میڈیا ،مسخرے ،ملکی مفاد

151

ہائبرڈ نظام میں اس امر کا خاص اہتمام کیا گیا تھا کہ میڈیا کے ذریعے پورے معاشرے میں حقائق کو مسخ کرکے فرضی واقعات کے ذریعے جعلی ہیرو پیدا کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے قومی خزانے سے کھربوں روپے کی انوسٹمنٹ کی گئی ۔ میڈیا انڈسٹری میں پیرا شوٹر اتارے گئے۔ حقیقی صحافیوں پر روزگار کے مواقع تنگ کرکے بعض پرانے مگر جعلساز ٹاﺅٹوں پر ملازمتوں اور مراعات کے دروازے کھول دئیے گئے۔ عمران خان کے بارے میں تو کہا ہی جاتا کہ وہ پنجابی محاورے کے مطابق گٹے جوڑ کر (یعنی پورے اعتماد کے ساتھ) جھوٹ بولتے ہیں ۔ وہ خود بھی فخر یہ انداز میں اعتراف کرتے ہیں کہ یو ٹرن ان کی خاصیت ہے یعنی بات کرکے مکر جانا۔ اسی میڈ یائی نیٹ کے اندر ایسے ایسے نمونے شامل کیے گئے جو جھوٹ گھڑنے میں اس حد تک آگے چلے جاتے تھے کہ پڑھنے اور سننے والے سر پکڑ لیتے تھے۔ صحافت کے نام پر شعبہ میں گند گھولنے والے ایسے عناصر کے متعلق رائے دینا وقت کا زیاں ہے لیکن جب سب سے بڑے قومی اخبار میں اس قسم کا کوئی فرضی قصہ شائع ہو جائے جس سے بہترین اور سب سے زیادہ آزمودہ برادر ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات پر برے اثرات پڑنے کا امکان ہو اور ملک کے اندر بھی غلط فہمیاں پھیلیں تو ضروری ہو جاتا ہے کہ ایسے شر پسند عناصر کی قلمی سرکوبی کے لیے اپنا قلم اٹھایا جائے ۔” باتیں کھل گئیں تو پھر۔۔۔“ کے عنوان سے شائع ہونے والا یہ کالم اس قدر واہیات تھا کہ اس اخبار نے اپنے ای ایڈیشن سے غائب کردیا۔عمرانڈو لکھاری کے مطابق” جب عمران خان سعودی عرب گئے تو محمد بن سلمان انہیں گاڑی میں بٹھا کر ریاض کی سڑکوں پر پونا گھنٹہ گھومتا رہا۔ ظاہر ہے جب بغیر ڈرائیور کے ایک گاڑی میں دو اہم شخصیات ہوں تو وہ یقیناََخاص باتیں کریں گے۔ جب پاکستانی وفد واپس آیا تو سب کو بے چینی تھی کہ آخر ان دونوں کے درمیان کیا باتیں ہوئیں،کچھ تو پتہ چلے۔ایک سہ پہر اس خاکسار نے عمران خان سے پوچھا کہ آخر شہزاد ے نے آپ سے کچھ تو کہا ہوگا؟میرے اس جملے پر عمران خان نے کہا کہ باتیں تو بہت ہوئیں مگر ایک بات شہزادے نے بہت خطرناک کی لیکن میں نے اس کی بات ماننے کے بجائے اسے اپنی بات پر قائل کیا۔ میں نے عرض کیا کہ آخر وہ کونسی خطرناک بات تھی؟اس پر عمران خان بولے ایم بی ایس نے مجھ سے کہا کہ ہم ایران پر حملہ کرنا چاہتے ہیں، آپ ہمارا ساتھ دیں،میں نے شہزادے سے کہا کہ آپ ایران سے جنگ نہ کریں کیونکہ دونوں مسلمان ملک ہیں، دونوں کی جنگ سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا لہٰذا میرا مشورہ ہے کہ ایسا نہ کرنا، اگر آپ نے ایسا کیا تو ہم آپ کا ساتھ نہیں دیں گے، میں اپنے ملک میں خانہ جنگی نہیں چاہتا، اگر میں نے آپ کا ساتھ دیا تو میرے ملک میں ہنگامے شروع ہوجائیں گے جو پاکستانی معاشرے کو خانہ جنگی کی طرف لے جائیں گے، میں اپنے ملک میں فسادات نہیں کرانا چاہتا البتہ میں ایک کام بہت اچھے طریقے سے کرسکتا ہوں،یہ میرا کام ہے،میں ایرانی قیادت کو منالوں گا، میں آپ دونوں کو جنگ سے بچانا چاہتا ہوں، دونوں کا نقصان دراصل میرانقصان ہوگا کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور میں کسی قیمت پر مسلمانوں کا نقصان نہیں ہونے دوں گا“ ایک بڑے اخبار میں صرف عمران خان کی امیج بلڈنگ کی کوئی تحریر شائع ہو جاتی تو کوئی ہرج نہیں تھا ۔