لاہوروالے کرکٹ کو کوسنے پر مجبور ۔۔۔

25

سری لنکا کی ٹیم کے ساتھ ایک حادثہ ہوا اس وقت دہشت گردی عروج پر تھی اور پاکستان میں کرکٹ کا خاتمہ ہو گیا ٹیم کو دبئی جا کر کھیلنا پڑتا تھا خیر آہستہ آہستہ کرکٹ بحال ہونا شروع ہو گئی ۔لیکن بدقسمتی سے جب بھی لاہور میںمیچ ہوتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انتظامیہ سری لنکا کرکٹ ٹیم پر حملے کا بدلہ شہریوں سے لے رہی ہے ۔ عوام خوش تھے کہ انکے شہر میں میچ ہو رہے ہیں دیکھنا بھی چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف انتظامیہ کی ناقص منصوبہ بندی  شہریوں کو یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ ان کرکٹ میچزکو  دوبارہ  دبئی لے جائو ۔جونہی ٹیم آتی ہے سارا شہر بند کر دیا جاتا ہے لوگ منٹوں کا فاصلہ گھنٹوں میںطے کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ،ایمبولینس میں بیٹھے مریضوں کے لواحقین انتظامیہ کے ناقص انتظامات کو کوس رہے ہوتے ہیں لیکن کیا کریں ایمبولینس کو راستہ ملے گا تو وہ چلے گی ۔اس میںکوئی شک نہیں کہ پاکستان میں کھیلوں کا فروغ ضروری ہے لیکن اس کی قیمت شہریوں کو پریشان کرنا ہر گز نہیں بلکہ اچھے انتظامات کرکے اس کا حل کرنا چاہئے  تاکہ شہری کرکٹ کو کوسنے کی بجائے اس سے لطف اندوز ہوں ۔پی سی بی نے بھی لگتا ہے اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کی بس وہ اپنے چکروں میں مصروف ہیں کہ بھاری بھرکم تنخواہوں کو مزید کس طرح بھاری کیا جائے ۔حالانکہ قذافی سٹیڈیم میں اتنی جگہ موجود ہے کہ وہاں ایک اچھا فائیو سٹار ہوٹل  بنایا جا سکتا ہے کئی مرتبہ یہ منصوبہ زیر غور آیا لیکن لگتا ہے کہ ہمیشہ کاغذوں کی نذر ہو گیا ۔اگر یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ جاتا تو شہری ٹریفک کی اذیت سے بچ جاتے اور ٹیم بھی زیادہ محفوظ ہو جاتی ،اگر یہ ممکن نہیں تو کھلاڑیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی ہوٹل سے سٹیڈیم تک لایا جا سکتا ہے ۔اسکے علاوہ بھی بہت سے حل ممکن ہیں لیکن کیا کر سکتے ہیں ہم اپنی انتظامیہ اور اپنی حکومت کی سوچ کا جو شہریوں کو پریشان کر کے زیادہ خوش ہوتی ہے۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے نمبر ون آنے والے وزیر اعلی جناب عثمان بزدار بھی اس کا نوٹس نہیں لے رہے کہ ان کے شہر میں اس وقت یہ مسئلہ درپیش ہے غالبا وہ کوئی نیا سروے بنانے میں مصروف ہیں جس میں یہ ثابت کیا جا سکے کہ پنجاب کرپشن فری ہو چکا ہے مہنگائی کا نام و نشان نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔افسوس کہ عوامی مسائل حل کرنا  اس حکومت کی ترجیحات ہی نہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس  حکومت کی نااہلی کو وجہ سے جہاں عوام بہت سے عذاب بھگت رہے ہیں وہاں ہوشربا مہنگائی کے ہاتھوںبھی مر رہے ہیں ۔