دوستو،بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔ ایک بوڑھے نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا۔۔ ہمارے پاس اس ملک کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک شاندار منصوبہ ہے۔ اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔ ۔راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا۔۔ ان سب کے ساتھ ایک گدھے کو کیوں قید کیا جائے؟دونوں بوڑھوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا، اور ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا۔۔دیکھا نورے، آ گیا یقین تجھے میری بات پر، میں نہیں کہتا تھا کہ بخدا اس قوم کے بارے میں کوئی بھی نہیں پوچھے گا۔ کسی کو قوم کا خیال نہیں آتا، سب کو گدھے کا خیال آتا ہے۔
باباجی فرمارہے تھے۔۔ پاکستان میں تحریک انصاف واحد ایسی سیاسی جماعت ہے جس کی خواتین ’’ٹوپیاں‘‘ پہنتی ہیں اور مرد’’دوپٹے ‘‘ ۔۔ ایک شخص نے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ فون کیا تو اس سے پوچھا گیا کہ آپ کی کیا مدد کی جا سکتی ہے؟وہ بولا۔۔ میں وزیراعظم بننا چاہتا ہوں۔۔پرائم منسٹر سیکرٹریٹ سے غصے میں کہاگیا۔۔ کیا تم پاگل ہو؟؟ ۔۔اس شخص نے اطمینان بھری سانس لی اور مزید بولا۔۔ یہ ایک ہی شرط ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور بھی ہے۔۔؟ایک آدمی فش فارم میں کانٹا لگا کر بیٹھا تھا۔ گارڈ نے دیکھا تو بھاگتا ہوا اس کے پاس پہنچا اورکہنے لگا۔۔ یہاں مچھلیاں پکڑنا منع ہے۔ چلو نکلو یہاں سے۔۔۔اس آدمی نے معذرت کی اور کانٹا پانی سے باہر نکالا جس کے ساتھ بینگن لگا ہوا تھا۔گارڈ نے حیرت زدہ ہوکر آدمی سے پوچھا۔۔۔تم بینگن لگا کر مچھلیاں پکڑ رہے تھے؟؟؟وہ آدمی بڑی معصومیت سے بولا۔۔جی ہاں۔۔ گارڈ نے طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔۔ٹھیک ہے تم پکڑو مچھلیاں،فکر کی کوئی بات نہیں۔۔اس شخص نے گارڈ کی طرف تشکرانہ انداز میں دیکھا ، کانٹا لگایا اور اسے پانی میں ڈال دیا۔۔دو گھنٹے بعد گارڈ کو وہ آدمی ایک درجن مچھلیوں کے ساتھ باہر جاتا نظر آیا۔۔گارڈ نے حیران ہو کر پوچھا۔۔ تم نے یہ مچھلیاں بینگن لگا کر پکڑی ہیں؟؟تو آدمی نے جواب دیا۔۔ نہیں وہ بینگن تو تمہارے لئے تھا۔واقعہ کی دُم: یہ قطعی غیرسیاسی ہے، اس میں بینگن اصل والا ہی ہے۔۔
آپ کو آج ہماری باتوں سے شاید سر میں درد محسوس ہونے لگا ہوگا۔۔ ایک پڑوسن نے دوسری سے کہا۔۔میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے،کوئی حل بتاؤ۔۔دوسری کہنے لگی۔۔جب میرے سر میں درد ہوتا ہے تو میرے شوہر میرا سر اپنی گود میں رکھ کر دباتے ہیں، چائے بنا کر مجھے پلاتے ہیں،تم بھی ایسا کرو۔۔ پہلی پڑوسن بڑی معصومیت سے بولی۔۔ ضرور، کب آتے ہیں تمہارے شوہر؟؟۔۔۔ اسی طرح سے بیوی نے پیار سے شوہر کا سردباتے ہوئے پوچھا۔۔ اب تو میں روز روز آپ کا سر دباتی ہوں شادی سے پہلے کون دبا تا تھا۔۔شوہرنے بیوی کی بات سن کر برجستہ کہا۔۔شادی سے پہلے کبھی سردرد ہی نہیں ہوا۔۔بات خواتین کی ہورہی ہے تو آفس سے تھکی ہاری ایک خاتون چھٹی کے بعد گھر جانے کے لئے بس میں سوار ہوئی۔۔ سیٹ پر بیٹھ کر آنکھیں موند کر تھوڑا سا ریلیکس کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔ابھی بس چلی ہی تھی کہ سیٹ کے پیچھے بیٹھے ایک صاحب نے اپنا موبائل فون نکالا اور اونچی آواز میں گفتگو شروع کردی، جو کچھ یوں تھی۔۔جان میںارمان بول رہا ہوں، بس میں بیٹھ گیا ہوں اور گھرکی طرف ہی آرہا ہوں۔۔ہاں ہاں مجھے پتہ ہے کہ سات بج رہے ہیں پانچ نہیں، بس ذرا آفس میں کام زیادہ تھا اس لئے دیر ہو گئی۔۔نہیں جان، میں شبنم کے ساتھ نہیں تھا، میں تو باس کے ساتھ میٹنگ میں تھا۔۔نہیں جان، صرف تم ہی میری زندگی میں ہو۔۔ہاں قسم سے۔۔۔ اس اونچی آواز میں مسلسل گفتگو سے خاتون کا ریلیکس کرنے کا ساراپروگرام غارت ہو چکا تھا اور وہ بہت ان ایزی محسوس کر رہی تھی۔کافی دیر بعد تک بھی جب یہ سلسلہ جاری رہا تو خاتون کی ہمّت جواب دے گئی، وہ اٹھّی اور فون کے پاس جا کر زور سے بولی۔۔۔ارمان ڈارلنگ،فون بند کرو، بہت ہوچکا، اس پاگل عورت کو اور کتنی صفائیاں دوگے؟؟اب ارمان صاحب اسپتال سے گھر واپس آچکے ہیں لیکن پبلک مقامات پر انہوں نے موبائل فون کا استعمال بالکل بند کردیا ہے۔۔۔
ایک شخص کاغذ پہ کچھ لکھ رہا تھا۔دوست نے پوچھا ۔۔ یار کیا لکھ رہے ہو؟؟ وہ شخص کہنے لگا۔۔ یار میں، اپنے آپ کو خط لکھ رہا ہوں۔۔دوست نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔خط میں اپنے آپ کو کیا لکھ رہے ہو؟؟؟وہ شخص مسکرا کرکہنے لگا۔۔ اوئے بے وقوف آدمی، جب خط مجھے ملے گا تو تب پتہ چلے گا نا کہ اِس میں کیا لکھا ہے۔۔واقعہ کی دُم: اس قصے کا امریکی مراسلے سے قطعی کوئی تعلق نہیں۔۔ایک طالبہ اپنی سہیلی سے بولی۔۔ میں نے جنرل نالج کا سارا پرچہ حل کیا مگر پھر بھی فیل ہوگئی۔ پتہ نہیں کیوں؟۔۔سہیلی نے حیرت سے پوچھا۔۔اچھا سوالات کیا آئے تھے؟۔۔طالبہ بتانے لگی۔۔ سوال تھا، گاندھی جی کہاں پیدا ہوئے؟ میں نے لکھا،چارپائی پر۔۔سوال تھا،ٹیپوسلطان کون سی لڑائی میں شہید ہوئے؟ میں نے لکھا، اپنی آخری لڑائی میں۔۔ سوال تھا،شملہ معاہدے پر دستخط کہاں پر ہوئے؟میں نے لکھا، صفحے کے آخر میں۔ سوال تھا دریائے جمناکہاں بہتاہے؟ میں نے لکھا، زمین پر۔۔سوال آیاتھا، طلاق کی بڑی وجہ کیا ہے۔؟؟ میں نے لکھا، شادی۔۔سوال آیا، تین آم سات لوگوں میں کیسے تقسیم کریں گے؟ میں نے لکھا، ملک شیک بناکر۔۔اب بتاؤ، اس میں فیل کرنے والی کیا بات تھی؟ میں نے کیا غلط جوابات دیئے تھے؟؟خاتون نے ایک بچے کو جنم دیا۔ ایک نرس باہر آئی اور بولی۔۔ماں بچہ دونوں ٹھیک ہیں۔۔ یہ کہہ کر نرس نے بچہ، بچے کے والد کے حوالے کیا، بچے کے باپ نے اپنی بہن کے حوالے کیا۔ بہن نے اپنے شوہر کو دیا، شوہر نے نانی کو دیا، نانی نے نانا کو دیا، نانانے بچے کو چچا کے حوالے کیا، چچا نے چاچی کو دیا چاچی نے بچے کو دادی کودیا اور دادی نے دادا کے حوالے کردیا۔۔گود میں بار بار ادھر سے ادھر منتقل ہونے والا بچہ بھی یہ دیکھ کر تپ کر کہہ اٹھا۔۔ دادا جان آپ لوگ یہ کیا کر رہے ہیں؟۔۔دادا مسکراکر کہنے لگے۔۔ بیٹا یہ تمام واٹس ایپ کے مرض میں مبتلا ہیں تُوابھی نیا نیا آیا ہے نا، اس لئے تجھے فارورڈ کر رہے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ کامیاب لوگ اپنے ہونٹوں پر دو چیزیں ہی رکھتے ہیں، ایک خاموشی دوسری مسکراہٹ۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.