سیاست پہ نہیں،مسائل پہ سر جوڑیں

34

ایسے واقعات جن کے مطا بق ان دنوں، جبکہ عمران خان پر الزام ہیں کہ ہفتے کی شام اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے پولیس اور عدلیہ کو دھمکایا، قومی سیاسی منظر نامے پر چھائے ہوئے ہیں اور اس دوران جنوبی پنجاب سندھ اور بلوچستان کی سیلاب سے متاثرہ آبادی پر کیا بیت رہی ہے یہ کسی کی توجہ کا موضوع نہیں۔ متاثرہ علاقوں سے آنے والی وڈیوز اور تصویریں لوگوں کے دکھوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ مسلسل اور شدیدبارشو ں اور تباہ کن سیلاب سے متاثرہ ہزاروں افراد بے یار و مددگار پڑے ہیں جنہیں ریسکیو کرنے کے عمل میں تاخیر سے جانی و مالی نقصان میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ متعدد علاقوں میں اپنی مدد آپ کے تحت جان بچانے کی کوشش کرنے والے ضروری حفاظتی سامان میسر نہ ہونے کی وجہ سے جان لیوا حالات کا شکار ہوچکے ہیں۔ ادویات صاف پانی اور خوراک کا بحران شدت اختیار کر نے کی اطلاعات ہیں جبکہ کئی علاقوں کی انتظامیہ متاثرین کو خیمے فراہم کرنے سے معذوری کا اظہار کر چکی ہے۔ یہ تفصیلات ذرائع ابلاغ پر مسلسل آ رہی ہیں اور متاثرین امداد کیلئے مسلسل حکومت کو پکار رہے ہیں۔ ایسے حالات میں بچاؤ کے اقدمات حکومت کی اولین ترجیح ہونے چاہئیں بصورت دیگر سیلاب زدہ علاقوں میں انسانی بحران شدت اختیار کر جانے کا قوی اندیشہ ہے۔ مذکورہ علاقوں میں بارشیں تا حال جاری ہیں مگر آنے والے دنوں میں اگر بارشوں کا سلسلہ تھم جائے تب بھی متاثرین کے مسائل کم نہ ہوں گے۔ وہ ہزاروں بلکہ لاکھوں خاندان جن کے گھر اِن تباہ کن بارشوں اور سیلابوں کی نذر ہو چکے اور مال مویشی اور فصلیں بھی برباد ہو چکیں انہیں سر چھپانے کے ٹھکانوں کیلئے حکومتی امداد کی ضرورت ہو گی مگر یہ کام اسی صورت ممکن ہے جب حکومت اس جانب توجہ دے۔ وزیر اعظم صاحب نے رواں ماہ کے شروع میں بعض سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا تھا مگر اس دوران مسلسل بارشوں سے جو تباہی ہوئی اس کے بعد نقصانات کی نوعیت کہیں زیادہ شدت اختیار کرگئی ہے۔ ادھر پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بھی متاثرہ علاقوں کا دورہ کوئی بیس روز پہلے کیا تھا مگر یہ دورہ نقصانات کی موجودہ شدت کو سمجھنے کیلئے کافی نہیں۔ ضروری تھا کہ اس دوران وزیر اعظم اور سیلاب زدہ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ متاثرین کی بحالی کی جانب توجہ دیتے۔ اگر ایسا ہوتا تو قوی امکان تھا کہ ادویات خوراک یا دیگر ضروری اشیا کے جس بحران کی شکایات آ رہی ہیں وہ کم ہوتیں۔ حکومتی سربراہا ن کی قومی ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ ایسے تشویشناک حالات میں عوام کے سر پر پہنچیں اس سے جہاں متعلقہ محکموں کی کارکردگی میں بہتری کا امکان ہوتا ہے وہیں متاثرین کو بھی کسی حد تک حوصلہ
رہتا ہے کہ وہ بے یارو مددگار نہیں۔ ایک طرف طوفانی بارشوں اور سیلاب کے نقصانات شدت اختیار کیے ہوئے ہیں تو دوسری جانب مہنگائی کے مارے عوام بجلی کے بلوں میں ہوشربا ٹیکسوں کی وجہ سے سراپا احتجاج ہیں۔ حکومت کی معاشی مجبوریاں اپنی جگہ مگر بجلی اور تیل پر بھاری ٹیکسوں کی صورت میں صارفین کی گردن پر جس طرح بغیر سوچے سمجھے بوجھ ڈالا گیا ہے اس کے منفی اثرات چھپائے نہیں جا سکتے۔ پہلے تاجر اور دکاندار طبقہ احتجاج پر اُتر آیا تھا اب گھریلو صارفین چیخ رہے ہیں۔ حکومت معیشت کی بہتری کے دعوے کر رہی ہے مگر مہنگائی کی شرح گزشتہ ہفتے 43 فیصد کے قریب پہنچ چکی تھی۔ یہ صورتحال ایسی نہیں کہ اسے نظر انداز کر کے سیاسی رسہ کشی جاری رکھی جائے۔ ان مسائل کو اولین ترجیح دینے اور حل یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے کہ حکومت سیاسی انتشار کم کرنے کی کوشش کرے۔ سبھی کو اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی سوچ سے اوپر اُٹھ کر کام کرنا ہو گا۔دوسری جانب سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرحِ سود کو 15فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جوکہ خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پہلے ہی زیادہ ہے۔ اتنی زیادہ شرحِ سود کی وجہ سے پاکستان کا کاروباری طبقہ جسے اپنا کاروبار پھیلانے اور اُسے مستحکم کرنے کیلئے قرضوں کی ضرورت ہوتی ہے قرض لینے سے کتراتا ہے جس کا اثر ملکی معیشت پر بھی پڑتا ہے۔ خطے کے دیگر ممالک میں شرحِ سود کم اور قرضہ سستا ہونے کی وجہ سے ملک کے کاروباری طبقے میں اپنا کاروبار پاکستان سے باہر منتقل کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے جو ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ امر ہے۔شرحِ سود زیادہ ہونے اور سرمایہ کاری میں کمی سے معاشی سست روی پیدا ہوتی ہے جس سے بیروز گاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔بلند ترین شرحِ سود کے بنیادی اسباب میں بلند ترین مہنگائی سر فہرست ہے قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی بیان میں بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہو گئی ہے  جس سے عام آدمی پر بہت دباؤ آ رہا ہے؛چنانچہ مہنگائی کو کم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہو نی چاہیے۔ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی خاطر خواہ اقدام نظر نہیں آتا۔ اگرچہ حالیہ دنوں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے مگر اس کے اثرات کو مہنگائی کی کمی میں تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ حکومت معاشی مسائل کو کم کرنے میں کامیابی کے دعوے کر رہی ہے مگر مہنگائی اور شرحِ سودکو دیکھیں تو معاشی بہتری کے امکان نظر نہیں آتے۔ مہنگائی ہی کی بات کوآگے بڑھاتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں اضا فہ کا ذکر نہ کر نا نا انصا فی ہو گی۔ توقا رئین کرام،بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے جولائی میں استعمال ہونے والی بجلی پر فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 4 روپے 69پیسے تک بڑھانے کی تیاری کر لی ہے۔ گزشتہ مہینوں میں بجلی کی قیمت میں ہونے والے اضافے اور بلوں میں شامل کیے گئے مختلف ٹیکسوں کے بعد جولائی کے بلوں نے عوام کے ہوش اُڑا دیے ہیں اور ملک کے مختلف شہروں میں بجلی کے بلوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم نے بجلی کے بلوں میں اضافے کے حوالے سے شکایات کا نوٹس لے لیا ہے اور متعلقہ حکام کو تفصیلی رپورٹ اور سفارشات مرتب کرنے کی ہدایت جاری کی ہے لیکن یہ مسئلہ فوری توجہ اور فیصلوں کا طالب ہے کیونکہ جب تک یہ تفصیلی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جائے گی تب تک بلوں کی ادائیگی کی آخری تاریخ گزر چکی ہو گی اور عوام کو چار و ناچار بجلی کے بل ادا کرنا پڑیں گے۔ یہ بات بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ جولائی کے مہینے میں بجلی کی مجموعی پیداوارکا 64فیصد مستحکم قیمتوں والے مقامی ذرائع سے حاصل کیا گیا تھا اس کے باوجود فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کے بلوں میں بھاری اضافے سمجھ سے باہر ہیں۔حکومت نہ صرف جلد از جلد اضافی بلوں کا مسئلہ حل کرائے بلکہ مقامی ذرائع سے زیادہ سے زیادہ بجلی سسٹم میں شامل کرنے کے اقدامات بھی کئے جائیں۔

تبصرے بند ہیں.