لیکن اگر عمران خان نے خود بھی ایسی بات کردی ہو جس کا کوئی سر ہو نہ پیر اسے تحریر میں لانا تھا مسخرے پن کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اس کالم نگار نے ایک من گھڑت کہانی کے ذریعے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو اس وقت نقصان پہنچانے کی کوشش کی جب وہ ہمیں ہائبرڈ نظام کے سبب پیدا ہونے والے بدترین معاشی بحران سے نکالنے کے لیے پندرہ ارب ڈالر کا پیکیج دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ذرا تصور کریں جس عمران خان کے بارے میں ملک کے اندر اور باہر بچے بچے کو معلوم تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلی ہے۔ جس کے عرب ممالک میں دوروں کا اہتمام بھی فوجی افسر کرتے تھے ۔ اب تصور کریں کہ سعودی عرب جیسے ملک کا سربراہ جو اپنے تمام معاملات طے ہی جی ایچ کیو کے ذریعے کرتے ہیں ، عمران خان جیسے وزیر اعظم کو اپنی گاڑی میں پونے گھنٹے تک ریاض کی سڑکوں پر گھما کر ایران پر حملہ کرنے کی بات کرے گا اور مدد مانگے گا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ سعودی عرب نے کبھی ایران پر حملے کا پروگرام بنایا ہی نہیں۔ سخت مخاصمت کے لیے باوجود دونوں ممالک ایک دوسرے پر حملہ کر ہی نہیں سکتے ۔ یمن جنگ کے معاملے پر سعودی عرب نے مدد ضرور مانگی تھی مگر اس وقت وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جدہ جاکر انہیں قائل کرلیا تھا کہ پاک فوج کو یمن میں داخل کرنا ممکن نہیں تاہم اگر حوثی جنگجوﺅں نے سعودی عرب کی سرحدوں پر حملہ کیا تو ہماری فورسز جواب دینے کے لیے موجود ہوں گی۔ یمن میں سعودی عرب کو ٹریپ کرنا امریکی سازش تھی،جب لڑائی
شروع ہوئی تو القاعدہ کے خلاف کارروائی کے لیے امریکی فوجی یمن کے مختلف مقامات پر جدید اسلحے سمیت موجود تھے مگر حالات خراب ہوتے ہی وہاں سے نکل گئی اور اپنے اسلحے کے ذخائر حوثیوں کے لیے چھوڑ گئی۔ عرب اتحاد نے اس جنگ میں الجھ کر اچھا خاصا نقصان اٹھایا مگر جیسے ہی انہیں یقین ہوا کہ امریکہ ساتھ دینے کے دعوﺅں کے برعکس علاقے میں اپنی بھرپور فوجی موجودگی کے باوجود ایرانی اسلحے کی سپلائی نہیں روک رہا تو اسی وقت جنگ کو لپیٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔ایک موقع پر ٹرمپ نے یہ کہہ کر بھانڈا ہی پھوڑ دیا کہ سعودی عرب اپنی حفاظت کرانا چاہتا ہے تو ہمیں پیسے دے ۔ سعودی عرب اور امارات اسی وقت یمن جنگ سے پیچھے ہٹنا شروع ہوگئے تھے۔ یہ یمن جنگ ہی تھی جس میں مصری فوج کی شمولیت کو امریکہ نے اپنے پوڈل جنرل السیسی کے ذریعے حصہ لینے سے روک دیا تھا۔ ترکی کے طیب اردوان نے اس لڑائی پر سخت برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران آگ کے ساتھ کھیلنے سے باز رہے۔ جس طرح سعودی عرب، ایران پر حملہ نہیں کرنا چاہتا بالکل اسی طرح ایران بھی سعودی عرب پر حملہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ دوسری صورت میں کئی اور ممالک بھی جنگ میں کود سکتے ہیں حتیٰ کہ افغانستان بھی۔ پراکسی وار کی حد تو معاملہ بالکل واضح ہے مگر براہ راست جنگ کا کوئی امکان پہلے تھا نہ اب ہے۔ سعودی حکام ابھی عقل و دانش کے اس مقام پر نہیں پہنچے کہ پاکستان کی فوج کی مدد عمران خان جیسے وزیر اعظم کے ذریعے مانگیں۔ ویسے بھی جب کسی ملک نے دوسرے ملک سے جنگ کرنی ہو پہلے تمام سفارتی چینل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ امریکہ جیسا طاقتور ترین ملک جب افغانستان پر حملہ کرے تو اپنے تمام اتحادیوں سے مشاورت کرتا ہے اور ان کو ساتھ دینے پر آمادہ کرنے کی مشق مکمل کرتا ہے۔ پاک ایران تعلقات کے حوالے ایک واقعہ ہی کافی ہے نواز شریف جیسے کسی حد تک با اختیار وزیر اعظم نے صدر روحانی کو دورے پر بلایا تو اچھے تعلقات کی باتیں اس وقت ایک طرف رہ گئیں جب آرمی چیف راحیل شریف نے ایران کے صدر سے براہ راست ملاقات کرکے پاکستان میں مداخلت کرنے کے شواہد پیش کیے اور بھارتی جاسوس کلبھوشن کی چاہ بہار موجودگی پر بھی تحفظات ظاہر کیے ۔ ذرائع کے حوالے سے اس ملاقات کی خبریں بھی جاری کرائیں۔ ایرانی وفد کے لیے یہ صورتحال بہت غیر متوقع تھی۔ اس لیے انہوں نے میڈیا میں بیان دیا کہ اس قسم کی کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ ایرانی صدر کو اس وقت مزید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا جب آئی ایس پی آر نے اپنا بیان جاری کرکے ساری روداد کی تصدیق کر دی۔ سو فوری نتیجہ یہ نکلا کہ پوری دنیا کی طرح ایران کو بھی پتہ ہے کہ پاکستان میں اختیارات کس کے پاس ہیں اور سعودی عرب تو سب سے زیادہ باخبر ہے۔ عمران خان کی حکومت تو ختم ہوگئی مگر اسٹیبلشنمنٹ کی دو عملی کے سبب اب بھی عمران خان کو ہیرو ثابت کرنے کی ڈیوٹی پر مامور میڈیائی مسخرے جھوٹ پھیلانے کی ڈیوٹی کررہے ہیں۔جنگ اخبار نے خود احساس کیا کہ یہ تحریر محض جھوٹ نہیں بلکہ پاکستان کے سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچانے کی سازش بھی ہے اسی لیے اخبار کے ای ایڈیشن سے یہ تحریر غائب کردی گئی ۔ چونکہ یہ کالم کاغذی صورت میں موجود ہے اس لیے اس کا جواب دینا ضروری تھا تاکہ پاک سعودیہ تعلقات خراب کرنے والے عناصر جو عمران حکومت آنے کے بعد کچھ زیادہ ہی متحرک ہوگئے ہیں کی غلط بیانیوں کا بروقت تدارک کیا جاسکے۔ بنیادی طور دنیا کے دیگر خطوں کی طرح خلیج میں بھی امریکہ کا کردار بہت اہم ہے۔ ملکوں کو ایک دوسرے سے ڈرائے رکھنا اور پھر ان کے وسائل پر ہاتھ صاف کرنا مستقل پالیسی ہے ۔ سعودی عرب اور ایران دونوں اس حقیقت سے پوری طرح آشنا ہیں سو براہ راست جنگ کا امکان صفر تھا، صفر ہے اور آئندہ بھی صفر ہی رہنے کا امکان ہے۔ مسلکی مخاصمت اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی شکایات کے سبب خطے کے مختلف مقامات پر پراکسی وار جاری رہ سکتی ہے۔ ایران پر تو امریکہ نے کبھی حملہ نہیں کیا نہ ہی اسرائیل کو کرنے دیا۔ امریکہ بھی ایران کو ایک حد سے زیادہ کمزور نہیں کرنا چاہتا ۔ خوش فہمیاں اور دعوے اپنی جگہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ یمن جنگ کے تناظر میں ایران زیادہ پر پھیلاتا نظر آیا تو اوپر تلے دو واقعات رونما ہوگئے ۔ ایران نے اپنے علاقے میں امریکہ کا ایک اعلیٰ درجے کا ڈرون طیارہ تباہ کردیا۔ انہی دنوں ایرانی بحریہ نے امریکہ کے چند میرینز کو کچھ وقت کے لیے حراست میں لے لیا ۔ اس موقع پر محسوس کیا گیا کہ اگر جواب نہ دیا گیا تو عرب ممالک میں کمزوری کا تاثر تو جائے گا ہی خود امریکہ کے اندر بھی عوامی دباو بڑھ جائے گا۔ عراق، شام، لبنان، یمن میں کارروائیوں کے حوالے سے ایرانی جنرل قاسم سلمانی سپر ہیرو کا درجہ حاصل کرچکے تھے۔ انہیں ٹارگٹ کے طور پر منتخب کرکے اس وقت نشانہ بنایا گیاجب وہ عراق میں جنگی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے بغداد پہنچنے کے بعد مقامی ملیشیا کمانڈر اور محافظوں کے ساتھ گاڑیوں کے قافلے میں ائر پورٹ سے باہر آرہے تھے ۔ اچانک میزائل آیا اور سب ختم ہوگیا۔ اس کارروائی کے دوران ہی ایرانی حکام کو یہ پیغام پہنچا دیا گیا تھا کہ کسی جوابی کارروائی کی صورت میں جو یقیناً کھلے سمندر میں کھڑے امریکی بحری جہازوں پر میزائل یا ڈرون حملوں کی شکل میں کی جاسکتی تھی، ایران کا پورا نظام لپیٹ دیا جائے گا، مرکزی مذہبی اور حکومتی قیادت کی رہائش گاہوں، پارلیمنٹ سمیت ریاستی عمارتوں اور فوجی ہیڈ کوارٹرز، دفاعی تنصیبات سمیت 30 سے زائد مقامات پر منٹوں میں فُول پروف حملے کے انتظامات مکمل تھے ۔ اس پیغام نے ہوش کو جوش پر غالب کردیا۔ اسرائیل کا معاملہ بھی قابل ذکر ہے اب تو یہ رپورٹس دنیا بھر کے میڈیا پر آچکی ہیں کہ اسرائیلی کمانڈوز تہران کے نواح میں چھاپہ مار ایکشن کے ذریعے ایٹمی تنصیبات میں گھس گئے اور جاتے ہوئے کئی دستاویزات بھی ساتھ لے گئے۔ ایک اور اہم واقعہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے باپ کہلائے جانے والے سائنسدان محسن فخری زادہ کا ہے جنہیں 27 نومبر 2020 کو ایک سیٹلائیٹ مشین گن سے نشانہ بنایا گیا ۔ ایٹمی سائنسدان کی گاڑی بلٹ پروف تھی اور آگے پیچھے کئی محافظ بھی تھے ۔ سیٹلائیٹ سے کنٹرول ہونے والی مشین گن اتنی جدید اور طاقتور تھی کہ محسن فخری زادہ کے ساتھ بیٹھی ان کی اہلیہ کو ایک خراش تک نہیں آئی۔ جیسے ہی آپریشن مکمل ہوا حملہ آوروں نے جو نجانے دنیا کے کس حصے میں موجود تھے مشین گن کو اس چھوٹے ٹرک سمیت ایک دھماکے سے اڑ دیا جس پر اسے نصب کیا گیا تھا ۔یہ تمام کارروائی اسرائیل نے کی جو جنگ چھڑنے کے مترادف تھی مگر معاملات جوں کے توں ہی رہے۔ سادہ سی بات ہے کہ امریکہ ہو یا اسرائیل کسی کی طاقت سے مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں مگر غلط اندازہ لگانا بربادی کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ دنیا کو امن اور ہم آھنگی کی ضرورت ہے۔ جھوٹ لکھنے اور من گھڑت کہانیاں پھیلانے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے ۔ گھٹیا سیاسی مقاصد اور عدم استحکام کا ماحول بنائے رکھنے کے لیے ملکی مفاد کے خلاف میڈیا کے ذریعے وار کرنے کا جو فیشن چل پڑا ہے اسے جلد از جلد روکنا ہوگا۔ اگرچہ دنوں ممالک سے تعلقات کی نوعیت مختلف ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے سعودی عرب اور ایران دونوں سے اچھے تعلقات ہیں ۔ کسی کو موقع نہیں دیا جانا چاہئے کہ وہ ان میں کوئی دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کرے۔

تبصرے بند ہیں.