میں اپنے گزشتہ کالم ”ایک خوشی جو اچانک صدمے میں بدل گئی“ میں اپنے جواں سال بھتیجے اورمعروف دانشمند اور دانشور صحافی مقصود بٹ صاحب کے بیٹے عاصم عزیز بٹ کی اچانک رحلت کی بات کررہا تھا، مقصود بٹ ایک دلیرانسان ہیں۔ ساری عمر دوستوں کی خدمت کرتے ہوئے گزرگئی، کوئی اُن کے دروازے سے کبھی خالی نہیں گیا، بیوروکریسی میں اُن کا ایک خاص اثرورسوخ ہے، افسروں کے ساتھ اُن کے ذاتی روابط ہیں، جس کے ساتھ اُن کا ایک بار تعلق بن گیا ساری عمر بنارہا، وہ اتنی جلدی ناراض نہیں ہوتے جتنی جلدی مان جاتے ہیں، لوگ اُن کے ساتھ تعلق پر بڑا مان کرتے ہیں، وہ ایک ا نتہائی پڑھے لکھے انسان ہیں، پتہ نہیں اُنہوں نے خود کو شعبہ رپورٹنگ کے سپرد کررکھا ہے ورنہ جتنا اُن کا علم ہے، جتنی اُن کی معلومات ہیں اور جتنے خوبصورت اور منفرد انداز میں وہ لکھتے ہیں میرے نزدیک اُن کی حیثیت ایک دانشور کی ہے، میں نے اپنے گزشتہ کالم میں یہ عرض کیا تھا جِس وقت اُن کے صاحبزادے عاصم بٹ کی رحلت کی مجھے اطلاع مِلی میرے گھر میں کچھ مہمان آئے ہوئے تھے، میں نے جان بوجھ کر یہ اطلاع اپنے مہمانوں کو نہیں دی، وہ سب مقصود بٹ صاحب کو جانتے تھے، سب اُن کے دوست تھے، میں نہیں چاہتا تھا سارے خوش مہمانوں کو یہ خبرسنا کر میں پریشان کردُوں، محفل جاری تھی، میری بے چینی مسلسل بڑھ رہی تھی، میرے کزن خواجہ وقاص نے مجھ سے پوچھا ”آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ آپ کیوں اچانک اِس طرح اُداس اور خاموش ہوگئے ہیں؟“…… میں مسکردیا، میرادِل مگر رورہا تھا، اولاد کا دُکھ جھوٹا دُکھ نہیں ہوتا، یہ دُکھ والدین کی موت کے دُکھ جیسا ہوتا ہے، میری سُوئی اِس سوچ پر اڑی ہوئی تھی کہ میرے محترم بھائی مقصود کا اِس وقت کیا حال ہوگا؟ وہ یہ صدمہ کیسے برداشت کریں گے؟، اُن کی بیگم، عاصم کی ماں یہ صدمہ کیسے برداشت کرے گی، بیرون مُلک مقیم اُس کا بھائی یہ صدمہ کیسے برداشت کرے گا؟ اور سب سے بڑھ کر عاصم کی بیگم یہ صدمہ کیسے برداشت کرے گی؟۔اُس کا معصوم بچہ یہ کیسے سمجھ پائے گا اُس کا باپ نہیں رہا، وہ یتیم ہوگیا، مانا کہ مقصود بٹ صاحب کوئی کمی اُنہیں محسوس نہیں ہونے دیں گے، پر یتیمی کا دُکھ بہت بڑا ہوتا ہے…… میرے گھر منعقدہ محفل میں عزیزم یاسر شامی نے کچھ گلوکاروں کو مدعوکررکھا تھا، پروگرام یہ تھا کھانے کے بعد محفل موسیقی ہوگی۔ میں نے ایک بہانہ بناکر اِس محفل کو ملتوی کردیا، کچھ دیر بعد سب مہمان چلے گئے۔ یہ وقت مجھ پر کتنا گراں گزرا میں ہی جانتاہوں، میں نے سوچا ابھی جاکر مقصود بٹ صاحب کو گلے لگاتا ہوں، یہ ہماراسانجھادُکھ تھا، مجھے یہ حوصلہ نہیں ہورہا تھا اُن کے پاس جاؤں، میری رات کروٹیں لیتے گزرگئی، میں نے دِل کا دروازہ کھٹکھٹایا، میں وہاں موجود اپنے خُدا سے پوچھنا چاہتا تھا والدین پر اتنی بڑی بڑی آزمائشیں کیوں آتی ہیں؟…… اے میرے پاک پروردگار تُو نے تو والدین کو ہمیشہ خوش رکھنے کا حکم دیا ہے، پھر یہ اولاد اپنے والدین کو اپنی موت کا جو دُکھ دے کر چلی جاتی ہے اُس کا ذمہ دار کون ہے؟