دہشت گردی کی نئی لہر

58

ابھی چند روز پہلے ،یعنی ما ہِ رواں کی تین تا ریخ کو بلو چستان کے علا قے پنج گور اور نو شکئی میں ہو نے وا لی دہشتگردی کے وا قعا ت کی ذرا ٹائمنگ ملا حظہ فرمائیں۔ یہ واقعات عین اس روز ہو ئے جس روز وزیرِ اعظم عمران خان چین جا رہے تھے۔ پھر دہشت گردوں کا جو چھوڑا گیا اسلحہ ہا تھ لگا وہ امریکن ساخت کا تھا۔ اور اب خبر آ چکی ہے کہ پا کستان کے چین میں اعلیٰ وفد کی موجودگی میں امریکہ کے خلاف چین اور روس کا اتحاد تشکیل پا چکا ہے۔ امریکہ جیسی سپر پاور کا پاکستان کے خلاف یوں چھوٹے پن پہ اتر آنا ایک اوچھی حرکت ہی تو شمار ہو گی۔ ایک اور امر جو قابلِ تو جہ ہے، وہ یہ ہے کہ جب تک امریکہ بہادر اپنی دیگر اتحادی فو جوں کے ہمرا ہ افغا نستان میں مو جو د تھا تووہ اس بنا پر کہ اس کے رسد کے کنٹینروں کو چونکہ بلوچستان سے گزرنا ہو تا تھا تو وہ بلو چستان میں امن کا خواہا ں ہوا کر تا تھا۔ اور اب حالا ت کچھ یو ں پلٹا کھا چکے ہیں کہ وہ وہاں بھارت کے ساتھ مل کر بد امنی پھیلانے کا خواہاں ہے۔ بھا رت کی دلی خوا ہش یوں بر آ رہی ہے کہ وہ عرصے سے بلوچستان کو منتشر حالت میں دیکھنا چاہ رہا تھا۔ یوں پنج گو ر اور نو شکئی کے مقا ما ت پر دہشت گردوں نے پاک فوج کے کیمپس کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی مگر بروقت جوابی کارروائیوں میں درجن بھر دہشت گردوں کو ہلاک کردیاگیا۔ یہ حملے افغانستان سے آپریٹ ہورہے تھے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ہاتھ دہشت گردوں کے افغانستان اور بھارت میں اپنے ہینڈلرز سے رابطہ کے ٹھوس شواہد ہاتھ آئے ہیں۔ بھارت طویل مدت سے بلوچستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کو سپورٹ کررہا ہے۔ اس مقصد کے لیے افغانستان کی سرزمین کا استعمال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران پاکستانی اداروں اور حکومت نے اس حوالے سے مصدقہ اطلاعات پر مبنی دستاویزات اقوام عالم اور اقوام متحدہ کو متعدد بار پیش کیں۔ ایسے شواہد کسی ریاست میں ناپسندیدہ مداخلت اور دہشت گردی کی اعانت کے زمرے میں شمار کیے جاتے ہیں اور انہیں دنیا کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے مبنی بر انصاف موقف اختیار کیا جائے۔ مگر بدقسمتی سے بھارت کے معاملے پر بااثر اقوام عالم اپنی اصول پسندی کو بالائے طاق رکھ دیتی ہیں۔ پاکستان کو دنیا کی اسی لاپروائی کا سامنا ہے جو بھارتی مداخلت، تخریب کاری اور دہشت گردی کی معاون بن چکی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے ہاتھ اختیار آجانے سے امید پیدا ہوئی تھی
کہ افغان سرزمین بھارت کے ہاتھوں مزید استعمال نہیں ہوگی، مگر اب تک ایسا ہوتا نظر نہیں آتا طالبان کے ہاتھ اختیارات آنے کے بعد کچھ وقت تک بھارت کے لے پالک پاکستان دشمن عناصر اگرچہ زیرزمین رہے مگر اب دہشت گردی کے واقعات کے تسلسل سے یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ وہی دہشت گرد دوبارہ سر اُٹھارہے ہیں جبکہ افغان طالبان جو مسلسل ایسی یقین دہانیاں کرانے میں مصروف ہیں کہ اپنی سرزمین کس کسی بھی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، اپنے ان دعووں کو پورا کرنے میں فی الحال کامیاب نظر نہیں آتے۔ مان لیتے ہیں کہ افغان طالبان کے لیے سردست اپنے لیے بہت مشکلات ہیں اور ملکی نظام چلانے کے لیے ان کی استعداد محدود ہے، اس کے باوجود ان کے لیے پاکستان دشمن اور بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی یقینی بنانا مشکل نہ تھا، مگر اس دوران جب پاکستانی اداروں کے ساتھ پیشہ ورانہ ہم آہنگی بڑھانے کی ضرورت تھی افغان اہلکار دونوں ملکوں کی سرحد پر باڑ کے منصوبے کی اہمیت کو سمجھنے میں بھی غلطیاں کرتے رہے۔ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا، اس کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس دوران دہشت گرد گروہوں میں ایک دوسرے سے قربت اور ممکنہ اتحاد بھی تشویش ناک ہے۔ یہ صورت حال عالمی دہشت گرد گروہ داعش کی مدد اور رہنمائی کے بغیر ممکن نہیں جس سے سکیورٹی کے دور رس خدشات پیدا ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے مشیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو گزشتہ روز اپنی پریس کانفرنس میں داعش اور نام نہاد قوم پرستوں کی جانب سے سکیورٹی خطرات کا ذکر کررہے تھے۔ سکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے تازہ ترین حملوں کو جس پیشہ ورانہ مہارت سے ناکام بنایا اور حملہ آوروں کو نیست و نابود کیا یہ کامیابی تحسین کی مستحق ہے۔ ان تازہ ترین کامیابیوں کو دہشت گردوں کے خلاف اولوالعزم، مربوط اور سلسلہ وار کارروائیوں کا نقطہ آغاز ثابت ہونا چاہیے۔ انٹیلی جنس کے نظام کو بہتر بنانا از بس ناگزیر ہے تاکہ ممکنہ خطرات سے بروقت نمٹا جاسکے۔ اس سلسلے میں سول اور عسکری اداروں میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے ماضی میں دہشت گردوں کے خلاف جو کامیاب آپریشن کیے، وہ سکیورٹی اداروں کی غیرمعمولی پیشہ ورانہ مہارت کی دلیل ہیں۔ ان تجربات کو بلوچستان میں پائیدار قیام امن کے لیے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ اس دوران ملک بھر میں سکیورٹی کی صورت حال بہتر بنانے کی ضرورت بھی ہے تاکہ تحفظ کی فضا برقرار رہے۔ بہرکیف ملکی امن و سلامتی کے دشمنوں کے خلاف نتیجہ خیز کارروائی ہی پائیدار امن کی ضمانت ثابت ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں افغان طالبان کو دوبارہ ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی ضرورت ہو تو وہ بھی کرلیا جائے۔ اگرچہ مشیر قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف ابھی پچھلے ہفتے افغانستان کا دورہ کر کے آئے ہیں جہاں انہیں یقین دلایا گیا تھا کہ افغانستان اپنی سرزمین کو دہشت گردی کی معاونت میں استعمال نہ ہونے دینے کے لیے پُرعزم ہے مگر یہ یقین دہانی جب تک عمل میں نہیں ڈھلتی، اس وقت تک طالبان کو اس جانب توجہ دلاتے رہنا پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ شنید ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی ان دنوں شدید خلفشار کا شکار ہے۔ دہشت گرد گروہ کی بیخ کنی کا اس سے بہتر موقع کیا ہوگا؟ افغان سرزمین پر چھپے بیٹھے دیگر دہشت گرد گروہوں، جن میں انتہا پسند قوم پرست گروہ بھی شامل ہے جو بھارتی پے رول پر انتہا پسندی اور عدم استحکام کا محرک بن رہے ہیں، کے خلاف افغان سرزمین پر مؤثر کارروائی کا بھی انتظار ہے۔ پاکستان کو اپنی پالیسی کا دامن ضرور وسیع رکھنا چاہیے تاکہ جو بھٹکے ہوئے عناصر قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے پلٹ آئیں ان کے لیے گنجائش موجود ہو مگر جو ریاست اور عوام کے خلاف ہتھیار بند ہے اور دہشت گردی پر آمادہ، اسے ہر حال میں کیفر کردار تک پہنچایا جانا ضروری ہے۔

تبصرے بند ہیں.