ویسے تو مرکزی اور صوبائی حکومتوں کیلئے یہ ساڑھے تین سالہ دورشرم ساری کا باعث ہونا چاہیے اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اونٹ رے اونٹ تری کونسی کل سیدھی مگر جب آنکھوں کے دیدے ہی خشک ہو جائیں تو پھر اپنے عہد کے بد ترین دور پر بھی مبارکبادیں ہی وصول کی جاتی ہیں مجال ہے کہ کسی  نے بھی عوام کے سامنے آ کر اپنی ناقص کار گزاری پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے معذرت کی ہو اور عہد کیا ہو کہ وہ ساری کسر اپنے آئندہ سال میں نکال دیں گے پوری قوم کو حیرت ہے اور پشیما نی ہے کہ وہ کس قسم کے حکمرانوں کا انتخاب کر بیٹھی ہے۔اور اب تو وزیر اعظم خود بھی اعتراف کر بیٹھے ہیں کہ وہ تبدیلی لانے میں ناکام ہو چکے ہیں باقی جو انھوں نے اپنے وزراء کی کارکردگی رپورٹ پیش کی ہے اس سے اس حکومت کی قلعی کھل چکی ہے ۔یہاں انکی کارکردگی پر ایک ہی وزیر کی مثال کافی ہو گی خسرو بختیار جو ٹاپ ٹین میں شامل ہیں کی اس ساڑھے تین سالہ دور میں تین وزارتیں ناقص کارکردگی کے باعث تبدیل ہو چکی ہیں بہت سے میگا اسکینڈل میں بھی ان کا نام سر فہرست ہے نیب میں بھی کیس ہے اس کارکردگی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کیوں چھٹے نمبر پر آئے ۔اسی ایک مثال سے باقی وزراء کی کارکردگی کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔خیر کیا کہہ سکتے ہیں جس حکومت میں عثمان بزدار نمبر ون وزیر اعلی ہو سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں کہ خسرو بختیار کا نمبر اچھا آ جائے ۔ یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ نام نہاد جمہوری دور میں عوام کو روٹی روز گار ، مہنگائی ، غر بت ، بیروز گاری اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سے متعلق مسائل پر قابو پانے اور ان میں کمی لانے کی بجائے یہ مسائل ملک و قوم کیلئے گمبھیر بنا دئیے گئے ہیں اور عوام سے سکون کے ساتھ زندہ رہنے کا حق بھی چھینا جا رہا ہے پیٹرولیم مصنو عات اور سی این جی کے نرخوں میںہر پندرہ روز بعد اضافے کو عوامی حلقوں میں حکمرانوں کی جانب سے چوتھے سال میں داخل  ہونے کی خوشی میں قوم کو دئیے گئے تحفے سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور یہ انتہائی افسو سناک صورتحال ہے کہ عوام کے حقو ق کی بات کرنے والے حکومتی اتحادی بھی مصلحتوں اور مفاہمتوں کا لبادہ اوڑ ھے عوام کو کند چھری سے ذبح ہوتے دیکھ رہے ہیں جنہیں ملک میں  ہو شر بامہنگائی  پر پارلیمنٹ کے فورم پر کوئی احتجاج کرنے یا تحریک لانے کی ضرورت محسوس ہوئی نہ انہیں سڑکوں پر عوام کیساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کی تو فیق ہوئی اس وقت جبکہ نئے انتخابات کے مراحل شروع ہونے والے ہیں حکمر انوں اور حکومتی اتحادیوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ وہ عوام پر کند چھری چلانے کے بعد کس منہ سے ان کے پاس جائیں گے۔ جبکہ متبادل قیادت کہلانے والی اپوز یشن کو بھی اب بخو بی اندازہ لگا لینا چاہیے کہ وہ عوام کے قاتل حکمرانوں کے اقتدار کے سسٹم کے تحفظ کے نام پر مزید سہارا دینے کی پالیسی پر ہی عمل پیرا رہیں گے تو عوام انہیں بھی حکمرانوں کے پلڑے میں ڈال کر راندہ درگاہ بنا سکتے ہیں کیو نکہ اب عوام ’’تنگ آمد بجنگ آمد ‘‘کی نوبت تک پہنچ چکے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.