کون پوچھے گا

76

پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی اگست 2018 سے 3 اپریل تک کئی نشیب و فراز سے گزری ،کہیں گری تو کہیں گرتے گرتے سنبھلی۔ تین اپریل کا دن ملکی تاریخ کا سیاہ ترین دن سمجھا جاے گا۔ اس دن جمہوریت تار تار ہوئی اور آئین اور قانون کا شیرازہ بکھرا۔ملک کو ڈی ریل کر دیا گیا مگر کہا جاتا ہے کہ پارلیمان کی کاروائی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
آئین کے آرٹیکل 69 ْکے تحت کارروائی نہیں ہوسکتی مگر اس معاملے کو وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو اس کی مثال ہمیں ملتی ہے جب عدالت اسمبلی کی کاروائی میں مداخلت کرتی ہے۔یہ معاملہ مدَر آف ڈیموکریسی جیسے برطانیہ میں پیش آیا تھا جہاں سینکڑوں سال سے اصول ہے کہ اسمبلی کے معاملات میں دخل نہیں کرنا وہاں بھی برطانوی سپریم کورٹ نے جہاں یورپی یونین کے حوالے سے سیشن منعقد ہونا تھا ہاؤس آف کامنز کا اس میں ریزولوشن پر ووٹنگ ہونی تھی اور وہ سیشن سپیکر نے ملتوی کر دیا تو سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ غلط ہے اور حکم دیا کہ یہ سیشن دوبارہ منعقد کروایا جائے اور اس پر ووٹنگ کروائی جائے۔ عدالت کو اس دیکھے اور اس سے ملتی جلتی ہی صورتحال قومی اسمبلی کی تھی جو بدنیتی کی عکاسی کر رہی تھی۔
پاکستان کو اس حالت میں دیکھ کر ترس آتا ہے۔اسپیکرکو تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے 14روز میں اجلاس بلانا تھا، تحریک جمع ہونے کے بعد 20  تاریخ تک اسپیکر نے اجلاس نہیں بلایااور جب اجلاس بلایا تو ڈائریکٹ ووٹنگ کیسے کروائی کیونکہ رولز کے تحت ووٹنگ سے قبل دن دن اس پر بحث ہونا بھی جس کی نشاندہی بلاول بھٹو نے بھی کی مگر انکی درخواست رد کر دی گئی جو کہ پروسیجرل ڈیفکٹ ہے۔ اگر رول 28 کا حوالہ دے کر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی تو ہی اختیار صرف سپیکر کا تھا جبکہ قاسم خان سوری صرف اجلاس کی صدارت کے اہل ہیں۔ خیر یہ عدالت دیکھے گی کہ آیا ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو آئینی تحفظ حاصل ہے یا نہیں۔
الزامات کی سیاست ہر دور میں ہوئی ، کئی نوازے گئے اور کئی مشکلات سے گزارے گئے لیکن مثال ہے سابق برطانوی ممبر پارلیمنٹ اور سابق گورنر پنجاب کی جنہوں نے ملک کے آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کئی بار اپنے عہدے سے حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہو کر دست بردار ہونا چاہا لیکن اس امید پر بیٹھے رہے کہ عمران خان شاید تبدیلی لے آئے گا۔ محمد سرور کی کاوشوں کے عوض پنجاب کو کیلیفورنیا کے سسٹر پرونس کا درجہ دیا گیا ، اس سے ملک کی ایکسپورٹ مارکیٹ میں اضافہ ہوا۔پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ ملا جب 665 ممبرز اس کے خلاف کھڑے تھے اس وقت چودھری سرور نے دانشمندی اور حکمت کا مظاہرہ کیا مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اپنے ملک کو اس حال میں دیکھنا جہاں ایک کرسی پر گالی گلوچ اور گھر تک بات پہنچا دی جاتی ہے۔
ملک پاکستان کب تک بحران کا شکار رہے گا ، کیا ہم اس قسم کے سرپرائز کے متحمل ہوسکتے ہیں جہاں عثمان بزدار پنجاب کا چیف منسٹر لگا دیا جائے اور کارکردگی کی بنا پر فیصلہ نہ کرتے ہوئے بقول سابق گورنر پنجاب کسی کو بھی بشمول میرے علیم خان ، شاہ محمود ،جہانگیر ترین کسی کو بھی اس ذمہ داری کے لئے اہل نہیں سمجھا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو 184 ارکان میں سے کوئی بندہ پسند نہیں آیا.تبدیلی سرکار کی کارکردگی سیٹ لو سیٹ دو کی نظر ہوگئی اور ان سالوں میں رشوت کا بازار گرم رہا۔ تقرر اور تبادلوں میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں آئی جی کے تبادلے ، سیکرٹریز کی تعیناتی اور بہت کچھ جو کسی سے چھپا نہیں۔
ہر بات پر مسکرا کر عمران خان کے ساتھ چلنے والے انکے احباب بھی آج انکے ساتھ نہیں ہیں۔ عمران خان کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ چند سیاسی راہنما جنہوں نے کرسی پر بیٹھ کر بھی کام نہیں کیا ما سواے انکو احمقانہ مشورے دینے کے ، پاکستان کو اس نہج پر لا کھڑا کر دیا ہے جہاں اس وقت کوئی حکومت نہیں ہے اور آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔
مجھے بلھے شاہ کا شعر یاد آتاہے۔
جِناں قدر نہ کیتی یاراں دی
ہتھ خالی او ملدے ویکھے

تبصرے بند ہیں.