کسے وکیل کریں۔۔کس سے منصفی چاہیں

105

کیا زمین کا یہ ٹکڑا وہی ہے جس کا اقبالؒ نے خواب دیکھا تھا؟۔ کیا یہ اسلام کی وہی تجربہ گاہ ہے جو قائدِاعظم کی کاوشوں کا ثمر ہے؟۔ کیا یہ واقعی اسلامی جمہوریہ ہے جہاں اسلام ہے نہ جمہوریت؟۔ جس دھرتی کے ہم باسی ہیں وہاں تو قرض کی مے پیتے اور کشکولِ گدائی تھامے حکمران نظر آتے ہیںجنہوں نے ثابت کر دیا کہ نخلِ اُمید پر خزاؤں کے ڈیرے ہی رہیں گے۔ کاسہ اُمید کی کرچیاں سمیٹتے دھرتی کے گونگے مکینوں پر سکوتِ نیکراں طاری مگر اندر ہی اندر پکتا ہوا لاوہ فشارِ خوں بالا کرتا ہوا جو کبھی بھی اور کسی لمحے بھی المیے کو جنم دے سکتا ہے۔ سات عشروں سے بھٹکتے راہی صحراؤں کی پیاس لیے تلاشِ منزل میں ٹھوکریں کھاتے ہوئے مگر نشانِ منزل اُفق کے اُس پار جہاں گہری دھند کے ڈیرے۔ رگ وپے میں اُترتی بیزاری نے جینے کی تمنا چھین لی جس نے نفرتوں اور کدورتوں کو جنم دیا۔ اِنہی کدورتوں کے سبب ہمارا ایک بازو الگ ہوا۔ ہم 16 دسمبر 1971ءکی اُس ٹھنڈی دھوپ کو بھول نہیں پائے جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری عظمتوں کا جنازہ اُٹھا۔ اب مزید دُکھ سہنے کی سکت نہیں۔ حالات مگر اُسی جانب رواں۔ یہ الگ بات کہ ہمارے بزعمِ خویش رَہنماؤں کو اِس کااحساس نہ ادراک۔ وہ تو بس کرسی کی تمنا میں مگن، قوم جائے بھاڑ میں۔
خونم خون خواہشوں کے درمیاں ایک آوازِ جرس، ایک بانگِ درا کہ موسمِ گُل کے آرزو مند ہمارے ساتھ چلیں۔ تب مجبورو مقہوراں نے یہ جانا کہ مسیحائی کا وقت آن پہنچا۔پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ جسدِ سیاست کی رگوں میں دوڑتے لہو کی تُندی رفعتوں کو چھونے لگی اوراُس کے خلاف لکھنے والوں کا قلم تھرتھرانے لگا۔ زورآوروں نے اُس کے دعووں ، وعدوں کو دیکھ کر اُس کی پُشت پناہی اپنا فرضِ عین سمجھا اور دامے درہمے، قدمے سخنے ساتھ ہولیے۔ اہلِ فکرونظر البتہ گریزاں کہ اُس کے دعوے اور وعدے ناقابلِ یقیں مگر جذبات کے اُبلتے دریاؤں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اُنہوں نے بھی خاموشی کی بُکل مار لی۔ یہ الگ داستاں کہ اُس کے سر پر اقتدار کا ہُما کیسے بٹھایا گیا اور زورآوروں کو کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے۔ زورآوروں کو بہت جلدادراک ہوگیا کہ وہ لنگڑے گھوڑے پر داؤ لگا بیٹھے۔ اِس کے باوجود بھی اُنہوں نے کسی موہوم اُمید کے سہارے عدلیہ سمیت سبھی اداروں کو اُس کی پُشت پر لا کھڑا کیا۔ وہ کھیلن کو چاند مانگتا رہا اور تعمیلِ ارشاد ہوتی رہی۔ اُس کے اشارہ¿ اَبرو سے عقوبت خانے متحارب گروہوں سے اَٹ گئے مگر پھر بھی اُس کی نرگسیت کو تسکین نہ ہوئی۔ لاڈلا یہی چاہتا تھا کہ ”گلیاں ہو جان سُنجیاں وِچ مرزا یار پھرے“۔ وہ کسی سے ہاتھ ملانا بھی اپنی توہین قرار دیتا رہا جو سیاسی حرکیات میں ناقابلِ فہم، سُمِ قاتل کہ نفرت وکدورت کے ریگزاروں میں اَبرِ نیساں کی پھوار ناممکن۔ اُس کے ساڑھے تین سالہ دَور میں معیشت کا پہیہ رُک گیا، سی پیک پر کام بند ہواوطنِ عزیز اقوامِ عالم میں تنہا ہوااور مہنگائی کے عفریت نے جینا محال کر دیا۔اپنے دَورِ اقتدار میں اُس نے 20 ہزار ارب قرضہ لیاجو ارضِ وطن کے کل قرضے کا 70 فیصد تھا۔ وہ ”گھبرانا نہیں“ کا درس دیتا رہااور قوم بھوکوں مرتی رہی۔ جمہور کی یہ حالت کہ کسی لب پر مسکان ترازو نہیں۔ بے یقینی کے بھنور میں ڈُبکیاں کھاتی ہوئی قوم کے لبوں پر یہی آہ کہ
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی ، منصف بھی
کسے وکیل کریں ، کس سے منصفی چاہیں
جب ہر کہ ومہ کی مہربانوں پر اُنگلیاں اُٹھنے لگیں اور تنقید وتعریض کی چبھن نے اُنہیں بے کَل کیاتو مراجعت کا فیصلہ ہوا اور دیر آید درست آید کے مصداق اعلان کر دیا گیا ”ہم نیوٹرل ہیں“۔مگر یہ اعلان لاڈلے کو ناگوار گزرا اور اُس نے کہہ دیا ”نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے“( نیوٹرل کی یہ تعریف صرف ”لغتِ عمرانیہ“ میں ملے گی اور کہیں نہیں)۔ آگ اُگلتے لاڈلے کی توپوں کا رُخ اپنے ہی محسنوں کی طرف ہو گیا۔ وہ اُنہیں کبھی میر جعفروصادق، کبھی جانور اور کبھی غدار کہتا رہا اور اپنے آپ کو نیکی کا سمبل قرار دیتے ہوئے اُنہیںساتھ دینے کی تلقین کرتا رہا لیکن اُدھر گمبھیر خاموشی کے ڈیرے۔ اُسی کے دَور میں غیرپارلیمانی الفاظ کا بے محابا استعمال شروع ہو ا جو تاحال جاری ہے۔
جب زورآور نیوٹرل ہوئے تو اتحادی اپوزیشن نے آئینِ پاکستان کے عین مطابق تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے لاڈلے کو چلتا کیا۔ تب سے اب تک اُسے ایک پَل بھی چین نہیں۔ وہ اپنی حکومت چھِن جانے کا الزام کبھی امریکہ پر دھرتا ہے تو کبھی زورآوروں کو سازشی اور غدار قرار دیتا ہے۔ اُس کا یہ سفر تاحال جاری ہے۔ وہ اِس سے بے نیاز کہ پاکستان سوئے قعرِ ڈیفالٹ رواں ہے۔ جب ریاستِ مدینہ کی تشکیل کے داعی کی آڈیوز لیک ہوئیں تو اُس نے سورة الحجرات کی آیت 12 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو گناہوں کی پردہ پوشی کا حکم دیتا ہے۔ عرض ہے کہ عیب اور گناہ کا فرق شاید وہ جانتا ہی نہیں۔ رَبِ لَم یزل ستار العیوب ہے۔ جس کا مطلب عیبوں کو چھپانے والا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ”جو بندہ کسی دوسرے کے عیب دنیا میں چھپاتا ہے، اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اُس کے عیب چھپائے گا“۔ گناہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کو کہا جاتا ہے۔ یعنی جن کاموں سے اللہ نے منع کیا ہو اُنہیں قصداََ سرانجام دینا۔ اِس گناہ کی کوئی معافی نہیں۔ یہی نہیں بلکہ گناہ کرنے والے کے لیے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے۔ سورة الحجرات آیت 12 میں ”وَلَا تَجَسَّسُوا“ کا حکم ہوا ہے جس کا مطلب عیب جاننے کی جستجو نہ کرنا ہے۔ جب رَبِ لَم یزل نے ہمارے بیشمار عیبوں پر پردہ ڈال رکھا ہے تو پھر ہمیں نہیں چاہیے کہ دوسروں کے ن±قص اور عیب تلاش کریں۔ رہا گناہوں کا معاملہ تو تاریخِ اسلام ایسے واقعات سے بھری ہوئی ہے جن میں گنہگاروں کو سزا دی گئی۔ شرعی قوانین میں ”جرم وسزا“ کا باقاعدہ ضابطہ مقرر ہے۔ اِس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ گنہگاروں کی پردہ پوشی کی جائے۔
اتحادیوں نے حقِ حکمرانی تو حاصل کر لیا مگر قوم کی حالت پہلے سے بَدتر۔ جینا آرزوو¿ں کے زندہ رہنے کا نام ہے مگرقوم کی آرزوئیںتاحال اشرافیہ کے خونیں جبڑوں میں۔ یہ بجا کہ لاڈلے کا تخیلاتی وتصوراتی انقلاب محض سراب مگر اتحادیوں میں بھی خامیاں بیشمار اور خرابیاں قطار اندر قطار۔ بھان متی کے اِس کنبے کی حالت یہ کہ ”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں“۔ المیہ یہ کہ ہم نے خودبینی کا ”روگ“ کبھی پالا ہی نہیں۔ جب خودبینی نہیں تو خُدا بینی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خُدا بینی سے عاری اِس ٹولے کے ہاں بھی صرف اقتدار کی خواہش انگڑائیاں لیتی ہوئی، بدلا کچھ بھی نہیں۔ یہی نہیں بلکہ حالات پہلے سے بھی بدتر اور جینے کی ہر راہ مسدود۔ اتحادیوں کے اِس جواز کو بھلا کون تسلیم کرے گا کہ پچھلی حکومت اُن کی راہ میں بارودی سرنگیں بچھا کر گئی ہے۔ یہ سب کچھ تو لاڈلا بھی اپنے دَورِ حکومت میں کہتا رہا۔ بھوکوں مرتی قوم کو ،معاشی اشاریوں کی نہیں آتشِ شکم کی سیری چاہیے۔ مجبوروں مقہوروں کی معیشت تو پیٹ سے شروع ہو کر پیٹ پر ختم ہو جاتی ہے جس میں یہ حکومت مکمل طور پر ناکام ۔ قوم سوال کرتی ہے کہ 77 وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج کے باوجود حکمرانوں کا دفترِ عمل کورا کیوں ہے؟۔ اگر حالات جوں کے توں رہنے تھے تو پھر لاڈلے کی حکومت میں کیا خرابی تھی؟۔ لاڈلا بھی گھبرانا نہیں کا درس دیتا رہا اور موجودہ حکمرانوں کا بھی وعدہ فردا اور طفل تسلیاں۔ اِس لیے کہنا ہی پڑتا ہے کہ ”اِس حمام میں سبھی ننگے ہیں“۔

تبصرے بند ہیں.