غیر جمہوری و غیر سیاسی ہتھکنڈے

10

ہماری سیاسی قیادت نے کبھی جمہوریت پسندی کا تاثر نہیں دیا جب بھی انہیں موقع ملا انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے حصول کو اپنا نصب العین جانا۔ ان کے رویوں سے کبھی ایسا تاثر نہیں ملا کہ وہ جمہوریت پسند ہیں اور کسی کے ایما پر کبھی جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ انہیں جہاں بھی موقع ملا انہوں نے اقتدار کے حصول کے لئے ہر غیر جمہوری ہتھکنڈہ آزما ڈالا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پیدائش مارشل لا کی چھتری کے سائے میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کے بعد ہوئی۔ پھر ایک وقت آیا جب مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کی بہت بڑی ناقد بن کر جمہوری پارٹی کا تاثر دینے لگی۔ کہا جاتا ہے کہ عیاری اور چالاکی آج کل کی سیاست کا حصہ ہے۔ اسی لئے سیاست دان کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی۔ موجودہ حکمران بھی جو چار دہائیوں سے کسی نہ کسی صورت اقتدار کا حصہ رہے ہیں وہ بھی سیاست میں اصولوں کو ترویج نہ دے سکے اور ایسی ہی چالاکیوں کی وجہ سے حکومت کررہے ہیں۔
جمہوریت کا حسن جلسے جلوسوں اور احتجاجی سیاست میں ہوتا ہے لیکن موجودہ حکومت نے جس طرح سے سیاسی جد و جہد پر پابندی لگا رکھی ہے وہ کسی طور بھی جمہوریت کی خدمت نہیں ہے بلکہ الٹا اس سے جمہوریت کمزور ہو رہی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ 25 مئی کو جس طرح حکومت کے ایما پر پولیس اور اداروں کے اہلکاروں نے نہتی عوتوں، بچوں اور دیگر افراد پر تشدد کیا بہت افسوسناک بات ہے۔ لانگ مارچ کے شرکاء پر لاٹھی چارج، آنسو گیس کی شیلنگ، ربڑ کی گولیاں چلانے اور پتھراؤ کے باعث سیکڑوں افراد زخمی ہو گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد سمیت پورے پنجاب میں حکومت کے حکم پر جس طرح سکیورٹی اداروں نے نہتے عوام پر تشدد کیا انتہائی افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ پولیس نے مظاہرین کے ساتھ ساتھ کوریج کرنے والے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ پولیس نے صحافیوں پر ڈنڈے برسائے ان کے آلات کو نقصان پہنچایا۔ اور اب صورتحال یہ ہے کہ صحافیوں پر بے جا مقدمات بنائے جا رہے اور ان پر جھوٹے مقدمات درج کئے جا رہے ہیں، عوام کے پسندیدہ چینلز کو بند کیا جا رہا ہے، جب کہ ملک کے معروف تجزیہ نگار و صحافی بیرونِ ملک بیٹھے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ایک منصوبہ بندی کے تحت صحافیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تا کہ شہری اصل حقائق اور واقعات سے آگاہ نہ ہو سکیں۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ صحافیوں پر تشدد حکومت کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں اور اقدمات کو طشت از بام کرنے پر کیا جاتا ہے۔ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے صحافی وہی واقعات دکھاتے ہیں جو رونما ہو رہے ہوتے ہیں یعنی عوام کے رویوں کی عکاسی ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے جو رویہ روا رکھا جا رہا ہے کسی صورت بھی کوئی جمہوریت پسند اس کی حمایت نہیں کر سکتا۔ حکمرانوں کو تشدد کے بجائے اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔
ادھر یہی سلوک سیاسی قیادت کے ساتھ کیا جا رہا ہے پی ٹی آئی کو جلسے جلوس کرنے نہیں دیئے جا رہے ہیں سیاسی لیڈروں پر بے جا مقدمات قائم کئے جا رہے ہیں اور حراست میں ان پر بھیانک تشدد کیا جا رہا ہے۔ پیمرا کے ذریعے جلسوں کی براہِ راست کوریج چینلز پر کرنے نہیں دی جا رہی ہیں۔ عمران خان کی حکومت ختم کی گئی تو انہوں نے اسے رجیم چینج کا نام دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ہاں آج تک یہی ہوتا آ رہا ہے ہمیں اپنے مستقبل کے خود سے
