آڈیو لیکس

21

شہباز شریف کی اپنے پرنسپل سیکرٹری توقیر شاہ اور بعد ازاں مریم نواز کے ساتھ ہونے والی مبینہ گفتگو نے ملک کی سلامتی کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے کر دیے تھے۔ پہلے یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید عمران خان کی رخصتی سے پہلے یا اس دوران وزیراعظم ہاؤس میں جاسوسی کے آلات نصب کیے گئے تھے لیکن اب عمران خان کی امریکی سازش کے حوالے سے سامنے آنے والی مبینہ آڈیو ٹیپ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ یہ سلسلہ ایک عرصہ سے جاری تھا۔ آج جو مبینہ گفتگو سوشل میڈیا پر سامنے آئی ہے وہ مارچ کے اوائل کی ہے اس کا مطلب ہے کہ عمران خان کے دور میں بھی وزیراعظم ہاؤس میں جاسوسی کے آلات نصب تھے۔ عمران خان کے دور میں مجھے ہمیشہ یہ لگتا تھا کہ وہ کئی اہم موقعوں پر وزیراعظم ہاؤس کے لان میں ملاقاتیں کرتے تھے اور میرا یقین تھا کہ وہ شائد اسی خدشے کے پیش نظر کرتے تھے۔ ویسے انہوں نے میڈیا پر بھی یہ کہا تھا کہ انہیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ اگر ایجنسیاں میرے فون ٹیپ کریں۔ جو آڈیوز لیک ہو رہی ہیں اس کے تحت ملک کی سلامتی کمپرومائز ہو گئی ہے کہ ریاست کے کئی راز غیر محفوظ ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔ جس انداز میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ جو بھی یہ سب کچھ کر رہا ہے وہ اپنے پتے انتہائی ہوشیاری کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ وزیراعظم ہاؤس مکمل طور پر بگ ہے لیکن اس سے بھی تشویش ناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم جس محفوظ لائن سے گفتگو کرتے ہیں اس پر جی ٹیپنگ ہوتی رہی ہے۔ عمران خان اور شہبازشریف کی گفتگو کو سنیں تو لگتا ہے کہ ریکارڈنگ وزیراعظم ہاؤس کی لائن پر ہو رہی ہے۔ ابھی یہ بات بھی سامنے آنا باقی ہے کہ کیا یہ لینڈ لائینز کی ریکارڈنگ ہے یا موبائل فون سے  ہونے والی گفتگو بھی ریکارڈ ہو رہی ہے۔
آج وزیراعظم کی صدارت میں نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں مسلح افواج کے سربراہان، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذمہ داران اور اہم حکومتی شخصیات شریک ہوں گی اور اس میں ان آڈیو لیکس کے حوالے سے گفتگو ہو گی کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ان آڈیو لیکس کے سامنے آنے کے بعد اب بیرونی ممالک کے سربراہان کے لیے مشکل ہو گیا ہے کہ وہ پاکستان کی حکومت کے سربراہ سے فون پر کوئی گفتگو کریں۔ یہ معاملہ اس ملک کے حوالے سے اہم ہے جو ایٹمی طاقت ہے اور اس کی خفیہ ایجنسی کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔ سوشل میڈیا کے چند اکاؤنٹس سے یہ دعوے سامنے آ رہے ہیں کہ جمعہ کو ساری آڈیوز ریلیز کر دی جائیں گی اور اس میں ان آڈیوز کی تفصیل
درج کی گئی ہے۔ فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ ہیکرز نے وڈیوز ریلیز نہ کرنے کے لیے 5 ارب روپے طلب کیے ہیں۔ وزیراعظم شہبازشریف نے اس کی اعلیٰ سطحی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور آج ایجنسیاں اس حوالے سے اپنی رپورٹ بھی پیش کریں گی لیکن کیا محض اتنا کافی ہے؟ ان کرداروں تک پہنچنا ضروری ہے جنہوں نے یہ سب کرنے کے لیے سہولت فراہم کی ہے۔
