آج کل ہمارے حساس قومی معاملات سیاسی نا بالغوں کے ہتھے چڑھے ہوئے ہیں اور اس میں پیش پیش مسلم لیگ نواز کی ازخود وزرات عظمیٰ اور پارٹی صدارت کی امیدوار سب سے آگے ہیں جو فرط جذبات میں اپنے ہی چچا وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو خاطر میں نہیں لاتیں۔
دیکھا جائے تو ان کی شدید خواہش ہے کہ چچا شہباز شریف کی بطور وزیر اعظم اور پارٹی صدر کی جگہ اب لیں کہ تب لیں۔ اس مہم میں ان کے درباری صحافی بھی فیڈڈ سوال کر کے انہیں محظوظ کرتے رہتے ہیں اور وہ بھی شرمندگی کے بجائے خوش ہوتی ہیں اس سے انکے سیاسی آئی کیو کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نیشنل سکیورٹی بریچ سے متعلق وزیر اعظم ہاؤس کی آڈیو ریکارڈنگ کا معاملہ ہو یا سائفر کی گمشدگی کا یہ ہر حساس معاملے پر بغیر کسی ریسرچ اور علم کے بے سروپا گھنٹوں صرف بول کر معاملات کو مزید پیچیدہ کر رہی ہیں۔ جب کسی سینئر مسلم لیگی کی توجہ اس طرف دلائی جائے تو کہا جاتا ہے نیٹ پریکٹس کر رہی ہیں دھیرے دھیرے سیکھ جائیں گی۔
جبکہ دوسرا سیاسی نابالغ بھی بغیر کسی سیاسی جدوجہد کے وراثت کے کھاتے میں سیاست میں وارد ہوا اور ہوتے ہی وزرات عظمیٰ کا ازخود وزیر اعظم کا امیدوار بن گیا جس کی کوئی کل ہی سیدھی نہیں۔ اس کا صوبہ سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور وہ سرکاری خرچے پر دنیا کی سیاحت کو نکلا ہوا ہے۔
ہمارے ملک کی سب سے زیادہ پروڈکشن نت نئے ایشوز کی ہوتی ہے۔ ایک ختم ہوتا نہیں تو دوسرا آ جاتا ہے اور اس طرح پہلا بھول کر ہم نئے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں۔ کئی ایشوز قومی اہمیت کے ہوتے ہیں لیکن ایشوز کی اس نفسا نفسی میں ہم انہیں بھول جاتے ہیں۔ بلکہ حکومتیں نت نئے ایشوز اس لیے بھی کھڑے کرتی ہیں کہ اصل ایشوز سے توجہ ہٹ جائے۔ جیسے آج سے ایک ہفتہ پہلے دیکھ لیں سیلاب زدگان کی بحالی ہمارا ایشو تھا اور پورا میڈیا اس پر توجہ دے رہا تھا ان کی حالت زار بتانے کے ساتھ ہی حکومت کو جھنجوڑا جا رہا تھا کہ متاثرین امداد سے محروم ہیں آخر اربوں روپے کی امداد کہاں گئی۔ میڈیا اربوں روپے کی امداد کی منصفانہ تقسیم پر بھی سوالات اٹھا رہا تھا اور ایسا
سب سے زیادہ سندھ میں ہو رہا تھا۔ اس سے یقیناً حکومت کی سبکی ہو رہی تھی اس سے بچنے کے لیے اچانک آڈیو ویڈیو لیکس کا شوشا کھڑا کیا گیا۔ اسی نفسا نفسی میں بلاول زرداری بھی سرکاری خرچ پر دنیا کی یاترا کے لیے نکل لیے۔ جب آڈیو ویڈیو لیکس کا شور دبنے لگا تو بدنام زمانہ سائفر کی چوری کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ یہ بھی تماشا تھا کہ قریباً چھ ماہ وزیر اعظم
ہاؤس قیام کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کو پتہ چلا کہ ان کے گھر چوری ہو گئی ہے اور چور ان کی قیمتی ترین چیز ”سائفر“ لے گئے ہیں جس پر انہوں نے سیاسی رنگ بازی کرنا تھی۔ اس چوری کا الزام بھی اس سابقہ وزیر اعظم پر لگا دیا گیا جو 6 ماہ پہلے وزیر اعظم ہاؤس چھوڑ چکا تھا۔ یہ علیحدہ سوال ہے کہ جس وزیر اعظم کو گھر کی چوری کا 6 ماہ بعد پتہ چلا ہو اس سے ملک چلانے کی کیا امید
رکھی جا سکتی ہے۔ پھر دونوں جماعتوں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کی آڈیو ویڈیو لیکس پر سیاسی نابالغ مریم نواز نے اس کا الزام بھی عمران خان پر دھر دیا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کا قیام اب وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں۔ ویسے اگر مریم نواز کے الزام کو دیکھا جائے تو انہوں نے چچا شہباز شریف کی کلاس لے لی کہ عمران خان اتنا طاقتور ہے کہ ابھی تک وہ وزیر اعظم ہاؤس کی ریکارڈنگ کی طاقت رکھتا ہے۔ حیف ہے صد حیف۔
