الیکشن نہیں احتساب

11

سوچتا ہوں کہ جب اللہ ہی اُن لوگوں کی مدد نہیں کرتا جو اپنی مدد آپ نہیں کرتے تو پھر کس آس پر روزیہ سوچ کر لکھنے بیٹھ جاتا ہوںکہ ایک دن یہ ہجوم ضرور قوم بنے گا؟ اور جب چار الہامی کتابیں اور انگنت صحیفے انسان کو انسان نہ بنا سکے تو پھر کسی بھی تیس مار خان کی کیا اوقات رہ جاتی ہے ؟مصنوعی عقل دنیا بھر کے مصنوعی انسانوں پر راج کر رہی ہے ورنہ اگر حقیقی عقل اور حقیقی انسان ہوتے تویہ دنیا ایسی نہ ہوتی جیسی میں اور آپ دیکھ رہے ہیں ۔کہیں تو کچھ خراب ہے ¾ کہیں توکچھ” رولا“ ہے مگر ہم سب اپنا اپنا گریبان دیکھے بغیر بس لکھتے چلے جا رہے ہیں ¾ حقیت میں ہم ہی وہ اونٹ ہیں جو سیاسی وابستگیوں اور روز گارکے پہاڑ کے نیچے آ چکے ہیں لیکن احساس ہمیں اب بھی نہیں ہو رہا کہ پہاڑ بڑا اور ہم چھوٹے ہیں ۔ہم محنت کشوں کی اولاد تھے لیکن شاید ڈی ۔این ۔اے جمپ کرگیا ہے کہ بھکاریوں جیسی زندگی گزار کر خود کو فقیر سمجھ رہے ہیں ۔حالانکہ ہم نے خواہشات کو دبا رکھا ہے انہیں ختم نہیں کیا یا پھر روزانہ اپنی خواہشات کا خون ہونے پر ہمارے دل کی شام ِ غریباں میں روز زنجیر زنی ہوتی ہے مگر آواز ہے کے خود کو بھی سنائی نہیں دیتی ۔ برادرام عباس تابش نے کیا خو ب کہا تھا کہ
میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
چور وںکے ہم طرفدار ¾ ڈاکووں کے ہمدرد ¾ لٹیروں کے ثناخواں اور بدمعاشوں کے ہمنوا ہیں ۔یہی تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے چور کو چور لکھنا اور کہنا چھوڑ دیا ہے ورنہ ابھی کل کی بات ہے جس سرکاری ملازم کی اخراجات اُس کی تنخواہ سے میل نہیں کھاتے تھے محلے بھر میں اُسے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا لیکن اب تو دیانتدار آدمی کو گھر سے باہر توچھوڑیں بیوی اور قریبی رشتے دار ہی بیوقوف سمجھتے ہیں۔بے رحم احتساب کیے بغیر یہ ریاست اب چل نہیں سکتی ہے ¾ ہماری ریاست ڈیفالٹ ہونے کے نزدیک پہنچ چکی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہمارے خوشحال آقا برے وقت میں ہمارا ساتھ دیں گے تو ہمیں ایسی تمام خوش فہمیوں سے نکل آنا چاہیے اور فوری طور پر وہ روپیہ جو کرپشن کے ذریعے کہیں بھی گھسا ہوا ہے نکال لینا چاہیے اور جو اِس کے رستے میں کسی قسم کی قانونی دیوار کھڑی کرتا ہے اُسے بلا امتیاز گرفتارکرلینا چاہے کہ موجودہ حالات میں کرپٹ لوگوں کا ساتھ دینا بھی ملک و قوم کے ساتھ غداری کے مترادف ہے ۔سب سے پہلے پاکستان کو بچائیں اگر یہ ہے تو جمہوریت کا تجربہ بھی کامیاب ہو جائے گا ہم تاریخ کے بدترین کرپٹ لوگوں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں جن کے نزدیک قوم ¾ ملک ¾ غیرت ¾دیانتدار ¾حب الوطنی جیسے الفاظ انتہائی بے معنی اور بے وقعت ہو چکے ہیں ۔لاکھ روپے نے دنیا پر ہزاروں سال حکومت کی ہے پرانی کتابوں میں لاکھ پتیوں کا ذکر ہی ملتا ہے لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ سامنے آیا اور ذلیل و خوار ہو گیا شہر کے جیب تراش اور جوا کرانے والے کروڑپتی بن چکے ہیں اِن کے پاس کہاں سے روپیہ آیا ؟ نہ کوئی بتانے کیلئے تیار ہے ا ور نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے بلکہ رضاکارانہ طور پر ٹیکس کے دائرے میں شامل ہو کر کوئی بھی شخص اپنا داغدار ماضی روشن کرسکتا ہے ۔