عمران خان بہت خوش تھے کہ اس حکومت کی آڈیوز سامنے آ رہی ہیں لیکن آج امریکی سازش اور ان کے بیانیے کے حوالے سے بھی ایک مبینہ گفتگو سامنے آ گئی ہے جس میں عمران خان کی اپنے پرنسپل سیکرٹری کے ساتھ اپنے سفیر کے سائفر کے حوالے سے ہونے والی گفتگو شامل ہے۔ یہ گفتگو کا پہلا حصہ ہے جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکی سازش کا بیانیہ عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری کے ذہن کی اختراع ہے۔ اس وقت پاکستان میں تعینات امریکہ کے سفیر اسد مجید کی جانب سے آنے والے مراسلے کے حوالے سے سابق وزیراعظم نے اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ہم نے صرف کھیلنا ہے، امریکا کا نام نہیں لینا، بس صرف یہ کھیلنا ہے کہ اس کے اوپر کہ یہ ڈیٹ پہلے سے تھی جس پر اعظم خان نے جواب دیا کہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سائفر کے اوپر ایک میٹنگ کر لیتے ہیں‘۔
آڈیو میں اعظم خان کو کہتے سنا جا سکتا ہے ’آپ کو یاد ہے کہ آخر میں ایمبیسڈر نے لکھا تھا کہ ڈیمارچ کریں، اگر ڈیمارچ نہیں بھی دینا تو میں نے سوچا ہے کہ اس کو کور کیسے کرنا ہے؟ ایک میٹنگ کریں شاہ محمود قریشی اور فارن سیکرٹری کی جس میں شاہ محمود لیٹر پڑھ کر سنائیں گے اور وہ جو بھی پڑھ کر سنائیں گے اس کو کاپی میں بدل دیں گے وہ میں منٹس میں کر دوں گا، فارن سیکرٹری نے یہ چیز بنا دی ہے‘۔
لیک آڈیو میں اعظم خان کہہ رہے ہیں کہ سفارتی زبان میں اسے دھمکی کہتے ہیں، دیکھیں منٹس تو پھر میرے ہاتھ میں ہیں اپنی مرضی سے منٹس ڈرافٹ کرلیں گے، عمران خان پوچھتے ہیں کہ پھرکس کس کو بلائیں اس میں؟ جس پر اعظم خان کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی، میں اور سہیل ہوں گے، چیئرمین پی ٹی آئی جواب میں کہتے ہیں ٹھیک ہے کل ہی کرتے ہیں۔
اعظم خان کہہ رہے ہیں کہ وہ چیزیں ریکارڈ میں آجائیں، آپ یہ دیکھیں کہ وہ قونصلیٹ فار اسٹیٹ ہیں، وہ پڑھ کرسنائے گا میں کاپی کرلوں گا آرام سے تو آن ریکارڈ آجائے گا کہ یہ چیز ہوئی ہے، آپ فارن سیکرٹری کوبلائیں تاکہ ریکارڈ پر آ جائے۔
لیک ہونے والی آڈیو میں عمران خان کہہ رہے ہیں کہ نہیں اس نے ہی لکھا ہے سفیر نے، جس پر اعظم خان کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس توکاپی نہیں ہے ناں یہ کس طرح انہوں نے نکال دیا۔عمران خان کہتے ہیں کہ اسے امریکی سازش بنا دیتے ہیں
یہ کتنے افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ عمران خان نے ایک معمول کی گفتگو اور سفیر کے لیٹر کو امریکی سازش میں تبدیل کر دیا۔ اپنی سیاست کو بچانے کے لیے انہوں نے ریاست کے تعلقات کو داؤ پر لگا دیا اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
عمران خان نے اس آڈیو لیک کے سامنے آنے کے بعد کہا ہے کہ اب سائفر لیک ہو جائے تو پھر ہم اس پر کھیلیں گے۔ خان صاحب یہ ملک ہے آپ کے کھیل کے لیے قومی سلامتی کو داؤ پر نہیں لگایا جا سکتا۔
عمران خان کو کھلی چھوٹ دینے کے بد اثرات سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔ سائفر اور سائبر کرائم دونوں کے حوالے سے حکومت اور قومی سلامتی کے اداروں کو سنجیدگی دکھانی چاہیے۔ آڈیو لیکس کا یہ پنڈورا باکس کسی ہیکر کا کمال نہیں بلکہ ان عناصر کا کھیل ہے جو ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں اور ان عناصر کو کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔

تبصرے بند ہیں.