ویسے آڈیو ویڈیو لیکس اور سائفر چوری پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کی کھنچائی بنتی ہے کہ قومی اہمیت اور انتہائی حساس معاملات سے متعلق دستاویزات کی وہ حفاظت نہیں کر سکے۔ ویسے وفاقی کابینہ کی آفیشل سمری اور مریم نواز کی کل کی پریس کانفرنس نے عمران خان کا یہ دعویٰ ثابت کر دیا کہ امریکی دھمکی والا سائفر ایک حقیقت تھا جو 7 مارچ 2022 کو موصول ہوا اور 8 مارچ کو اسی بیرونی سازش اور مداخلت کے تحت عدم اعتماد کی تحریک آئی۔
آڈیو ویڈیو لیکس پر آئیں تو اب تک وفاقی حکومت یہ بھی طے نہیں کر سکی کہ یہ آڈیو لیکس سپاٹ ڈیوائسز سے ہوئی، سائبر بریچ ہوا، موبائل فون استعمال ہوا یا کوئی لوکل ڈیوائس تھی۔ لگتا ہے کہ
حکومت اس ایشو کو بھی کھوہ کھاتے میں ڈال دے گی۔ کیونکہ منصفانہ تحقیقات ہوں تو سائبر بریچ کے علاوہ ہر وہ شخص جو کسی بھی حکومت کا ہو پھنستا ہے جو اس وقت کمرے میں موجود تھا۔ عمران خان کا دور تو گزر گیا لیکن موجودہ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ اس پر کوئی حرف آئے۔ اگر پچھلے دور کا وزیر داخلہ شیخ رشید تکنیکی طور پر گھامڑ تھا تو رانا ثنااللہ اس سے چار ہاتھ آگے ہے اسے صرف نہتے لوگوں پر گولی اور لاٹھی چلانا آتی ہے۔ رانا ثنا کو علم ہے کہ اگر منصفانہ تحقیق ہوئی اور جے آئی ٹی بنی تو وزیر اعظم سمیت وفاقی وزرا اور اعلیٰ افسران کو تحقیقات کے لیے پیش ہونا پڑے گا اور ایسے میں نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ گو کہ مریم نواز نے کل کی پریس کانفرنس میں رانا ثنااللہ کو جے آئی ٹی بنانے کو کہا لیکن رانا صاحب پتلی گلی سے یہ کہہ کر نکل گئے کہ وفاق میں مسلم لیگ کی نہیں بلکہ مخلوط حکومت ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مریم نواز شریف وزیر اعظم شہباز شریف اور کابینہ کو کیوں جے آئی ٹی کے سامنے پیش کرنے پر مُصر ہیں؟
سائفر پر آئیں تو اتنی اہم دستاویز جسے نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں وزیر اعظم شہباز شریف
کی زیر صدارت وزیر اعظم ہاؤس میں زیر بحث لایا گیا کیسے شہباز شریف دور میں غائب ہو گیا۔ اگر واقعی سائفر غائب ہوا ہے تو کیا نیشنل سکیورٹی میٹنگ میں ”ٹشو پیپر“ پر بحث کی گئی؟ اس کے بعد مریم نواز نے سائفر پر ایک بھرپور پریس کانفرنس کر کے ثابت کرنا چاہا کہ چچا شہباز نااہل ہیں کیونکہ ان کے دور میں سائفر غائب ہو گیا۔ سائفر پر سیاست کے بجائے یا اس کی گمشدگی پر ڈھنڈورا پیٹنے کے بجائے یہ علم ہونا چاہیے تھا کہ اس کی کاپیاں سپریم کورٹ، ایوان صدر اور اصل دستاویز وزرات خارجہ میں موجود ہے۔ مریم نواز کہتی ہے کہ چچا وزیراعظم فرماتے ہیں کہ سائفر غائب ہونے کے بعد کوئی ملک ان پر اعتبار کو تیار نہیں اگر ایسا ہے تو آپ کے دور میں اس کے غائب ہونے کا دعویٰ زیادہ سنجیدہ معاملہ ہے کیوں چند ہیڈ لائنز اور ٹکرز کے لیے قومی اہمیت کو داغدار کیا جا رہا ہے۔
ہم امریکہ یورپ کے سیاستدانوں کی بات کرتے ہیں لیکن قومی معاملات پر سیاست سے ہٹ کر ان کے ایک موقف پر کبھی توجہ نہیں دیتے بلکہ سیاسی مقاصد کے لیے اپنی اپنی ڈفلی بجاتے ہیں۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.