موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی سیاسی حیثیت

92

اس وقت پاکستان کی سیاست میں جو تیزی اور ہلچل دیکھنے میں آ رہی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک طرف متحدہ قومی موومنٹ میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کی انتخابی سیاست مستحکم ہوتی نظر آتی ہے ۔ جماعت اسلامی جو منظر سے تقریباً آﺅٹ ہی ہو چکی تھی ایک مرتبہ پھر سے سیاسی سکرین پر جلوہ افروز ہورہی ہے اور مسلم لیگ (ق) کے پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہو نے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں مختلف پارٹیاں سیاسی استحکام حاصل کر رہی ہیں وہیں کچھ پارٹیوں کی سیاسی قد وقامت اور عوام میں ان کی مقبولیت زوال پذیر بھی ہے۔ ان میں سر فہرست پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان تحریک انصاف ہیں، جنہیں مختلف سیاسی غلطیوں اور اپنے قائدین کی حرکتوں اور فیصلوں کی وجہ سے آج عوام میں وہ پذیرائی حاصل نہیں جو کچھ عرصہ پہلے تک تھی۔
ویسے تو وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں کی مقبولت کے گراف کا اوپر نیچے ہونا سیاسی عمل کا حصہ لیکن اس وقت پاکستان تحریک انصاف اس صورتحال کو کچھ زیادہ ہی گہرائی سے اس لیے محسوس کر رہی ہے کیونکہ سیاسی عمل میں یہ ان کا پہلا تجربہ ہے۔ اس سے قبل تو یہ جانے بغیر کہ یہ سب کیسے ہو رہا ہے انہیں سیاسی عمل میں اندھا دھند کامیابیوں کی عادت پڑی ہوئی تھی۔
جہاںتک بات ہے پارٹی مقبولیت میں کمی ہونے اور انتخابی سیاست کمزور ہونے کی تویہ نواز لیگ اور پیپلزپارٹی کے لیے بالکل بھی کوئی نئی چیز نہیں ۔ ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں بھی اس نواز لیگ کی مقبولیت اس حد تک کم ہوگئی تھی کہ سیاسی پنڈت تو یہاں تک پیش گوئی کر رہے تھے کہ اب اس پارٹی کا خاتمہ بالخیر ہی سمجھیں۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ نہ صرف یہ پارٹی دوباہ ابھری بلکہ حکومت بنانے میں بھی کامیاب رہی۔پیپلز پارٹی تو خیر اس سے بھی کہیں زیادہ سیاسی اتار چڑھاو دیکھ چکی ہے۔ اور دو ڈکٹیٹروں اور مختلف سیاسی مخالفین کی حکومتوں کا مقابلہ کرنے کے بعد آج ہر قسم کے مدوجزر کا سامنا کرنے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔
اگر پاکستان تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان کی ہر لمحہ گرتی ہوئی ساکھ کی وجوہات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شائد(۱) وہ بنیادی طور پر کبھی عوام میں اس قدر مقبول نہ تھے کہ جس قدر ہمیں سیاسی منظر نامہ پر دکھانے کی کوشش کی گئی۔ (۲) پارٹی اور اسکے قائداس عزت اور مقام کی مناسب طریقے سے حفاظت ہی نہ کر سکے جو انہیں جیسے تیسے کر کے دلا دیا گیا تھا۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سال 2018 کے عام انتخابات سے قبل، ایک منتخب سیاسی حکومت کو غیر سیاسی طریقوں سے ہر ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ حتیٰ کہ اس کے قائد کو وزارت عظمیٰ اور پارٹی قیادت تک سے برطرف کر دیا گیا، پھر مختلف سیاسی پارٹیوں سے الیکٹیبلزکو گھیر گھار کے (بلکہ اگر یہاں ہانکنے کا لفظ استعمال کیا جائے تو زیادہ بہتر رہے گا) پاکستان تحریک انصاف میں شامل کیا گیا،میڈیا پر عمران خان صاحب کو بے شمار اور غیر ضروری کوریج دلائی گئی، پھر عام انتخابات میں ان کی ہر جائز اور