فیصلے نہیں کرنے دیئے جا رہے ہیں جب بھی ہمارا کوئی حکمران ملک کو ترقی کی سمت لے جانے کے لئے کوئی فیصلہ کرتا ہے تو اس کو بیرونی طاقتیں کسی نہ کسی طرح اقتدار سے باہر کرا دیتی ہیں جب کہ مہرے انہیں اندر سے ہی مل جاتے ہیں۔ اس سال ہم نے اپنی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منائی ہے مگر ہم آج تک اپنی آزادی کا مفہوم سمجھ نہیں سکے، ہمیں انفرادی طور پر ہر قسم کی آزادی میسر ہے مگر من حیث القوم ہم آج بھی غلام ہیں اور یہی بات سابق وزیرِ اعظم عمران خان کہہ رہے ہیں کہ ہمیں حقیقی آزادی میسر نہیں ہے۔ انگریز برِ صغیر میں آیا، اس نے ہماری کمزوریوں کو سمجھا اور
ہمیں اپنا ایسا تابع کر گیا کہ سیکڑوں برس بھی اس کے چنگل سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آ رہاہے۔ انگریز ہمیں آزادی تو دے گیا مگر رخصت ہوتے ہوئے اپنی باقیات ہم پر کسی آسیب کی طرح مسلط کر گیا، ہمیں ایسا نظام دیا جسے درست کیا ہی نہ جا سکتا ہو، سیاست کے لئے ایسے خاندانوں کا انتخاب کیا جو اس کی مملوک کے طور پر نسل در نسل غلام رہ سکتے ہوں، جنہیں مذہب اور قوم سے کوئی غرض نہ ہو صرف اور صرف اپنی ذات تک محدود ہوں۔ ہمیں غربت اور قرضوں کے جال میں ایسا پھنسایا کہ ہم حقیقی آزادی کو ترستے ہی رہیں۔ سیاست کو ذات کا ایسا محور بنا دیا کہ سیاست دان عوام دوست نہ ہو، پست کردار ہو، اپنی حاضر دماغی سے پہلے اقتدار حاصل کرے اور پھر جن کی وساطت سے وہ سیاست میں آیا ہو ان کے مقصد کی تکمیل کے لئے اپنا دین، ایمان اور حب الوطنی سب بیچ ڈالے، یہاں تک کہ ہمارے سیاست دان خواہ ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو، مذہبی تنظیم یا لسانی گروہ سے، براہِ راست یا بالواسطہ طور پر انگریزوں کی چالبازیوں سے منسلک ہیں۔
اس وقت ملک میں رونما ہونے والے حالات و واقعات اسی عالمی گیمبلنگ کا حصہ ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ان بیرونی سامراج کو تھوڑی آنکھیں دکھائیں تو اس نے اس کا بوریا بستر ہی گول کر دیا گیا اور ایسے لوگوں کو برسرِ اقتدار لے آیا گیا جن کے پاس نہ اکثریت ہے اور نہ ہی اس اتحاد کی آپس میں کچھ مماثلت، سب کے نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں ہیں یعنی بہت حد تک فرق ہے۔ دنیا کی برادری میں اقوام کے روئیے ان کی قدر و قیمت طے کرتے ہیں اور ان رویوں کا اظہار بین الاقوامی معاملات میں حکومتی پالیسیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔ اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس بات پر شرمندگی ہوتی ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کہیں غیر ضروری منت سماجت اور کہیں غیر ضروری اکڑ اورمحاذ آرائی جیسے غیر متوازن رویوں سے عبارت ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی سب سے منفی صفت یہ رہی کہ اس کی صورت گری ہمیشہ عالمی حالات و واقعات کے ردِ عمل میں ہوتی رہی۔ ہمیں آج تک یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ خالصتاً اپنے مفادات کی روشنی میں اپنی پالیسی تشکیل دے سکیں۔ ایک خود مختار ملک کی حیثیت سے ہمارا یہ حق ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو تبدیل کر لیں، ان کا محرک خالصتاً ہماری اقتصادی اور معاشی ترقی ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنا کردار بطور ایجنٹ کسی صورت قبول نہیں کرنا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں.