وہ سیاست میں کیوں آیا؟

57

موصوف اکثر اپنی تقریروں میں فرماتے ہیں ’’میرے پاس تو اللہ کا دیا ہوا سب کچھ تھا عزت یا شہرت‘ دولت سب کچھ تھا‘ مجھے کیا مصیبت پڑی تھی سیاست میں آتا اور اپنا سارا سکون آرام برباد کر لیتا‘ میں تو دنیا کے کسی بھی خوبصورت مقام پر رہ کر بڑی آرام دہ زندگی گزار سکتا تھا‘ مگر میں سیاست میں اس لئے کہ مجھ سے پاکستان میں لوگوں کی محرومیاں دیکھی نہیں جا رہی تھیں‘ دو سیاسی جماعتیں بار بار اقتدار کی باریاں‘ یاریاں لگا کر لے رہی تھیں اور ملک اور عوام تیزی سے پستی کا شکار ہو رہے تھے‘ چنانچہ میں نے سوچا ان جماعتوں سے عوام کو نجات دلانی چاہئیے تاکہ پاکستان صحیح معنوں میں ترقی کر سکے‘‘ جب تک وہ وزیراعظم نہیں بنے تھے ان کی نااہلیاں و ناکامیاں کھل کر ہمارے سامنے نہیں آئی تھیں تب تک تو ان کے اس موقف میں ہمیں بڑی جان محسوس ہوتی تھی مگر وزیراعظم بننے کے بعد جس طرح کی ’’کارکردگی‘‘ کا انہوں نے مظاہرہ کیا اس سے ثابت ہو گیا وہ سیاست میں خدمت کا نہیں اور ہی کوئی جذبہ لے کر آئے تھے… وہ کرکٹ سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے بطور کرکٹر جو شہرت دنیا بھر میں خصوصاً پاکستان میں انہیں ملی اس سے قبل شاید ہی کسی اور کرکٹر کو ملی ہو گی‘ اس کی ایک بڑی وجہ 1992ء کا وہ ورلڈ کپ تھا جو بطور کپتان کرکٹ ٹیم انہوں نے جیتا تھا‘ ظاہر ہے اس سے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن ہوا‘ پھر اس شہرت کو انہوں نے ایک اچھے فلاحی کام کے لئے کیش کروایا‘ انہوں نے لاہور میں پہلے کینسر ہسپتال (شوکت خانم میموریل) کی بنیاد رکھی‘ شوکت خانم ان کی والدہ محترمہ کا نام تھا‘ یہ ہسپتال انہوں نے ان ہی کی یاد میں قائم کرنے کا سوچا تھا‘ یہ لاہور میں بلکہ اس وقت شاید پورے پاکستان میں کینسر کے مریضوں کے علاج خصوصاً کینسر کے مستحق مریضوں کے مفت علاج کا پہلا ہسپتال تھا‘ اس ہسپتال میں انہوں نے ایک ایسا نظام متعارف کروایا جہاں غریبوں اور امیروں کے ساتھ یکساں سلوک ہوتا تھا‘ شوکت خانم کی ہر وارڈ میں دو کمرے تھے دونوں میں کس کا علاج مفت یعنی زکوۃ فنڈ سے ہو رہا ہے کس کا معاوضہ دے کے ہو رہا ہے؟ سوائے ہسپتال کی انتظامیہ یا ہسپتال کے کچھ ڈاکٹرز کے کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا… شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لئے عمران خان کی وہ شہرت بہت کام آئی جو کرکٹ میں ورلڈ کپ جیت کر انہوں نے حاصل کی تھی‘ بطور کرکٹر ان کے حوالے سے یہ تاثر بھی قائم تھا وہ ایک ایماندر آدمی ہیں اور ملک و قوم کی عزت و آبرو پر کوئی سودے بازی نہیں کر سکتے‘ جیسا کہ ہمارے کرکٹ کے کچھ اور کھلاڑیوں سے یہ تاثر جڑا ہوا تھا کہ ’’انہوں نے کرکٹ کو ناجائز کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے‘‘ خان صاحب کی ایمانداری کے تاثر نے بھی شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کی فنڈ ریزنگ میں بڑا اہم کردار ادا کیا‘ لوگوں نے شوکت خانم کی تعمیر کے لئے دل کھول کر پیسے دیئے‘ حتیٰ کہ پاکستانی سکولوں کے بچوں نے بھی اپنی جیبیں خالی کر دیں‘ خواتین نے اپنے زیورات تک بیچ دیئے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی دل کھول کر مدد کی‘ یوں محسوس ہو رہا تھا پوری دنیا کے انسان دوستوں کا یہ ایک مشترکہ منصوبہ ہے جس کی تکمیل کا فریضہ انہوں نے خان صاحب کو سونپ دیا ہے… کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی شہرت بطور کرکٹر ابھی برقرار تھی کہ شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے حوالے سے نئی شہرت ان سے جڑ گئی اس شہرت کو اس وقت چار چاند لگ گئے جب اس ہسپتال کی پاکستان میں فنڈ ریزنگ کے لئے ہندوستان سے بڑے بڑے فنکاروں کو انہوں نے پاکستان بلایا‘ خصوصاً دلیب کمار‘ سائرہ بانو اور عامر خان کو جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے پاکستانی عوام ترستے تھے‘ ایک طویل جدوجہد کے نتیجے میں شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال تعمیر ہوا‘ اس نے کام شروع کر دیا اور دنیا بھر میں اسے عمران خان کا بڑا کارنامہ سمجھا جانے لگا‘ اس کارنامے پر دنیا بھر میں انہیں بہت پذیرائی ملی خصوصاً بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دلوں میں ان کی محبت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا‘ اگر سالہا سال قائم رہنے والی حکومتوں نے پاکستان میں دو چار ہسپتال کینسر کے علاج کے بنائے ہوتے کم از کم ہسپتال کی تعمیر کے حوالے سے خان صاحب کو شاید اتنی پذیرائی نہ ملتی‘ عوام نے اس بات کو بہت سراہا کہ جو کام بڑی بڑی حکومتیں نہیں کر سکیں وہ خان صاحب نے کر دکھایا‘ گو کہ یہ کام انہوں نے پلّے سے نہیں کیا تھا اس کے باوجود لوگ اس کارنامے کو ان کے ذاتی کھاتے میں ڈال رہے تھے‘ اس ہسپتال کے لئے جگہ اس وقت کے وزیراعلیٰ نوازشریف نے فراہم کی‘ یہ وہ زمانہ تھا جب نوازشریف اور خان صاحب ایک دوسرے کے قدردان تھے نوازشریف ان کے بطور ایک کرکٹر قدر دان تھے اور ظاہر ہے خان صاحب ان کے بطور وزیراعلیٰ پنجاب قدردان ہوںگے‘ اس وقت انہیں یہ خیال یقیناً نہیں آیا ہو گا کہ یہ ’’پودا‘‘ جنرل جیلانی کا لگایا ہوا ہے‘ خان صاحب اب یہ بات بار بار کہتے ہیں تو ان کی اخلاقی حالت پر افسوس ہوتا ہے‘ شکر ہے اس کے جواب میں ان کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ دیتا کہ ’’یہ پودا جنرل شجاع پاشا لگایا تھا‘‘ اس وقت کے وزیراعلیٰ نوازشریف نے شوکت خان کے لئے جگہ فراہم کی خان صاحب نے کئی بار کھلے دل سے اعتراف کیا کہ اس وقت انہیں یہ جگہ نہ ملتی یہ ہسپتال وہ شاید قائم نہ کرپاتے… شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کا سارا کریڈٹ جب ہم خان صاحب کو دیتے ہیں تو تھوڑا بہت کریڈٹ نوازشریف کو بھی دینا چاہئیے جنہوں نے بطور وزیراعلیٰ جگہ فراہم کی‘ البتہ  نوازشریف نے بطور وزیراعلیٰ پنجاب اور بعد میں بطور وزیراعظم پاکستان کینسر کے علاج کے لئے دوچار ہسپتال پاکستان میں بنا دیئے ہوتے اور ان کا نظام بھی اسی طرح چلایا جاتا جس طرح صاف شفاف طریقے سے شوکت خانم ہسپتال کا چلایا گیا تو کم از کم شوکت خانم ہسپتال کے حوالے سے خان صاحب کو ملنے والی مقبولیت ان کے اقتدار کی راہ ہموار نہ کرتی‘ شوکت خانم کینسر ہسپتال کے انتظامی معاملات اس قدر عمدگی سے چلائے گئے اس سے تاثر ابھرا عمران خان جیسے شخص کی ملکی سیاست کو اشد ضرورت ہے‘ تاکہ وہ ملک کا نظام بھی اسی طرح عمدگی سے چلائیں جس طرح شوکت خانم ہسپتال کا چلایا جا رہا ہے‘ عمران خان کو جب کچھ دوستوں نے سیاست میں آنے کا کہا اس نے کہا وہ اس گندگی کا حصہ نہیں بن سکتے‘ انہوں نے کہا میرا اس شعبے میں کوئی تجربہ نہیں ہے… پھر وہ اس گندگی (سیاست) کا حصہ بننے کے لئے کیوں تیار ہوئے؟ یہ میں آپ کو اگلے کالم میں بتائوں گا۔  (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.