ناجائز طریقے سے سپورٹ کی گئی ، اس کے باوجود حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ آنے کے بعد تمام تر سرپرستی کے بعد مرکز اور دو صوبوں میں ان کی حکومت تک بنوا دی گئی لیکن عمران خان صاحب اس تمام صورتحال کا فائدہ اٹھانے میں بری طرح ناکام رہے اور کچھ کر دکھانے کا جو ایک موقع ملا تھا اسے کسی مثبت انداز میں استعمال کرنے کے بجائے صرف نفرت اور انتقام کی سیاست کی نذر کر دیا۔
عمران خان صاحب کی بھرپور انداز میں سپورٹ اور سر پرستی کرنے والوں نے بھی جب دیکھا کہ خان صاحب ان کی تمام تر سپورٹ کے باوجود ملک و قوم کے لیے کچھ بھی مثبت کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ سی پیک جیسے ترقی کے منصوبے کو بریک لگ گئی ہے، ملک کی اقتصادی صورتحال رل گئی ہے، غیر ملکی قرضے تقریباً دو گنا ہو گئے ہیں، مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے اورروزگار کے مواقع سکڑ گئے ہیں تو انہیں بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے غیر سیاسی ہونے کا فیصلہ کیا۔بس اس چھتری کا ہٹنا تھا کہ خان صاحب کی صلاحیت اور مقبولیت کا پول کھل کر سب کے سامنے آ گیا۔
عمران خان صاحب کے سر سے اس غیبی سپورٹ کی چھتری کیا ہٹی گویا ان کے پاﺅں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی۔ سب سے پہلے ایک مکمل طور پر جمہوری طریقے سے ان کی حکومت کی چھٹی ہوگئی۔ پھر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے اور بقول ان کے امپورٹڈ حکومت کو نکال باہر کرنے کے تمام دعووں سے بھی ہوا نکل گئی، ان کی جانب سے پاکستان کو ڈیفالٹ کرانے کی تمام تر کوششیں بھی ناکام ہوئیں، اجتماعات میں عوام کی دلچسپی اور شمولیت کم ہوتی چلی گئی، قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا ٹوٹکا بھی کام نہ آیا اور اب موصوف نے آخری حربہ کے طور پر پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرا دی ہیں اور قوی امکان ہے کہ وہ عنقریب اس فیصلہ پر بھی پشیمان نظر آئیں گے۔
کچھ تجزیہ کار اور عمران خان کے وفادار سیاسی کارکن صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اس عمل کو بہت بڑی سیاسی چال قرار دے رہے ہیں لیکن شائد حقیقت میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ درحقیقت اپنے فیصلوں کی وجہ سے عمران خان نے مستقبل میں قائم ہونے والے عبوری سیٹ اپ سے اپنے آپ کو بہت دورکر لیا ہے۔
خان صاحب نے پہلے قومی اسمبلی سے اپنی پارٹی کو مستعفی کرایا پھر اپنے اس فیصلے پر مصر رہے اور سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے گیارہ استعفے قبول کیے جانے کے بعد ضمنی الیکشن میں بھی حصہ لیتے رہے۔ جب غلطی کا احساس ہوا اورانہوں نے قومی اسمبلی میں واپس جانے کا فیصلہ کیا ( واضح رہے کہ موصوف ایک مرتبہ پہلے بھی قومی اسمبلی میں اس قسم کی شرمندگی اٹھا چکے ہیں) تو قومی اسمبلی کے سپیکر نے مزیدپینتیس اراکین کے استعفے قبول کر لیے۔ گویا عمران خان صاحب کی سیاسی چال ایک مرتبہ پھر سے مات کھا گئی ۔
سندھ میںہونے والے بلدیاتی انتخابات نے پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کا بھانڈا بھی پھوڑ دیا ہے۔ یعنی اگراس وقت ہم عمران خان صاحب اور پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کا جمع تفریق دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ موجودہ سیٹ اپ میں قومی اسمبلی کی سیٹوں سے بھی محروم ہو چکے ہیں، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں بھی ہاتھ سے گئیں اور مستقبل کی سیاست میں ان کا کوئی مقام نظر نہیں آتا یعنی سیاست سے مکمل آﺅٹ۔ اس قسم کے سیاسی ویژن اور فیصلوں کے بعد میرا تو خان صاحب کو مشورہ ہو گا کہ وہ سیاست کو رہنے ہی دیں اور کرکٹ کمنٹری پر زیادہ توجہ دیں۔

تبصرے بند ہیں.