…… رات گزرنے کا نام نہیں لے رہی تھی، اتنی تکلیف دہ اتنی بے چین رات شاید ہی اِس سے پہلے میری زندگی میں کبھی آئی ہوگی، ”رات کروٹیں لیتی رہی بار بار…… لگتا تھا میرے ساتھ خُدا جاگتا رہا“……اللہ اللہ کرکے فجر کی اذان سنائی دی، یہ زندگی کیا چیز ہے؟۔ جب کوئی انسان بطور مسلمان پیدا ہوتا ہے اُس کے کان میں اذان دی جاتی ہے، اُس اذان کی نماز نہیں ہوتی۔ جب کوئی مسلمان مرتا ہے اُس کی نماز (نمازِ جنازہ)پڑھائی جاتی ہے، اُس نماز کی اذان نہیں ہوتی، گویا زندگی اذان اور نماز کے درمیانی وقفے کا نام ہے، کچھ عزیز لوگ چند سیکنڈوں میں چلے جاتے ہیں، تب احساس ہوتا ہے زندگی اور موت کے درمیان اتنا وقفہ بھی نہیں ہوتا جتنا اذان اور نماز کے درمیان ہوتا ہے، …… عاصم بڑا ”بیبابچہ“ تھا۔ جیساکہ میں نے اپنے پہلے کالم میں بھی عرض کیا وہ ایف سی کالج میں میرا سٹوڈنٹ تھا، ……ایک بار کالج کے پرنسپل صاحب نے مجھے چیف پراکٹرمقررکیا، سٹوڈنٹس میں ہر طرح کا ڈسپلن قائم رکھوانا میری ذمہ داری تھی، اِس میں یونیفارم کی پابندی بھی شامل تھی، ایک بار عاصم بٹ بغیر یونیفارم کے کالج آگیا، میں نے اُس سے کہا ”آپ میرے بھتیجے ہیں آج آپ کی وجہ سے جتنے سٹوڈنٹس بغیر یونیفارم آئے ہیں کو فائن یا اور سزا نہیں ہوگی“۔…… وہ ”سوری“ کہہ کے چلے گیا، کچھ دیر بعد مجھے وہ نظر آیا، وہ یونیفارم پہن کر واپس آگیا تھا، میرے قریب آیا مسکرا کر کہنے لگا ”انکل میری وجہ سے جو رعایت آج آپ نے دوسرے سٹوڈنٹس کو دینی تھی وہ اب واپس لے لیں“…… میں نے اُسے دعائیں دیں اور گلے سے لگا لیا، …… میں جب اُس کے جنازے میں شرکت کے لیے اُس کے گھر پہنچا، اپنے محترم بھائی مقصود بٹ کو گلے لگایا یقین کریں ایک لمحے کے لیے یوں محسوس ہوا میں نے ابھی تک عاصم بٹ کو گلے لگایا ہوا ہے، …… مقصود بٹ صاحب حوصلے میں تھے۔ میں مگر حوصلے میں نہیں تھا۔ میرا جی چاہا مقصود بٹ صاحب کو احمد فراز کا یہ شعر سناؤں،؟؟خبط لازم ہے مگردُکھ ہے قیامت کا فراز……ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مرجائے گا“……مقصود بٹ صاحب کو اللہ ایک اچھی اور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ اُن پر نئی ذمہ داریاں جو آن پڑی ہیں اُنہیں نبھانے کی ہمت عطا فرمائے۔ اپنے لختِ جگر کے جنازے پر اُنہیں حوصلے میں دیکھ کر بے ساختہ منیر نیازی بھی مجھے یاد آئے۔ ”جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر …… غم سے پتھر ہوگیا لیکن کبھی رویا نہیں“…… ساری عمر خود کو دلیر ثابت کرنے والے شخص نے ایک بار پھر ثابت کردیا وہ صرف گلیں، باتی نہیں صحیح معنوں میں دلیر ہے، ہوسکتا ہے تنہائی میں وہ بہت روتے ہوں، یہ رونا ساری عمر کا ہے، پر ایسے صابر شاکر لوگوں کے لیے ارشاد باری تعالیٰ ہے ”ہم نے جِن پر سخت آزمائشیں بھیجیں اور اُنہوں نے ہماری رضا سمجھ کر قبول کرلیا روز قیامت اُن کے لیے میزان قائم نہیں ہوگا اُنہیں سیدھا جنت میں بھیج دیا جائے گا!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.