وطن سے محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے جو ہر انسان بلکہ ذی روح میں پایا جاتا ہے جس زمین پر انسان پیدا ہوتا ہے جہاں اس کے رشتے دار ہوتے ہیں جہاں ماں باپ ہوتے ہیں بہن بھائی ہوتے ہیں دوستوں کا ساتھ ہوتا ہے وہ زمین اس کا اپنا گھر کہلاتی ہے وہاں کی گلی وہاں کے در و دیوار وہاں کے پہاڑ وادیاں چٹان پانی اور ندی کھیت کھلیان غرضیکہ ہر چیز سے اس کی یادیں جڑی ہوتی ہے۔
کسی کو اگر اپنے ملک کے کسی کونے میں بھی کمانے کا موقع ملتا ہے تو وہاں بھاگا جاتا ہے اس کا دل اتنا نہیں پھٹتا جتنا ایک تارک وطن کا پھٹتا ہے جب بیرون ملک جا رہا ہوتا ہے کیوں؟ وجہ صرف یہی ہے کہ وطن سے محبت ایک انسان کی فطرت میں شامل ہے اسی لئے جو لوگ ملک سے غداری کرتے ہیں ان کو اچھے الفاظ میں کبھی یاد نہیں کیا جاتا بلکہ ان کا نام و نشان مٹا دیا جاتا ہے اس کے برعکس جو لوگ ملک کے لیے قربانیاں دیتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی لوگوں کے دلوں میں وہ زندہ رہتے ہیں علی سدپارہ کی ہی مثال لے لیں کیسے آج بھی پاکستانی سوشل میڈیا پر ان کا لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کا ثبوت ہے جہاں کہیں بھی محب وطن کا ذکر ہوتا ہے تو علی سدپارہ کو لازمی یاد کیا جاتا ہے ایسے بہت سے لوگ ہیں جو ہم میں تو نہیں رہے مگر ان کے نام آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔
ایسی ہی ایک مثال میں آپ کے سامنے آج رکھنے جا رہی ہیں جب کوئی ش خص اپنے روزگار کے لیے دوسرے ممالک کا رخ کرتا ہے تو اس وقت اس کے دل میں بہت تکلیف ہوتی ہے ایک اپنے وطن سے دوری اپنے ماں باپ پھر وہاں جا کر اپنی قومی زبان بھی نہیں بول سکتا میں نے کچھ عرصہ پہلے سوشل میڈیا پر ایک شخص کے بارے میں پڑھا اور بڑی خوشی ہوئی کہ آج بھی پاکستان کا نام روشن کرنے والے دنیا میں موجود ہیں ان صاحب کا نام خرم سعید چشتی جو کہ پاکستانی شہریت رکھنے والے لاہور کے رہائشی ہیں اور آج کل بحرین میں ایک نامور نجی کمپنی میں بطور منیجر برائے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
بہت خوشی ہوئی مجھے یہ جان کر کہ جب ان کو ایک انٹرنیشنل پلیٹ فارم ٹوسٹ ماسٹرز انٹرنیشنل آرگنائزیشن نے اردو سپیچ میں نیشنل تھرڈ پوزیشن حاصل کرنے پر ایوارڈ سے نوازا اور انہوں نے اپنے ملک کی قومی زبان میں سپیچ کر کے محب وطن ہونے کا ثبوت دیا میں سمجھتی ہوں یہ خرم سعید چشتی کی جیت نہیں تھی بلکہ یہ پورے پاکستان کی جیت تھی کہ جس کی مٹی کے ساتھ ایسے ستارے کا نام جڑا ہے جو کہ دوسرے ملک میں بھی رہ کر اپنے وطن عزیز کو نہیں بھولا جب میں نے ان کے بارے میں پڑھا تو مجھے خواہش ہوئی ان سے ملنے کی اور چونکہ خوش قسمتی سے یہ پاکستان میں تشریف لائے ہوئے تھے ایوارڈ کی تقریب کے لئے تو میری ملاقات ان سے ہوئی جس میں بہت سی چیزیں انہوں نے مجھے بتائی اور کہا کہ میں اپنے وطن عزیز کا نام روشن کرنے کے لیے دوسرے ممالک میں بھی کوشاں ہوں اور جس پلیٹ فارم سے ان کو ایوارڈ سے نوازا گیا ہے اور آرگنائزیشن 1924 میں قیام میں آئی اور تب سے اب تک نان پرافٹ پر کام کر رہی ہے پندرہ ہزار آٹھ سو سے زیادہ پوری دنیا میں ان کے کلب ہیں اور تین لاکھ سے زیادہ پوری دنیا میں ان کے ممبران ہیں۔ آرگنائزیشن پبلک سپیکنگ پر کام کرتی ہے اور اس اور آرگنائزیشن میں دو یا تین ممالک کو ملا کر بنایا جاتا ہے تو میں نے پاکستان کے ریجن کو ترجیح دیتے ہوئے اس میں شمولیت اختیار کی جبکہ کویت اور بحرین کا گروپ مجھے زیادہ فائدہ دے سکتا تھا مگر ان کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہنا تھا کہ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں ان چیزوں کو فروغ نہیں دیا جاتا۔
پوسٹ ماسٹرز انٹرنیشنل میں انٹرنیشنل کلب بنانے کے لیے ایک ملک میں 60 کلب کی ضرورت ہوتی ہے اور بدقسمتی سے ابھی تک پاکستان میں اس کے صرف 41 کلب موجود ہیں اور انیس کلب کی مزید ضرورت ہے جب 60 کلب ہو جائیں گے تو پاکستان بھی انٹرنیشنل کلب میں شامل ہو جائے گا اور میں دسمبر 2020 سے اس آرگنائزیشن کے ساتھ منسلک ہوں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ چاہتا ہوں کے لوگوں میں اس چیز کا شعور اجاگر کیا جائے کیونکہ یہ آرگنائزیشن پاکستان میں بھی ہماری قومی زبان کو فروغ دینے کے لیے اردو مقابلے بھی کراتی ہے۔
میں نے ان کا وطن سے محبت کا جذبہ دیکھا تو دل میں بہت خوش ہوئی کہ پاکستان سے دور پردیس میں بسنے والوں کے خون میں آج بھی اس مٹی سے وفاداری شامل ہے اور ہم پوری قوم خرم سعید چشتی کو انٹرنیشنل پبلک سپیکنگ چیمپئن ڈسٹرکٹ 122 کے چیمپئن بننے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اگر ایسے ہی لوگ ہم میں پیدا ہوتے رہے تو ہمارا وطن عزیز ہر پلیٹ فارم پر اپنا لوہا منواتا رہے گا اور میری پاکستان کے اداروں اور حکومت پاکستان سے اپیل ہے کہ ان چیزوں کو فروغ دینا چاہیے جب ہم ایسی چیزوں کو فروغ دینا شروع کر دیں گے ہماری عوام میں شعور آ جائے گا تو ہم میں ایک نہیں کئی خرم پیدا ہوں گے ہمیں اپنے ملک کا نام روشن کرنے والوں کو نہیں بھلانا چاہیے ان کو اگر ہم نظر انداز کریں گے تو ہمارا نقصان ہے اگر کوئی ملک کا نام روشن کرتا ہے تو اسے اس کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دینا چاہیے ایسے لوگوں کے بارے میں بارے میں جب میں پڑھتی ہوں یا سنتی ہوں تو اقبال کا ایک ہی شعر یاد آتا ہے
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
پاکستان سے محبت صرف جذبات تک نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمارے گفتار اور کردار میں بھی ہونی چاہیے وطن سے محبت کے اس فطری جذبے کا اسلام نہ صرف احترام کرتا ہے بلکہ پُرامن ماحول فراہم کرتا ہے جس میں رہ کر دنیا میں کہیں بھی ہوں وطن کو نہیں بھولتے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.