عام آدمی تو آدمی ہی نہیں رہا ¾ زندہ رہنے کے تمام اسباب اہلِ ہوس کے در پر سجد ہ ریز ہیں ۔بچوں کی بھوک کسی سے بھی نہیں دیکھی جاتی ¾ جو حالات کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتے وہ بچوں سمیت خود کشی کرلیتے ہیں اور جن کے اندر حوصلہ ہو تا ہے وہ لوٹ مار کا کوئی بھی ذریعہ ڈھونڈ لیتے ہیں اور کسی دن پولیس مقابلے میں پار ہو جاتے ہیں۔ تھر میں مرنے والے بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اور پاکستان کی نوکرشاہی ¾ جاگیر دار ¾ وڈیرے ¾ سرمایہ دار ¾ گدی نشین ¾ ریاستی ملاں اور اسٹیبلشمنٹ کے کرتا دھرتا کھا کھا کر انگنت بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں ۔وزیر وں ¾مشیروں کو کوئی پوچھنے والا نہیں ¾ کل تک لاہور کے فاقہ کش ¾ایم پی اے اور ایم این اے بن کر اربوں بنا چکے ہیں لیکن کوئی انہیں ہاتھ ڈالنے کیلئے تیار نہیں اوراگر کہیں سے اِن پر ہاتھ ڈالنے کی آواز نکلتی ہے تو سب ڈکیت یک زبان ہو کراتنا شور مچا رہے ہیں کہ وہ آواز بھی دبتی نظر آرہی ہے ۔آئین اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے شورمیں غریبوں کی آہیں اور ہچکیاں دم توڑ رہی ہیں لیکن جمہوریت ¾آئین اور پارلیمنٹ کو ہر جرم کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی ہے ۔کیا پاکستان کا آئین نہیں کہتا کہ قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا تو پھر یہ نج کاری کیا ہے ؟ جب حاکمیت کا اختیار اللہ کی ذات کو ہے تو پھر سب کچھ اللہ کا ہے اور بندہ اُس کا نائب ہو نے کے ناتے اُس کے دئیے ہوئے اختیار استعمال کرتا ہے ۔اب آپ بتائیں قومی خزانہ لوٹنے کی اجازت کس آئین نے دی ہے ؟ کیا اسلامی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ موجود ہے کہ مدینے میں کسی شخص نے بھوک کے ہاتھوں بچوں سمیت خود کشی کی ہو ؟ کیا رسالتماب کی حیات طیبہ سے کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ کسی نے مال غنیمت میں خرد برد کیا ہو اور بعدازاں وہ اپنے عہدے پررہا ہو ؟ اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تو یہ آئین بھی جھوٹ اور مکرکا پلند ہ ہے جو بالا دست طبقات نے غریب ¾کمزور اور بزدل لوگوں پر حکمرانی کرنے کیلئے بنا رکھا ہے ۔اور پھر یہ آئین تو ایک ایسی اسمبلی نے بنایا تھا جس کے پاس یہ آئین بنانے کا اختیار ہی نہیں تھا کیونکہ جن انتخابات کے نتیجہ میں وہ اسمبلی معرض وجود میں آئی تھی انہی انتخابات کے نتیجہ میں سقوط پاکستان ہو ا تھا ۔تو پھر اگلا سوال یہ ہے کہ کس آئین کے تحت ذوالفقار علی بھٹو اور مغربی پاکستان سے جیتنے والوں کی اسمبلی کو تسلیم کرکے آئین بنانے کی اجازت دی گئی تھی جبکہ الیکشن کے نتیجہ میں اکثریت حاصل کرنے والے تو آ پ سے الگ ہو چکے تھے ۔شہید ذوالفقار علی بھٹو سمیت کسی شخص کے پاس آئین بنانے کا اختیار موجود نہ تھا کیونکہ جو مینڈیٹ انہیں ملا تھا اُس ریاست کا جغرافیہ ¾ آبادی اورحکومت سب کچھ بدل چکا تھا ۔ذہنی مریضوں کے ٹولے ہیں جو حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھے کا قوم کو آہستہ آہستہ اُس آتش فشاں کی طرف لے کر جا رہے ہیں جو عنقریب پھٹنے کو ہے مگرہم ہیں کہ ہمیں ابھی کھیل کود سے فرصت نہیں ۔
اوّل تو آئین ِپاکستان میں الیکشن کی مدت لکھی ہوئی ہے۔ گزشتہ بیس سال میں پرویز مشرف کے دور سے شروع ہونے والی پارلیمنٹ ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ اپنا وقت پور ا کر رہی ہے ۔ رہی بات وزراءاعظم کے بدلنے کی تو فرد کے بدلنے سے کیا جماعت کا بنیادی فلسفہ بھی بدل جاتا ہے ؟ اگر ایسا ہے تو آپ کو شخصی سیاسی جماعتیں نہیں بنانی چاہئیں۔ ابھی کل کی بات ہے نواز شریف کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کیا گیا لیکن مسلم لیگ ن نے اپنی مدت پوری کی۔ اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی کے جانے پر بھی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی رہی اور اُس سے
پہلے جمالی صاحب کو فارغ کیا گیا لیکن قاف لیگ نے اقتدار کا دورانیہ پورا کیا ۔ اصل میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ایسا نہیں ہوا وہ ایک عدمِ اعتماد کے نتیجہ میں فارغ ہوئے ہیں اورعمران نیازی ملک کے وزیر اعظم نہیں رہے اب تحریک انصا ف کے پاس اتنے ووٹ نہیں کہ وہ عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم بنا سکیں سوانہوں نے پہلے اسے امریکی سازش ¾ پھر اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی قرار دیا لیکن بعد ازاں اپنے تمام بیانیوں سے مکر گئی ۔عمران خان عمر بھر نیوٹرل ایمپائرنگ کا کریڈٹ لیتا رہا ہے لیکن اس وقت اس کی حالت ایسی ہے کہ وہ کلین بولڈ ہو کر کریز پر کھڑا ہے اور چاہتا ہے کہ ایمپائر یا تو اپنا فیصلہ واپس لے یا پھر میچ نئے سرے سے شروع کیا جائے لیکن یہ ممکن نہیں ۔ ایمپائر اپنا فیصلہ بدلنے کیلئے تیار نہیں ۔تھرڈ ایمپائر کے پاس فیصلہ جانا نہیں اور میچ دوبارہ اگلی سیریز میں ہو گا سوعمران خان کو اچھے کھلاڑیوں کی طرح الیکشن کی تیاری اور وقت کا انتظار کرنا چاہیے لیکن ایک اعلانیہ بتا دیتا ہوں کہ الیکشن اس ملک کے مسائل کا حل ہی نہیں کیونکہ پاکستان ٹوٹنے سے لے کر اب تک گیارہ الیکشن ہو چکے ہیں اور نتیجہ صفر ہے سو نئے الیکشن کا انجام بھی پہلے سے مختلف نہیں ہو گا۔ اس بار الیکشن سے پہلے ایک بے رحم احتساب کی نئی روایت کو جنم دیا جائے تاکہ پرانے چور اور ڈاکو الیکشن کے وقت جیلوں میں ہوں اور عوام کے پاس کم از کم ووٹ دینے کیلئے بہتر چوائس کے علاوہ نئے امیدواروں پر احتساب کی تلوار بھی لٹک رہی ہو اور اگلے پانچ سال وہ لوٹ مارکے بجائے ملکی ترقی پر توجہ دیں۔ میں نے سرکاری ملازمت صرف اس لیے نہیں کی تھی کہ میں بہت چھوٹی عمر میں یہ بات سمجھ گیا تھا کہ اس ملک کو کلروں کی نہیں سیاسی ورکروں کی ضرورت ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں سیاسی ورکر پیدا ہی نہیں کرتیں اورجن کو وہ سیاسی ورکرسمجھتی ہیں اُن کو اپنے شہر کا جغرافیہ بھی مکمل معلوم نہیں ہوتا چہ جائیکہ وہ عالمی سیاست یا ملکی حالات بارے مکمل باخبر ہوں ۔”آوے ای آوے “اور” جاوے ای جاوے “کا نعرہ جو جتنی بلند آواز میں لگا سکتا ہے وہی حقیقی سیاسی ورکر ہے اور انہی چھوٹے سروں والے چوہوں کے بل بوتے پر تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے نعرے لگوا کر سیاسی دکان چمکا رہے ہیں اورجہاں تک پاکستان کی بات ہے تو وہ اپنے حقیقی بیٹوں کا منتظرہے جو مجھے یقین ہے کہ ایک دن زمین پھاڑ کر نکلیں گے کہ مسلسل دکھ اوربھوک انسان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے ۔مسائل جب پرچی سے حل نہ ہوں تو برچھی سے حل ہوتے ہیں یہی تاریخ کا سبق ہے۔

تبصرے بند ہیں.