمیٹ کر بیٹھے ہوئے عناصر کے لیے ایک الارم کی گھنٹی ہے۔ اگر اب بھی مہنگائی اور آمدنی کی خلیج کو دور کرنے کے لیے انقلابی اقدامات نہ کیے گئے اور کسی روز یہ غیرت اور عزت نفس کا پردہ ہٹ گیا تو پھر صورتحال کو قابو کرنا کسی کے بس میں بھی نہیں رہے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.